نور وجدان
لائبریرین
پاکستان کو اقبال کے خواب کہا جاتا ہے جبکہ قائد اعظم کو اس کی تعبیر کہا جاتا ہے ۔ دونوں رہنماؤں کی انتھک کاوشوں کی بدولت پاکستان دنیا کے نقشہ پر اُبھرا ۔ پاکستان بنتے ناجانے کتنی قربانیاں دینی پڑیں ۔ ماں کو بیٹا ، بہن کو بھائی اور بیٹی کو باپ سے جدا ہونا پڑا اور کچھ نے اپنی عزت کی خاطر خودکشی کرلی ۔ کچھ کی عزتوں کے جنازے ہندؤں ، سکھوں کے سر پر ٹھہرے تو مسلمانوں نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ، دین اسلام کی حرمت برقرار رکھتے سکھوں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ۔ اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کہتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔ خون کی ہولی کھیلی تقسیم کے بعد کھیلی گئی اور کشمیر انا کی جنگ بنتے پاکستان اور بھارت کے درمیان لٹکتی تلوار بن گیا ۔ قائد اعظم نے اس خطے کی افادیت کو اجاگر کرتے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تشبیہ دیتے پہلا اسلامی جہاد شروع کروایا ۔ پاکستان پر پہلا اسلامی تجربہ کرتے قائداعظم سکون کی نیند سو گئے ۔ بقول شخصے ان کو زہر دے کے شہید کیا گیا ۔
اقبال اور سر سید دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کا نام روشن کرنے کے لیے انتھک کوشش کی ۔ دونوں باہر سے پڑھ کے آئے تھے جبکہ ایک سر سید احمد خان کو اس بات پر کافر اور ملحد کا خطاب مل گیا انہوں نے انگریزوں کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا ، انہوں نے منقولات سے ہٹتے معقولات کی طرف توجہ دلائی تھی ، انہوں نے سائنسی دروازے مسلمانوں پر کھولتے ہوئے یونیورسٹیز کھولنے کا عزم کیا اور تعلیم کو فروغ دیا۔ قران مجید کو الہامی کتاب کہتے اجہتاد کے بارے توجہ دلائی ۔اقبال نے بھی مسلمانوں کے لیے شکوہ کیا ، تہذیبی زوال پر روشنی ڈالتے قرانی افکار سے وہی باتیں اشعار میں ڈھالیں جو بیشتر منقولات تھیں ۔ اس طرح ایک بطور رہنما پاکستانی کا قومی شاعر ٹھہرا دیا گیا۔ اکبر کے زمانے میں سائنس نے کافی ترقی کی جس کی وجہ یقینا اسلام نہیں تھا مگر اسلام کا جزولاینفک تفکر ، تدبر کو اپنانا۔معقولات کی انتہا پر پہنچ کے اکبر نے اسلامی افکار کو غلط ملط کردیا ۔معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے تمام صوفیانہ افکار کو رد کرتے شریعت کی اہمیت کو اجاگر کردیا ۔ اورنگ زیب کی اس سلسلے میں فتاوی عالمگیری بہت اہم کتاب ہے ۔ اس طرح معاشرے میں لبرل ایکسٹریمست اور کنزرویٹو اکسٹریمسٹ پیدا ہوگئے ۔ جبکہ سر سید سکول آف تھاٹ سے نکلتے لوگ درمیان راہ اپناتے منقولات و معقولات سے کام لیتے اسلام کا اچھا تاثر چھوڑ گئے ۔
میری چند خواتین سے گفتگو اس تحریر کو لکھنے کا محرک بنی ہے ۔ معاشرتی جائزہ اسی گفتگو میں بہتر کھلتا ہے ۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے کا ''کانا '' ہے ۔ اگر کوئی بھتہ خور ہے تو دکاندرا نے فحاشی کے لیے راہیں ہموار کررکھیں اس لیے دونوں کا کام ایک ہی ہے ، دونوں کے مفادات یکساں ہیں ۔ اپنے نفس کی تسکین ، پیسے کا حصول ، لوگوں میں اثر رسوخ ----- دہی بھلے کی دکان سے لے کے ، آئس کریم پارلز سے شنگریلا تک اور شنگریلا سے ہارڈیز اور نا جانے کتنی ایسی جگہوں پر کھلے عام اسلامی افکار کی توہین ہوتی رہتی ہے ۔ اور تو ایسے تماشے کھلے عام سڑکوں پر اسکول گرلز اور بوائز کے مابین دیکھے گئے ۔ کہیں پر کوئی خاص سڑک مقرر ہے جس میں حوا کی بیٹی اللہ تعالیٰ کی قائم شدہ حدوں کو پھلانگ رہی ہے تو کہیں یہ کام کھلے عام اکیڈمیز میں چل رہا ہے ۔ یہ روداد ملتان اور لاہور کی سن کے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ دو قومی نظریہ تو کب کا ناکام ہوگیا جب پختونون نے اور بلوچیوں نے اپنا ملک بنانے کا عزم کیا ۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ پہلے ہندوؤں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اب ہم کس سے آزادی چاہتے ہیں ؟ وہ جو دکاندار جو سڑک پر چلتی حوا کی بیٹی کو زبردستی اڑا لے جانے والے لوگوں کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے کان ہیں ۔ کیا وہ ٹیچر جو ایک اپنی شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے یا وہ مولوی جس نے معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے ؟ اس وقت غازی علم دین کو شہید قرار دینے والے اقبال سے کون پوچھے کہ جب مسلمان مسلمان کو قتل کرے گا تو تب کیا ہوگا ؟ قانون وہی ہوگا مگر قاتل بھی مسلمان ہوگا اور مقتول بھی ۔۔۔ دونوں ہی شہیدا کہلائیں گے مگر دونوں ہی جھٹلا دیے جائیں گے ۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا سر سید ؟ کیا اقبال ِ؟ کیا قائد؟ کیا اکبر ؟ کیا صوفی ازم ؟ کیا اورنگ زیب ؟ آج بھی وہی قربانیاں دی جارہی ہیں جو تقسیم کے وقت دی گئیں ۔ آج پھر سے پاکستان کے ٹکروں کی بات ہو رہی ہے ؟ آج اگر بیٹی اپنے باپ کے گھر ، اسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے قربان کردیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا تقلید یا استدالال ؟ آج پولیس انسپکٹر کے ہاتھ عورت محفوظ نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی گھناؤنے کام میں مصروف ہے تو اس کا سبب کیا ہے ؟
اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر اور رہنما ہے ؟
سر سید احمد خان کا منقولات اور معقولات کو لے کے چلنا معاشرتی انجیرنگ میں مددگار ہو سکا ؟
قائد اعظم کا پاکستان بنانا ---مسلم اکثریتی صوبوں کی تقسیم ہونا ، مسلم ریاستوں کا ہندوستان میں رہنے دینا جس نے کشمیر کے لیے راہ ہموار کردی ، اس نے موجود پاکستان کی بنیاد رکھی ؟
اقبال اور سر سید دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کا نام روشن کرنے کے لیے انتھک کوشش کی ۔ دونوں باہر سے پڑھ کے آئے تھے جبکہ ایک سر سید احمد خان کو اس بات پر کافر اور ملحد کا خطاب مل گیا انہوں نے انگریزوں کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا ، انہوں نے منقولات سے ہٹتے معقولات کی طرف توجہ دلائی تھی ، انہوں نے سائنسی دروازے مسلمانوں پر کھولتے ہوئے یونیورسٹیز کھولنے کا عزم کیا اور تعلیم کو فروغ دیا۔ قران مجید کو الہامی کتاب کہتے اجہتاد کے بارے توجہ دلائی ۔اقبال نے بھی مسلمانوں کے لیے شکوہ کیا ، تہذیبی زوال پر روشنی ڈالتے قرانی افکار سے وہی باتیں اشعار میں ڈھالیں جو بیشتر منقولات تھیں ۔ اس طرح ایک بطور رہنما پاکستانی کا قومی شاعر ٹھہرا دیا گیا۔ اکبر کے زمانے میں سائنس نے کافی ترقی کی جس کی وجہ یقینا اسلام نہیں تھا مگر اسلام کا جزولاینفک تفکر ، تدبر کو اپنانا۔معقولات کی انتہا پر پہنچ کے اکبر نے اسلامی افکار کو غلط ملط کردیا ۔معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے تمام صوفیانہ افکار کو رد کرتے شریعت کی اہمیت کو اجاگر کردیا ۔ اورنگ زیب کی اس سلسلے میں فتاوی عالمگیری بہت اہم کتاب ہے ۔ اس طرح معاشرے میں لبرل ایکسٹریمست اور کنزرویٹو اکسٹریمسٹ پیدا ہوگئے ۔ جبکہ سر سید سکول آف تھاٹ سے نکلتے لوگ درمیان راہ اپناتے منقولات و معقولات سے کام لیتے اسلام کا اچھا تاثر چھوڑ گئے ۔
