شدت پسند اگر وہ مولوی ہیں جو اس وقت جلاو گھیراو کر رہے ہیں تو عدلیہ اور حکومت کا فیصلہ بھی شدت پسندی پہ مشتمل تھا جہاں 20 یا 25 دن پہلے فیصلہ محفوظ کر کے عین 31 اکتوبر کو ایک گستاخ رسول ﷺ کو رہا کر دیاجاتا ہے جس دن غازی علم دین کو شہید کیا گیا تھا ۔
کیا آپ لوگوں کی آئین و قانون پر دسترس چیف جسٹس پاکستان سے بھی زیادہ ہے؟ اگر گستاخی رسول سے متعلق حتمی فیصلہ جذباتی عوام نے ہی کرنا ہے۔ تو سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے؟ جائیں ان کو آگ لگا دیں۔
نبی پاک ﷺ کی ناموس پرجان قربان،لیکن کسی کیخلاف کیس نہ بنتا ہو تو کیسےسزا دیں:چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار—۔فائل فوٹو
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے سے بری کیے جانے کے فیصلے کے بعد ہونے والی تنقید اور احتجاج پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایمان کسی کا کم نہیں ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر جان بھی قربان ہے، لیکن کسی کے خلاف کیس نہ بنتا ہو تو کیسے سزا دیں؟
جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں قائم مقام آئی جی اسلام آباد کے تقرر کی حکومتی درخواست پر سماعت کے دوران دیئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی کے لیے قابل برداشت نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن اگر کسی کے خلاف کیس بنتا ہی نہ ہو تو اسے سزا کیسے دیں؟'
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ 'ایمان کسی کا کم نہیں ہے، ہم صرف مسلمانوں کے قاضی نہیں ہیں'۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'بنچ میں بیٹھے کئی ججز درود شریف پڑھتے رہتے ہیں'۔
آسیہ بی بی کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ 'فیصلہ کلمے سے شروع کیا، جس میں دین کا سارا ذکر بھی کیا ہے'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ '
فیصلہ اردو میں اس لیے جاری کیا تاکہ قوم پڑھے'۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے اللہ کی ذات کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے پہچانا ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں'۔
فیصلے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاج کے پیش نظر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'ریاست امن و امان کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے، جیسا کہ رات وزیراعظم نے بھی کہا'۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا تھا۔
آسیہ بی بی کو بری کیے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ہونے والے احتجاج کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں سڑکیں بند ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔
گذشتہ روز مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'ججز نے جو فیصلہ دیا ہے وہ آئین کے مطابق ہے، پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہے لیکن اس فیصلے پر ججز کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی اور واجب القتل کہا گیا، فیصلے کے بعد بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ فوج کے جنرلز آرمی چیف کے خلاف بغاوت کریں'۔
وزیراعظم نے عوام سے اپیل کہ 'کسی صورت ان عناصر کو خود کو اکسانے نہ دیں، یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ ملک دشمنی ہے، جس کے ذریعے یہ لوگ اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں'۔
آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟
صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔
بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔
امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔
ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو 31 اکتوبر کو سنایا گیا اور عدالت عظمیٰ نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