آسیہ بی بی کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ پورے ملک میں شدید احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
چھتو
رضوی اینڈ کمپنی حکومت کے ختم نبوت یا توہین رسالت قوانین کے حوالہ سے رد و بدل پر احتجاج کا حق رکھتی ہے۔ البتہ جو معاملات حکومت کے اختیار میں نہیں جیسے سپریم کورٹ، وہاں ان فسادیوں کا احتجاج مضحکہ خیزی کے سوا اور کچھ نہیں۔ آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ سپریم کورٹ نے تمام ثبوت و شواہد دیکھنے کے بعد دیا ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ اپیل دائر ہو سکتی ہے۔ اس فیصلہ کو سیاسی بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت اور فوج کو مل کر ان فسادیوں کی چھترول کرنی چاہئے۔

مکافات عمل ہے میرے بھائی
پچھلے کچھ سالوں تحریک انصاف نے ہر قسم کے دنگا فساد کو ہوا دی ، مقصد صرف اس وقت کی حکومت کو کمزور کرنا تھا لیکن اب ان کو شاید احساس ہوا ہو گا کہ یہ حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو کمزور کر رہے تھے

پچھلے سال فوج نے ان کو اپنے لوگ ہیں کہہ کر چھوڑ دیا تھا اس وجہ سے 20 دن تک فیض آباد کا تماشہ لگا رہا امید اب کی بار وزیراعظم عمران خان کو ڈکٹیٹ کرنے کی بجائے ان کا حکم مانا جائے گا
 

ابوعبید

محفلین
لوگ کہتے ہیں خان کو سیاست نہیں آتی ۔
مجھ سمیت لاکھوں افراد کو واجب القتل کے فتوے اور جرنیلوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان کا علم نہیں تھا لیکن 22 کروڑ عوام کو یہ خبر پہنچا کر اور بتا کر کیا الٹا فوج سے دشمنی نہیں کی گئی ؟؟ کہ ہر کوئی تسلی سے سن بھی لے اور جان بھی لے کہ جرنیلوں کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔
ایسی چیزوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اس کی بلاوجہ تشہیر نہ کی جائے ۔ اور یہاں عزت مآب خود قصیدے پڑھ پڑھ کے سنا رہے ہیں ۔
 

ابوعبید

محفلین
126 دن اس ملک کو یرغمال بنانے والا کس منہ سے یہ بات کر رہا ہے کہ دھرنوں سے ریاست کمزور ہوتی ہے ۔ اور قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو اب دھرنوں کے نقصانات گنوا رہے ہیں ۔

جلاو گھیراو کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا ۔ اور نہ ہی کوئی عقل مند انسان اس کی حمایت کر سکتا ہے ۔ لیکن پر امن رہتے ہوئے احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک عدالت جب سزائے موت سنا چکی تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوا ؟
جب دوسری عدالت اس سزا کو کالعدم قرار دے تو یہ بتانا بھی واجب ہوگا کہ پچھلی عدالت سے کیا پوشیدہ رہا جو فیصلہ تبدیل ہوا۔ اور اس بات کی کیا وجوہات رہیں کہ سالوں عمل نہ ہوا ؟
کیا یہ باتیں بھی سامنے آئیں ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک عدالت جب سزائے موت سنا چکی تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوا ؟
جب دوسری عدالت اس سزا کو کالعدم قرار دے تو یہ بتانا بھی واجب ہوگا کہ پچھلی عدالت سے کیا پوشیدہ رہا جو فیصلہ تبدیل ہوا۔ اور اس بات کی کیا وجوہات رہیں کہ سالوں عمل نہ ہوا ؟
کیا یہ باتیں بھی سامنے آئیں ؟
جب تک ملزم یا مجرم کو کسی بڑی عدالت میں اپیل کا حق ہوتا ہے تب تک سزائے موت پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔

اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ماتحت عدالتوں نے کیا کیا حقائق صرفِ نظر کیے یا کیا غلطیاں کی ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب تک ملزم یا مجرم کو کسی بڑی عدالت میں اپیل کا حق ہوتا ہے تب تک سزائے موت پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔
اچھا! تو کیا اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہائی کورٹ کی سزائے موت پر عمل کبھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ سپریم کورٹ میں اپیل تو شاید ہر کوئی کر سکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں سزائے موت سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے؟
اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ماتحت عدالتوں نے کیا کیا حقائق صرفِ نظر کیے یا کیا غلطیاں کی ہیں۔
پھر تو مولویوں کو ان نکات پر علمی بحث کرنی چاہیئے جن کی بنیاد پر فیصلہ بدلا گیا ۔ جب کہ ایسی توکوئی بات سامنے نہیں آئی ۔ لیکن وہی مرغی کی ایک ٹانگ ۔فتوی ۔ واجب القتل ۔ تکفیر ۔ وغیرہ ،جو ہماری مولویت کے محاسن ہیں ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وڈے تایا جی نے قادیانی الزامات کا بدلہ لینے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
یہ اعلی ترین سطح اور طاقتیں پچھلے سال کیوں سو رہی تھیں؟ کیا صرف اس لیے کہ تب وزیر اعظم سلیکٹڈ نہیں بلکہ الیکٹڈ تھا؟ اب اپنا بندہ ہے تو اس کی سپورٹ کی جا رہی ہے۔ یعنی عوام یا ملکی امن امان آپ کے فیصلوں میں صفر اہمیت رکھتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
کیا اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہائی کورٹ کی سزائے موت پر عمل کبھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ سپریم کورٹ میں اپیل تو شاید ہر کوئی کر سکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں سزائے موت سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے؟
اگر سزائے موت کا ملزم ایک مقررہ وقت تک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرے تو سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نظرثانی کی ایک اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ سب سے آخر میں صدرِ مملکت سے معافی کی درخواست بھی کی جاتی ہے تاہم یہ سب عمومی طور پر رسمی کاروائی تصور کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ شاذ و نادر ہی اپنا فیصلہ تبدیل کرتی ہے اور صدرِ مملکت بھی عام طور پر سزائے موت کے قیدی کی اپیل کو مسترد کر دیتے ہیں۔
 

ابوعبید

محفلین
اس ملک میں یہ روایت ڈال دی گئی ہے کہ جب تک آپ املاک نہیں جلاتے ۔۔ جلاو گھیراو نہیں کرتے تب تک صاحب اقتدار کے کانوں پہ جوں نہیں رینگتی ۔۔

ہم بھی پر امن احتجاج کے حق میں ہیں ۔۔۔ راستے بند کرنے اور املاک کو جلانے کے مخالف ہیں اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

لیکن کیا کیا جائے کہ اس ملک میں صاحب اقتدار کے کانوں تک کسی بھی ظلم کے خلاف آواز پہنچانے کے لیے کوئی آپشن ہی نہیں ۔۔

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس ملک میں پر امن احتجاج 10 سال بھی جاری رہے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا ۔۔

منافقت کی حد تو یہ ہے کہ سیاست کی خاطر پارلیمنٹ میں توڑ پھوڑ کرنے اور 126 دن ملک کو یرغمال بنانے والے اب اخلاقیات کا بھاشن دے رہے ہیں اور قرآن و سنت کی بات کر رہے ہیں ۔۔ قرآن و سنت بھی اب یاد آئی ہے جب ان کی اپنی حکومت ہے ۔

افسوس صد افسوس
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا! تو کیا اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہائی کورٹ کی سزائے موت پر عمل کبھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ سپریم کورٹ میں اپیل تو شاید ہر کوئی کر سکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں سزائے موت سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے؟

پھر تو مولویوں کو ان نکات پر علمی بحث کرنی چاہیئے جن کی بنیاد پر فیصلہ بدلا گیا ۔ جب کہ ایسی توکوئی بات سامنے نہیں آئی ۔ لیکن وہی مرغی کی ایک ٹانگ ۔فتوی ۔ واجب القتل ۔ تکفیر ۔ وغیرہ ،جو ہماری مولویت کے محاسن ہیں ۔
جی سزائے موت والے پر اوپر فرقان صاحب نے لکھ دیا، اپیل کا حق آخری حد تک ہوتا ہے۔

جہاں تک فیصلے کی بات ہے تو ججوں نے اس فیصلے میں قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے اور کئی ایک علمی و مذہبی نکات پر بات کی ہے، مولویوں کو یہ فیصلہ ضرور پڑھنا چاہیئے۔

اسلامی نکتے سے ہٹ کر، ٹرائل کے قانونی پہلوؤں پر بھی ججوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے گواہان کے بیانات مشکوک اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ اس ساری کہانی میں جھول ہیں اور حقائق کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا گیا ہے اور شک کا فائدہ جو کہ ملزم کو ملنا چاہیئے تھا اور جو ہمیشہ ملزم ہی کو ملتا ہے، اس کیس میں آسیہ بی بی کو نہیں دیا گیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آسیہ بی بی کیس کی تفصیلات کا کسی کو علم ہے تو اشتراک کریں۔ کیا واقعہ ہوا تھا؟؟
بی بی سی کا خلاصہ:

خلاصہ
آسیہ بی بی پر جون 2009 میں ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین نے الزام لگایا تھا کہ آسیہ بی بی نے پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔

اگلے سال ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کو سزائے موت دی۔

سال 2014 میں آسیہ بی بی کی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل مسترد کر دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہا جس کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

سال 2016 میں اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہونی تھی لیکن بینچ پر موجود ایک جج نے اپنی شمولیت سے معذرت کر لی۔

اس سال اکتوبر آٹھ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

آسیہ بی بی کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے اپیلیں ہوئی ہیں اور ماضی میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ممتاز قادری نے اسی بنیاد پر ہلاک کیا تھا کہ انھوں نے آسیہ بی بی کی حمایت میں بیان دیا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی سزائے موت والے پر اوپر فرقان صاحب نے لکھ دیا، اپیل کا حق آخری حد تک ہوتا ہے۔
جہاں تک فیصلے کی بات ہے تو ججوں نے اس فیصلے میں قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے اور کئی ایک علمی و مذہبی نکات پر بات کی ہے، مولویوں کو یہ فیصلہ ضرور پڑھنا چاہیئے۔
اسلامی نکتے سے ہٹ کر، ٹرائل کے قانونی پہلوؤں پر بھی ججوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے گواہان کے بیانات مشکوک اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ اس ساری کہانی میں جھول ہیں اور حقائق کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا گیا ہے اور شک کا فائدہ جو کہ ملزم کو ملنا چاہیئے تھا اور جو ہمیشہ ملزم ہی کو ملتا ہے، اس کیس میں آسیہ بی بی کو نہیں دیا گیا تھا۔
ایسے میں آسیہ کا موجودہ موقف سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔اگر اس کا رویہ معذرت خواہانہ (خواہ مشروط طور پر بھی ) ہو تو بھی فائدہ اسی کو ملے گا۔واللہ اعلم۔
 

ابوعبید

محفلین
اس فیصلے کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پورے ملک میں سپریم کورٹ وہ واحد ادارہ ہے جو آئین و قانون کی پاسداری کرتا ہے اور سپریم کورٹ میں تمام فیصلے باقاعدہ آئین و قانون کی روشنی میں کیے جاتے ہیں ۔۔ (ماضی میں کیے گئے فیصلوں کا سپریم کورٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ وہ ن لیگیوں کے ذہن کی پیداوار ہیں )

سپریم کورٹ کے علاوہ ضلعی عدالتیں ، ہائی کورٹس ان میں فیصلہ دینے والے ججز اور ان کورٹس میں ہونے والے تمام فیصلوں پہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس فیصلے کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پورے ملک میں سپریم کورٹ وہ واحد ادارہ ہے جو آئین و قانون کی پاسداری کرتا ہے اور سپریم کورٹ میں تمام فیصلے باقاعدہ آئین و قانون کی روشنی میں کیے جاتے ہیں ۔۔ (ماضی میں کیے گئے فیصلوں کا سپریم کورٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ وہ ن لیگیوں کے ذہن کی پیداوار ہیں )