میری چند خواتین سے گفتگو اس تحریر کو لکھنے کا محرک بنی ہے ۔ معاشرتی جائزہ اسی گفتگو میں بہتر کھلتا ہے ۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے کا ''کانا '' ہے ۔ اگر کوئی بھتہ خور ہے تو دکاندرا نے فحاشی کے لیے راہیں ہموار کررکھیں اس لیے دونوں کا کام ایک ہی ہے ، دونوں کے مفادات یکساں ہیں ۔ اپنے نفس کی تسکین ، پیسے کا حصول ، لوگوں میں اثر رسوخ ----- دہی بھلے کی دکان سے لے کے ، آئس کریم پارلز سے شنگریلا تک اور شنگریلا سے ہارڈیز اور نا جانے کتنی ایسی جگہوں پر کھلے عام اسلامی افکار کی توہین ہوتی رہتی ہے ۔ اور تو ایسے تماشے کھلے عام سڑکوں پر اسکول گرلز اور بوائز کے مابین دیکھے گئے ۔ کہیں پر کوئی خاص سڑک مقرر ہے جس میں حوا کی بیٹی اللہ تعالیٰ کی قائم شدہ حدوں کو پھلانگ رہی ہے تو کہیں یہ کام کھلے عام اکیڈمیز میں چل رہا ہے ۔ یہ روداد ملتان اور لاہور کی سن کے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ دو قومی نظریہ تو کب کا ناکام ہوگیا جب پختونون نے اور بلوچیوں نے اپنا ملک بنانے کا عزم کیا ۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ پہلے ہندوؤں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اب ہم کس سے آزادی چاہتے ہیں ؟ وہ جو دکاندار جو سڑک پر چلتی حوا کی بیٹی کو زبردستی اڑا لے جانے والے لوگوں کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے کان ہیں ۔ کیا وہ ٹیچر جو ایک اپنی شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے یا وہ مولوی جس نے معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے ؟ اس وقت غازی علم دین کو شہید قرار دینے والے اقبال سے کون پوچھے کہ جب مسلمان مسلمان کو قتل کرے گا تو تب کیا ہوگا ؟ قانون وہی ہوگا مگر قاتل بھی مسلمان ہوگا اور مقتول بھی ۔۔۔ دونوں ہی شہیدا کہلائیں گے مگر دونوں ہی جھٹلا دیے جائیں گے ۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا سر سید ؟ کیا اقبال ِ؟ کیا قائد؟ کیا اکبر ؟ کیا صوفی ازم ؟ کیا اورنگ زیب ؟ آج بھی وہی قربانیاں دی جارہی ہیں جو تقسیم کے وقت دی گئیں ۔ آج پھر سے پاکستان کے ٹکروں کی بات ہو رہی ہے ؟ آج اگر بیٹی اپنے باپ کے گھر ، اسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے قربان کردیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا تقلید یا استدالال ؟ آج پولیس انسپکٹر کے ہاتھ عورت محفوظ نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی گھناؤنے کام میں مصروف ہے تو اس کا سبب کیا ہے ؟
اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر اور رہنما ہے ؟
سر سید احمد خان کا منقولات اور معقولات کو لے کے چلنا معاشرتی انجیرنگ میں مددگار ہو سکا ؟
قائد اعظم کا پاکستان بنانا ---مسلم اکثریتی صوبوں کی تقسیم ہونا ، مسلم ریاستوں کا ہندوستان میں رہنے دینا جس نے کشمیر کے لیے راہ ہموار کردی ، اس نے موجود پاکستان کی بنیاد رکھی ؟
آخری تدوین: