یاز
محفلین
آپ کے مراسلے سے زیادہ اس پر رسپانس پرمزاح ہے
رسپانس بھی اپریل فول کا ہی حصہ ہے۔
آپ کے مراسلے سے زیادہ اس پر رسپانس پرمزاح ہے
رسپانس بھی اپریل فول کا ہی حصہ ہے۔
بہت افسوس ہوا کہ آپ لوگوں کو مغرب کی تقلید کی تبلیغ کر رہے ہیں۔اگر اپریل فول واقعی منانا ہے تو جس طرح مغربی مناتے ہیں ویسے منائیں۔ وگرنہ نہ منائیں۔ ہر مغربی کام دیسی انداز میں کرنا ضروری نہیں ہوتا۔
ہر بات پر صرف پاکستان کا ہی کیوں نام لیتے ہیں۔کیا پوری دنیا میں ایک ہی ملک ہے اور وہ بھی پاکستان؟درست۔ پاکستان میں پیروڈی کا معیار دیگر اخلاقیات کی طرح بہت گر چکا ہے۔ اسے ابھارنے کی ضرورت ہے۔
یہ فکشن ہے؟” اپریل فول…” یہ گزشتہ سال کی بات ہے"
یہ گزشتہ سال کی بات ہے۔ میں اپنے آفس میں کام کررہا تھا کہ میرے کولیگ وقاص کا موبائل فون بج اٹھا۔ اس نے کال ریسیو کی، فون رکھنے کے بعد وہ خاصا پریشان نظر آرہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ
” کیا ہواوقاص! کوئی پریشانی ہے؟“
کہنے لگا کہ” ہاں یار!بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔“
”اوہ، اللہ خیر کرے، کچھ بتائیں تو سہی۔“
میرے استفسار پر وقاص نے انتہائی پریشانی کے عالم میں مختصراًبتایا کہ
” میری بیوی کا فون تھا، میرے بیٹے عمران کو کسی نے گولی ماردی ہے اور وہ شدید زخمی حالت میں جناح ہسپتال میں ایڈمٹ ہے، مجھے فوراًجانا ہوگا۔“
وقاص صاحب فوراً آفس سے نکلے اور گاڑی کی طرف لپکے۔ اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اتنا اچانک کیسے ہوا؟ٹینشن کی وجہ سے اُن کادماغ ماﺅف ہوا جارہا تھا۔ آندھی طوفان کی طرح گاڑی چلاتے ہوئے وہ تیزی سے ہسپتال پہنچنا چاہتے تھے۔وہ برق رفتاری سے شہر کی سڑکوں پر گاڑی دوڑارہے تھے۔ اُن کا ذہن ڈرائیونگ کی بجائے اپنے بیٹے کی طرف الجھاہواتھا۔ اچانک سامنے سے آنے والی ایک بس سے ان کی گاڑی بری طرح ٹکرائی اور سڑک پر لڑھکتی گئی۔ کچھ دیر بعد ایمبولینس وقاص صاحب کی لاش لیے جناح ہسپتال کی طرف جارہی تھی۔ جب اُن کے گھر والوں کوفون کرکے ایکسیڈنٹ کے متعلق بتایا گیا تو ان کے بوڑھے والدین اس صدمے کو برداشت نہ کرسکیں اور فوری ہارٹ اٹیک کی وجہ سے دونوں موت کے منہ میں چلے گئے۔ دوسری طرف وقاص کی بیوی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی جہاں اس کا منایا گیا “چھوٹا سا” اپریل فول اس کی زندگی میں قیامت برپا کر چکا تھا۔ربط
ہاہاہااگر اپریل فول واقعی منانا ہے تو جس طرح مغربی مناتے ہیں ویسے منائیں۔ وگرنہ نہ منائیں۔ ہر مغربی کام دیسی انداز میں کرنا ضروری نہیں ہوتا۔
پھر ہر مغربی کام کی دیسی فورموں پر مبارکباد بھی نہیں بنتی۔ اوتھے ای رکھوہر مغربی کام دیسی انداز میں کرنا ضروری نہیں ہوتا۔
زیک کولوں ٹھپہ لوا لو۔یہ بین الاقوامی فارم ہے، خالص دیسی نہیں ہے۔ کیوں زیک ؟
مبارک باد دے کر سب کو چوکنا تو کر دیا ہے۔ امید ہے سب لوگ محتاط ہو گئے ہوں گے۔ گیلے کمبل کا حصہ بنے بغیر۔ویسے عارف اپریل فولز ڈے کی مبارکباد دیتے نہیں سنا۔ یا تو prank کرتے ہیں یا اس سے ہوشیار رہنے کی کوشش۔
النسل تو نہیں ملیں گے مگر سکونت میں آپ کو چین ، جاپان سے لیکر امریکہ، کینیڈا تک محفلین مل جائیں گے۔کتنے انگریز، یورپین، عربی یا چینی جاپانی النسل ہیں یہاں ؟
