اُردو محفل کا اسکول - 6

فرحت کیانی

لائبریرین
  • انسان زبان کے پردے میں چُھپا ہوا ہے۔
  • گناہ پر ندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے اور نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کر دیتا ہے۔
  • سب سے بہترین لقمہ وہ ہے جو اپنی محنت سے حاصل کیا جائے۔
  • موت کو ہمیشہ یاد رکھو مگر موت کی آرزو کبھی مت کرو۔

- حضرت علی کرم اللہ وجہہ
 

نیلم

محفلین
جن لوگوں کو اللہ سے بات بنانی ہو سب سے پہلے وہ دل کی خبر لیں ! دل درست ہے تو ساری زندگی درست ہو گی اور دل فساد ذدہ ہے تو ساری زندگی بگڑجائیگی دل زندہ ہے تو سب کچھ سلامت،دل مرگیا توسب کچھ بھسم - گھٹیا جذبات کی گندگیوں سے بھرے ہوئے دلوں کو لے کرآخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونگے تو اس وقت معلوم ہوگاکہ قلب سلیم یا اخلاص نیت کے بغیرشاندار سے شاندارعمل بیکار ہے - ریا کے کاموں کی کوئی قدروقیمت وہاں نہیں ہے شہرت طلبی کے لئے کی گئی عبادات وخدمات کو ذرہ بھر وزن حاصل نہیں ہے-معاملات انسانی اور تعلقات انسانی کو خراب کرنے والوں کونہ تقریریں بچاسکیں گی نہ تسبیحیں.
 

نیلم

محفلین
خواتین و حضرات ! آپ کبھی شام کو جب اکیلے لیٹے ہوئے ہوں ، تو ایک پہلو لیٹ کر ایک کان تکیے سے لگا کر اور دوسرے کان پر بازو رکھ کی دیکھئے گا آپ کو اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز واضح آئے گی - آپ دیر تلک اس کا مشاہدہ ضرور کیجئے گا - اس آواز میں کئی باتیں پوشیدہ ہیں کئی سبق اور اسرار موجود ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے - قدرت نے انسان کو ایک ایسی بڑی نعمت سے نوازا ہے - جسے ہم ضمیر کہتے ہیں - جب بھی ہم سے کوئی اچھائی یا برائی سرزد ہو تو یہ اپنے خصوصی سگنل جاری کرتا ہے ان سگنلز میں کبھی شرمندگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے تو کبھی ضمیر سے آپ کو very good کی آواز آتی ہے -
آپ کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں یا کسی نابینا کو اپنا ضروری کام چھوڑ کر سڑک پار کر واتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ضمیر نے آپ کو شاباش دی ہے - پیار سے تھپکی دی ہے - انسان خود میں عجیب طرح کی تازگی اور انرجی محسوس کرتا ہے -
جب ہم اپنے کسی نوکر کو جھڑکیاں دیتے ہیں ، کسی فقیر کو کوستے ہیں یا کوئی بھی ایسا عمل کرتے ہیں جس کی ہمیں ممانعت کی گئی ہے ، تو یہ ضمیر تنگی محسوس کرتا ہے ایک ایسا سگنل بھیجتا ہے جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ کام درست نہیں ہوا -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ ضمیر کا سگنل صفحہ ٢٣٣
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا:
زندگی کیا ہے؟
فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔دریا
دوبارہ پوچھا گیا:
اور آخرت؟
فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساحل
پھر پوچھا گیا:
تقویٰ؟
فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کشتی
 

نیلم

محفلین
کوئی شخص اپنی بند مٹھیوں میں دھول لے کر آتا ہے اور آپ کی آنکھوں میں دھو ل پھینک کر چلا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کی بند مٹھی میں دھول ہی ہو جس سے بچنے کے لئے آپ کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑیں-
 

نیلم

محفلین
صداقت

اپنی روز مرہ کی زندگی میں سے جھوٹ کو ایسے نکا لو جیسے تم کائنات میں سے شیطان کو نکا ل رہے ہو ،اپ جھوٹ کو مکمل طور پر چھوڑ دو ..چھوٹے چھوٹے جھوٹ بھی چھوڑ دو تاکہ تمہاری زندگی میں سچ داخل ہو جائے،،اور جب سچ داخل ہو جائے گا تو زندگی خود بخود سچ میں ڈھلتی چلی جائے گی ..اگر حق بیان کرنا پڑے تو اپ کو صداقت کے بیان میں تذبذب نہ آئے.صد ا قت کا مطلب ہے جھوٹ کو برملا جھوٹ کہو اور سچ کو بر ملا سچ کہو اور نہ سمجھ انے والی بات کو برملا نہ سمجھنے والی بات کہو .....تذبذب میں نہ پڑنا ورنہ یہ تلوار کی دھار ثابت ہو گا اور آپ کو گرا دے گا '' اس طرح آپ کا سفر نہیں ہو گا .......

واصف علی واصف
 

نیلم

محفلین
حضرت ابو ہریرہ (رضی الله تعالیٰ عنہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:۔ ’’ لوگوں کے اعمال ہر ہفتہ میں 2 بار پیر اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان بندہ کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے ان بندوں کے جو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کینہ رکھتے ہوں اور کہا جاتا ہے کہ ان کو مہلت دو، حتیٰ کہ یہ رجوع کرلیں ‘‘

[ صحیح مسلم، کتاب البر، جلد سوئم، حدیث:820 ]
 

نیلم

محفلین
جب تمھارے گھر کوئی مہمان آئے اور وہ تمھارے گھر سے بھوکا چلا جائے تو گویا وہ کسی قبرستان میں آیا تھا
 

نیلم

محفلین
انسان کا نقصان مال اور جان کا چلا جانانہیں بلکہ انسان کا سب سےبڑا نقصان کسی کی نظر سے گر جاناہے.
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ
 

عاطف بٹ

محفلین
اپنے خیالات پر نظر رکھیں کہ آپ کے خیالات آپ کے اعمال بن جاتے ہیں۔ اپنے اعمال پر نظر رکھیں کہ آپ کے اعمال اپنے کی عادات بن جاتے ہیں۔ اپنی عادات پر نظر رکھیں کہ آپ کی عادات آپ کا کردار بن جاتی ہیں۔ اپنے کردار پر نظر رکھیں کہ آپ کا کردار آپ کا مقدر بن جاتا ہے۔
(ڈاکٹر وینس جے بلڈورتھ کی کتاب "کی ٹو یورسیلف" سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
ابن عمر (رضی الله تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ،آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جاے گاپس وہ امیر جو لوگوں کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گااور جو آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا. اور عورت اپنے خاوند کے گھراور اس کی اولاد کی ذمہ دارہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال ہوگا.

[ صحیح مسلم، کتاب الامارۃِ، جلد سوئم، حدیث:508 ]
 

نیلم

محفلین
‎"حیا' یہ جو ہمارا اللہ سے فاصلہ آ جاتا ہے نا ،یہ سیدھی سڑک کی طرح نہیں ہوتا یہ پہاڑ کی طرح ہوتا ہے اس کو بھاگ کر طے کرنے کی کوشش کرو گی تو جلدی تھک جاؤ گی ، جست لگاؤ گی تو درمیان میں گر جاؤ گی ، اڑنے کی کوشش کرو گی تو ہوا ساتھ نہیں دے گی "
یہ فاصلہ بےبی اسٹیپس سے عبور کیا جاتا ہے 'جھوٹے جھوٹے قدم اٹھا کر چوٹی پر پہنچا جاتا ہے کبھی بھی درمیان میں پلٹ کر نیچے اترنا چاہو گی تو پرانی زندگی کی کشش ثقل کھینچ لے گی اور قدم اترتے چلے جائیں گے اور اوپر چڑھنا اتنا ہی دشوار ہو گا مگر ہر اوپر چڑھتے قدم پہ بلندی ملے گی . سو بھاگنا مت ،جست لگانے کی کوشش بھی نہ کرنا .بس چھوٹے چھوٹے اچھے کام کرنا اور چھوٹے چھوٹے گناہ چھوڑ دینا.
 

نیلم

محفلین
اس کے علاوہ نماز کی ایک اور دلنواز صفت بھی میرے ذهن میں پوری طرح سما گی کے رب کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے صرف با وضو ہونے کی شرط ہے ، اس کے علاوہ نماز کی نیت باندھنے میں نہ کسی پیر فقیر سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،، نہ کسی حکومت کے قانون کی پابندی لازمی ہے نہ کسی دفتر سے پرمٹ بنوانا پڑتا ہے ،،، انسان کے اپنے نفس کے علاوہ عبد اور معبود کے اس راز و نیاز میں کوئی حجاب نہیں ،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور رکاوٹ بھی راستے کا پتھر بن کر سامنے آتی ہے ،،
کبھی نماز میں دل لگتا ہے کبھی نہیں لگتا ،، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا ،، نماز کے دوران دل میں یکسوئی شازو نادر ہی نصیب ہوتی ہے ،،،
نماز کے دوران وسوسے اور خیالات انسان اپنے دل میں خود لاتا ہے انہیں روکنا اس کے اپنے اختیار میں ہے ،، اس اختیار کو استعمال میں لانے کا آسان طریقہ ہے کے اپنی توجہہ نماز کے الفاظ کے معانی کی طرف پھیردے ،، دل میں بیک وقت دو خیالات سمانے کی گنجائش نہیں ہوتی ،،، اور قلب تو بس حق تعالیٰ کے رہنے کی جگہ ہے قلب کو صاف رکھنا چاہیے نہ معلوم کس وقت نور حق اور رحمت الہی قلب پر جلوہ گر ہو جائے ،، اس کا خاص خیال رکھو کے قلب فضولیات سے خالی رہے جس طرح فقیر اپنے برتن کو خالی رکھتا ہے کے نہ معلوم کسی وقت کسی سخی کی نظر عنایت ہو جائے ،، ایسے ہی قلب کو خالی رکھو ،، نہ معلوم کس وقت رحمت کی نظر ہو جائے،،،،،

کتاب : شہاب نامہ
قدرت اللہ شہاب صاحب
 
Top