سپریم کورٹ کے علاوہ ضلعی عدالتیں ، ہائی کورٹس ان میں فیصلہ دینے والے ججز اور ان کورٹس میں ہونے والے تمام فیصلوں پہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔

میرا خیال ہے کہ یہ نازک معاملہ ہے اور لوگوں کو اپنی اپنی سیاسی وابستگی اور تعصبات سے بالا تر ہو کر اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

اگر ملک کے سب سے اعلیٰ ادارے کا فیصلہ بھی نہیں مانا جائے گا تو ملک میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہے جس سے گریز کرنا چاہیے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو روزِ حشر کے فیصلوں پر بھی یقین ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ وہاں کسی کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہوگی کہ اس دنیا کی عدالتیں ناقص ہیں اور قانونی پیچیدگیوں کے سہارے بہت سے مجرم بچ جاتے ہیں اور بہت سے بے گناہ پھنس جاتے ہیں۔
 

سروش

محفلین
دیکھیں پیرا نمبر 23 جس میں عدالت خود کہہ رہی ہے کہ اپیل وقت گزرنے کے 11 روز کے بعد داخل کی گئی ۔۔۔۔ فتدبر!!!
Screenshot_2.png


اس کیس سے قبل اس طرح کے "صرفِ نظر " کی کوئی نظیر ہے؟
 
آخری تدوین:

ابوعبید

محفلین
فیصلے کی. Cross examination..
ایک وکیل کی طرف سے!!
کیا فیصلہ میرٹ پر ہوا:

کچھ فیس بکی فلاسفرز یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آسیہ مسیح فیصلہ میرٹ پر ہوا۔۔۔۔۔ان میں سے کچھ سادہ لوح مخلص لوگ اردو فیصلہ پڑھ کر اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوے۔

بطور وکیل آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک تھرڈ کلاس مجسٹريٹ اگر رشوت لے کر بھی آپ کے خلاف فیصلہ لکھے تو وہ بھی اتنا اچھا لکھتا ہے کہ فیصلہ پڑھ کر داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔۔۔ صرف ”پریکٹسنگ“ وکیل ہی ایسا فیصلہ سمجھ سکتا ہے۔۔۔۔۔!!!
لہذا عام عوام کی رائے اس فیصلہ کے حق میں ہو جانا کچھ بعید نہیں۔۔۔!!

(فیصلے کے میرٹ پر بات کرنے سے قبل یہ وضاحت کر دوں کہ پچھلے نو سال اس کیس کے بارے سنتا رہا لیکن میں اس کیس کے حقائق نہ جانتا تھا اس لیے آسیہ کو گستاخ کہنے سے ہمیشہ خاموشی اختیار کی۔۔۔۔۔آج یہ فیصلہ پڑھ کر یقین ہونے لگا ہے کہ معاملہ گستاخی کا ہی تھا۔)

فیصلہ:

اس فیصلہ میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے نہ چاہتے ہوے بھی کورٹ کی بد نیتی ظاہر ہوتی ہے..... چند اہم درجذیل ہیں:

1: پیرا نمبر 31 میں شہادت ڈسکس کرنے سے قبل آگے پیچھے کے سوالات تو لکھ لیے لیکن سب سے اہم سوال یعنی ”توہین رسالت ہوئی یا نہیں“ گول کر لیا گیا۔۔۔۔۔تا کہ اس پر موجود تاقابل تردید شہادت ڈسکس ہی نہ کرنی پڑے۔ کیا یہ بد دیانتی نہیں...!!؟

2: پیرا نمبر انیس میں دو گواہان یاسمین بی بی اور مختار احمد کا ذکر ہے۔۔ انگش میں لکھا ہے:
“yasmin bibi and mukhtar ahmad were given up”
جبکہ اسی کا اردو ترجمہ لکھا ہے:

”استغاثہ کے گوہان یاسمین بی بی اور مختار احمد "منحرف" ہو گئے“

چونکہ نناوے فیصد عوام نے اردو فیصلہ پڑھنا تھا۔۔۔اور وٹس ایپ پر پھیلایا بھی اردو فیصلہ ہی گیا۔۔۔۔ اسی لیے اس میں given up کا مطلب ”منحرف“ لکھ دیا۔ جس سے پڑھنے والے کو گمراہ کرنا انتہائی آسان ہو گیا۔

ایسا نہیں کہ ترجمہ کرنے والے کو given up کا مطلب نہیں آتا تھا۔۔۔ بلکہ اسی فیصلہ میں آگے انہی گواہان کے لیے ”متروک“ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

3: پیرا 40 انگلش میں سب انسپیکٹر کا بیان لکھتے ہیں کہ ملزمہ کو گرفتاری کے بعد مجسٹريٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔۔۔۔۔ جبکہ اردو میں لکھتے ہیں ملزمہ کو مجسٹريٹ کی موجودگی میں گرفتار کیا۔

4: پیرا نمبر 30 میں لکھتے ہیں کہ گواہان نے اپنے ابتدائی بیانات (161 ض ف)سے deviate کیا۔ اس کی مثال میں اکثر وہ باتیں لکھی ہیں جو ابتدائی بیان میں تو نہ تھیں لیکن جرح (cross examination) میں کہی گئیں۔

میں حیران ہوں کہ یہ بات کرتے ہوے اتنی بڑی غلطی(چول) کیسے کی گئی۔۔۔۔؟!!!

جس وکیل نے کچہری میں چار دن لگائے ہوں وہ جانتا ہے کہ deviation یا improvement وہ کہلاتی ہے جو ابتدائی بیان میں تو نہ ہو لیکن (examination in chief) میں آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کہ (cross examination) میں۔

کروس اگزامینیشن میں تو ہمیشہ وہ جوابات ہوتے ہیں جو ڈیفینس وکیل کے سوال سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں تقریبا ہر قسم کا سوال اور جواب آ سکتا ہے۔

5: قانون کے مطابق جرم ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے۔لیکن اگر ملزم کچھ پلی لیتا ہے تو اسے ثابت کرنا مکمل طور پر ملزم پر ہے۔
ملزمہ کے مطابق اس الزام لگانے کی وجہ(motivee) پانی پلانے پر ہونے والے جھگڑے کو قرار دیا گیا۔ پہلی بات یہ کہ پریکٹسنگ وکلاء سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہ ثابت بھی ہو جاتا تو بھی یہ کتنا کمزور اور مضحکہ خیز defence تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے ملزمہ نے حلف لینے سے سے بھی انکار کیا اور کوئی دوسرا گواہ بھی پیش نہ کیا۔

جبکہ کورٹ نے زبردستی دو ایسے گواہان کے بیانات پر اسے پورے واقعے کو جھگڑا قرار دے دیا جو دونوں واقعے کے عینی شاہد نہ تھے۔۔۔!!!!! اور ان کے بھی پورے بیان لکھنے کی زحمت نہ کی۔۔۔۔۔۔!!!

6: جرگہ ہوا یا نہیں اس پر دس صفحات لکھ دیے۔۔۔خاتون کا اپنے دفاع میں دیا گیا بیان غیر ضروری طور پر تین مرتبہ لکھ دیا۔۔۔لیکن خاتون کا ہی یہ بیان ”کہ اس نے جرگہ کے سامنے اَنڈر پریشر کنفیشن کی“ نہیں لکھا۔۔۔کیوں؟

(ایک ایسا خاندان جو دہائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہتا رہا۔۔۔۔۔صرف پانی کے جھگڑے پر توہین رسالت کا ملزم ٹھرے اور پورے گاوں سے ایک بھی گواہ اپنے حق میں نہ پائے۔۔!!!؟)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ بہت سی باتیں ہیں لیکن تحریر کو مختصر رکھنے کے لیے آخری اور اہم پوائنٹ:

