اُردو محفل کا اسکول - 6

نیلم

محفلین
آنسو کیا ہیں ؟بس موتی ہیں ‘ چمکنے والے ‘ بہنے والے گرم آنسو انسان کی فریاد ہیں ۔ پرانی یادوں کے ترجمان ہیں ‘ یہ آنسو انمول خزانہ ہیں ‘اور یہ خزانہ کمزور کی قوت ہیں ‘ دل کہ اتھاہ گہرویئں سے نکلنے والا آب حیات کا سرچشمہ ‘ سعادتوں کا سر چشمہ آرزوں کے صحرا میں نخلستان کا مژدہ ۔ آنسو تنہائی کا ساتھی ‘ دعاوں کی مقبولیت کی نوید ‘ انسان کے پاس ایسی متاع بے بہا جو اسے دیدہ وری منزل عطا کرتی ہے ‘یہ موتی بڑے انمول ہیں ‘ یہ خزانہ نڑا گراں مایہ ہے ‘ یہ تحفہ قدرت کا نادر عطیہ ہے ۔ تقرب الٰہی کے راستوں پر چراغاں کرنے والے موتی انسان کے آنسو ہیں۔

واصف علی واصف
 

نیلم

محفلین
اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے سے مسلمان کی روحانی ، نفسیاتی ، جسمانی ، اور اجتماعی زندگی پر بہت عمدہ اثر مرتب ہوتا ہے ۔
لہذا میری مسلمان بہن ! کوشش کریں‌کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر وقت آپ کی زبان پر ہو چاہے آپ کیسی بھی حالت میں ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک و مخلص اور تابعدار بندوں کی تعریف اپنے ارشادِ گرامی میں یوں‌بیان فرمائی ہے ۔
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ (سورہ آل عمران ، آیت 191)
وہ جو کھڑے ، بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ، ہر حال میں‌اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔
جبکہ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ ذکر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔
يَا رَسُولَ اللَّهِ اِنَّ شَرَائِعَ الإِسْلاَمِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَىَّ فَاَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ اَتَشَبَّثُ بِهِ
اے اللہ کے رسول ! اسلامی شرائع (احکامِ الٰہی) تو بکثرت ہیں مجھے تو کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں اچھی طرح اپنالوں (اور نجات پاجاؤں)
اس پر نبی اکرم صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
" لاَ يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ " (صحیح سنن ترمذی ، حدیث نمبر 2687)
اپنی زبان کو ہر حالت میں ذکرِ الٰہی میں مشغول رکھو ۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
زلیخا نے یوسف علیہ السلام کے عشق میں مجبور ہو کر یوسف علیہ السلام کا دامن پکڑ لیا اور اپنی خواہش کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ آپ لرز اٹھے۔
زلیخا کے پاس سنگ مرمر کا بت تھا جس کی وہ صبح و شام پوجا کرتی۔ اس کی آرتی اتارتی۔ دریائے نیل کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اس کے چرنوں میں رکھتی، عطر چھڑکتی لیکن جونہی اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کا دامن پکڑا تو بت کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس کا معبود بت اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے۔ وہ بت سے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ دست درازی کو چھپانا چاہتی تھی۔
اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف علیہ السلام بہت رنجیدہ ہوئے۔ سر پکڑ کر رہ گئے۔ زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی۔
"اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو۔ میری دلی مراد پوری کرو۔"
حضرت یوسف علیہ السلام رو پڑے اور فرمایا۔
"اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ۔ تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے۔"

(مخزن اخلاق)
 

نیلم

محفلین
عبدللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:''کبھی بھی کسی شخص کی طرح ہونے کی خواہش مت کرنا سواے دو صورتوں کے. ایک وہ شخص جسے الله نے غنی کیا اور اسنے اس کو صحیح طریقے سے خرچ کیا (صدقہ، خیرات، میاناروی) اور دوسرا وہ جسے الله نے (قرآن و حدیث کا) علم دیا اور اسنے اس پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچایا''.

[ بخاری، کتاب:9 ، جلد:89 ، حدیث: 255 ]
 

نیلم

محفلین
جو معاف نہیں کرسکتا ہے وہ اس پل کو توڑتا ہے جو اسے انسانوں سے اور مخلوق خدا سے ملاتا ہے اور لوگوں سے جوڑتا ہے -

بہت ممکن ہے اس کی اپنی زندگی میں ایک ایسا وقت آ جائے کہ اسے لوگوں سے ملنے کی ضرورت پڑے
تو وہ ان سے کیسے ملے گا. اس نے تو پل توڑ دیا ہوگا اور خود اپنے ہاتھوں سے توڑا ہوگا -

از اشفاق احمد —
 

نیلم

محفلین
‎''ہر مبلغ کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو آدمی اسے پسند نہیں کرتا وہ اس کے دین کو کیسے پسند کرے گا۔ دین کو پسندیدہ ظاہر کرنے کے لیے اپنا عمل پسندیدہ بناوٴ۔ اپنی شخصیت پسندیدہ بناوٴ۔ دوسرے کا مزاج ، اس کی عقل ، اس کی ضرورت کو سمجھ کر اس کو تبلیغ کرو۔ ناسمجھ کے ہاتھ میں صداقت کی لاٹھی دوسروں کو بدظن کردے گی''۔

( واصف علی واصف)
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اس قوم کو علم و حکمت کی کیا قدر؟
جو مہنگا جوتا لینے میں فخر، اور سستی کتاب خریدنے میں دقت محسوس کرے۔
(علامہ اقبال)
 

اشتیاق علی

لائبریرین
ایک حقیقت جو ہمارے پاکستان میں میں بہت عام ہے۔ اور ذوالقرنین صاحب کے جواب سے یاد آئی۔
حیرت کی بات ہے کہ جو چیز کھانے والی ہے وہ زمین پر رکھ کر بیچی جاتی ہے جہاں صفائی ستھرائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ۔ شہروں کی سبزی منڈیاں بہترین مثال ہیں۔
اور جو پاؤں میں پہننے والی چیز یعنی جوتا ہے وہ بڑی سجاوٹ سے صاف ستھری دکان میں بیچا جاتا ہے۔
پیزا ڈلیور کرنے والا جلدی پہنچ جاتا ہے اور کسی مصیبت میں پھنسے ہوئے انسان کو بچانے یا ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس لیٹ پہنچتی ہے۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 

نیلم

محفلین
‎''جب بھی کسی شخص پرظلم کرنے کاسوچو تو یہ خیال رکھنا کہ اللہ کو تم پر کتنی قدرت حاصل ہے یادرکھو جوآفت تم لوگوں پرمسلط کرو گے وہ ان پرایک نہ ایک دن ٹل جائے گی لیکن جو آفت تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی وہ نہیں ٹلے گی۔یادرکھو اللہ تعالی ظالموں سے مظلوموں کاحق لے کے رہے گا''۔

حضرت عمربن عبدالعزیز رح :احیاعلوم للغزالی،بحث توبہ،ج4ص50
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اعلی مقاصد کے حصول کی خاطر کسی نہ کسی کو اپنی زات کی نفی کرنی پڑتی ہے
دوسروں کے لیئے راستہ بنانے والے لوگ جب مشکلات کو سہتے ہیں تو منزلیں خود ان کا استقبال کرتی ہیں۔۔
 
جو قوم تاریخ (تاریخ اکبر واصغر) کو بھلا دیتی ہے تو ترقیاں اس سے روٹھ جاتی ہیں اور اقوام عالم کے زیر نگیں سانسیں لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی. قرآن وحدیث تاریخ کی مذکورہ بالا دونوں اقسام سے پر ہے. اافسوس کہ جس امت کو تاریخ کا ایسا زبردست علم مستند ماخذ کے ذریعہ دیا گیا اس نے اپنی تاریخ کو ول دورانت اور گبن وغیرہ وغیرہ کے مہیا کردہ مواد پر استوار کر لیا.
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
امام رازی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا کہ "رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایا گھلا جا رہا ہے۔رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایا گھلا جا رہا ہے" اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر" کا مطلب۔عمر کی جو مدت انسانوں کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے ۔اس کو اگر ضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو انسان کا خسارہ ہی خسارہ ہے۔۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھےکہ تم" ہر لمحہ یہ سوچتے رہو کہ تم خدا سے کتنے ٖقریب ہوئے شیطان سے کتنے دور ہوئے، جنت سے کتنے قریب ہوئے،دوزخ سے کتنے دور ہوئے۔۔
 
Top