کسی بھی کریمینل کیس میں ملزم کے بری ہونے کے کےلیے ”میٹیریل کنٹراڈکشنز“ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ججز نے بھی ”میٹیریل کنٹراڈکشن“ کا لفظ بار بار استعمال کیا ہے۔

لیکن جو بات انتہائی اہم ہے وہ اس لفظ کا ”قانونی“ مفہوم ہے۔۔۔۔۔ قانون کے مطابق ”میٹیریل کنٹراڈکشن“ وہ ہے جو براہ راست ملزم پر لگائے گئے الزام\جرم(offence) سے متعلقہ ہو۔۔۔۔۔نا کہ اس جرم کے بعد کے حالات و واقعات میں پائی جانے والے تضادات....!!

اس میں سب سے اہم عینی شاہدین کی اس جرم کے سرزد ہونے کے بارے گواہی ہوتی ہے۔ جس پر فیصلہ خاموش ہے۔

چونکہ ججز کے اٹھائے گئے سوالات میں سب سے اہم سوال ”توہین رسالت ہوئی یا نہیں؟“ رکھا ہی نہیں گیا۔ لہذا تمام فیصلہ جرم ہونے کے بعد کے حالات و واقعات کے گرد گھومتا ہے۔۔۔۔۔!! اور انہیں کو غلط ثابت کرتے ہوے توہین رسالت کو بھی رد کر دیا گیا۔

لطیفہ:
آسیہ کا مطلب گنہگار ہے۔ جسٹس کھوسہ
(ویسے کھوسہ صاحب نے پتہ نہیں کسے دکھانے کے لیے چیف صاحب کی لکھی باتیں دوبارہ دوبارہ لکھ کر صفحات ضائع کے ہیں)

نوٹ:
اگر درج بالا بدنیتی پر مبنی باتیں نہ ہوتیں اور میرٹ پر بری کیا جاتا(جو کہ شاید ممکن تھا) تو مجھے کچھ اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن اب مجھے ان لوگوں کی باتیں حقیقت لگنے لگی ہیں جن کے مطابق عالمی اداروں اور قوتوں کو خوش کرنے کے لیے یہ فیصلہ انتہائی عجلت میں کیا گیا۔

ضیا کاظمی ۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
بی بی سی کا خلاصہ:

خلاصہ
آسیہ بی بی پر جون 2009 میں ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین نے الزام لگایا تھا کہ آسیہ بی بی نے پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔

اگلے سال ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کو سزائے موت دی۔

سال 2014 میں آسیہ بی بی کی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل مسترد کر دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہا جس کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

سال 2016 میں اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہونی تھی لیکن بینچ پر موجود ایک جج نے اپنی شمولیت سے معذرت کر لی۔

اس سال اکتوبر آٹھ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

آسیہ بی بی کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے اپیلیں ہوئی ہیں اور ماضی میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ممتاز قادری نے اسی بنیاد پر ہلاک کیا تھا کہ انھوں نے آسیہ بی بی کی حمایت میں بیان دیا تھا۔
شکریہ!!

واٹس ایپ پر بھی کچھ پیغامات موصول ہوئے ہیں جس سے پتا چلا ہے کہ مسلمانوں کے گھڑوں سے پانی پینے پر آسیہ بی بی اور کچھ خواتین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ ان خواتین میں سے صرف دو نے گواہی دی ہے۔ عجیب معاملہ ہے۔
 
لطیفہ:
آسیہ کا مطلب گنہگار ہے۔ جسٹس کھوسہ
(ویسے کھوسہ صاحب نے پتہ نہیں کسے دکھانے کے لیے چیف صاحب کی لکھی باتیں دوبارہ دوبارہ لکھ کر صفحات ضائع کے ہیں)
یہ ’عاصی‘ سے ’عاصیہ‘ تھا ، پر جج موصوف ۔۔۔ ان کے تو کیا ہی کہنے۔

f685aa2b-6fd8-43f2-ad53-42dcadbdcea2.jpg
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top