باتیں درست ہیں آپکی۔۔۔۔ پر ہر برے کام میں پاکستان کو ہائی لائٹ کرنا ضروری ہے کیا؟جی کیوں نہیں۔ جنہیں یہ دن محض جھوٹ بولنے یا کسی کی تضحیک کرنے کا دن لگتا ہے وہ اسے یوم حماقت کہہ سکتے ہیں۔
ایسا آپ کا ماننا ہے۔ ہم مغرب میں اپریل فول ایسے نہیں مناتے۔ اپریل فول کا مقصد نہ تو محض جھوٹ بول کر کسی کو تکلیف پہنچانا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی تضحیک کرنا۔ اپریل فول تو محض ہنسی مذاق کا دن ہے جب ہم دوستوں، رشتہ داروں کیساتھ ہلکی پھلکی سی چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ جنہیں اپریل فول کی تاریخ یاد ہوتی ہے وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں اور شرارت کا شکار نہیں ہوتے۔ البتہ جن کے ذہن میں نہیں ہوتا وہ پھنس جاتے ہیں۔
ہماری کچھ شرارتیں:
کچھ سال قبل کی بات ہے یکم اپریل اتوار کے روز آیا۔ ہمارا چھوٹا بھائی جسکو اسکول جانے کی بہت جلدی ہوتی تھی اس دن دیر تک سویا رہا۔ ہمیں شرارت سوجھی اور گھر کی تمام گھڑیاں 7 بجے کر کے اسکو جگایا اور کہا کہ اسکول نہیں جانا اتنی دیر ہو گئی ہے۔ وہ بیچارا جلدی جلدی اٹھا، منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر کے بستہ اٹھایا اور گھر سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ہم نے کہہ دیا: اپریل فول! بس پھر کیا تھا ہم دونوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔
ہمارے ایک کولیگ ہیں جنکا کام کمپنی کے سرورز کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ پچھلے سال یکم اپریل کو جب ہم آفس پہنچے تو وہ ابھی تک آئے نہیں تھے۔ ہم نے مانیٹر کی ساری تاریں اتار دیں تاکہ تمام سرورز آف لائن نظر آئیں۔ اسکا اسنیپ شاٹ لیا اور اصل پروگرام کو ٹاسک بار میں ڈال کر اسنیپ شاٹ سکرین پر آویزاں کر دیا۔ اور پھر تمام تاریں واپس جوڑ دیں۔
موصوف دیر سے آفس پہنچے تو مانیٹر اسکرین دیکھ کر ہوش اڑ گئے۔ دوڑے دوڑے گئے اور ملک میں موجود مختلف آفسز میں فون کھڑکا دیا کہ کیا معاملہ ہے جہاں سے اطلاع ملی کہ تمام سسٹمز نارمل کام کر رہے ہیں۔ پسینہ پونچھ کر واپس مانیٹر روم میں آئے تو اسکرین پر اپریل فول آویزاں تھا اور تمام کولیگز ٹھاٹھے مار کر ہنس رہے تھے۔ جسپر انکی جان میں جان آئی اور وہ بھی بہت ہنسے۔
ان سب مثالوں کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اپریل فول بالکل ویسے نہیں منایا جاتا جیسا پاکستان میں رواج ہے۔ کہ جھوٹ بول کر بندے کو ہسپتال پہنچا دو یا اسکی تضحیک کر کے ذلیل و رسوا کرو۔ مغربی اپریل فول اور دیسی اپریل فول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
درست۔ پاکستان میں پیروڈی کا معیار دیگر اخلاقیات کی طرح بہت گر چکا ہے۔ اسے ابھارنے کی ضرورت ہے۔
آپکو نہیں دینی تو نہ دیں۔ جنکو دینی ہے وہ دیں۔
ویسے آپ کی موجودگی ہم جیسے دیسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ آپ ہمیں یہ یاد کرواتے رہتے ہیں کہ ہم پاکستانی یا ہندوستانی ہیں، مسلمان ہیں اور ہماری اپنی ایک ثقافت اور رسوم و رواج ہیں جو مغرب سے کافی حد تک مختلف ہیں اور ہماری اکثریت اب بھی اپنی شناخت برقرار رکھنے میں خوشی محسوس کرتی ہے۔مبارک باد دے کر سب کو چوکنا تو کر دیا ہے۔ امید ہے سب لوگ محتاط ہو گئے ہوں گے۔ گیلے کمبل کا حصہ بنے بغیر۔
یہ بین الاقوامی فارم ہے، خالص دیسی نہیں ہے۔ کیوں زیک ؟
ایسا ہی ایک واقعہ ہریپور-ایبٹ آباد کے درمیان میں ہوا تھا۔یہ فکشن ہے؟
جب تبلیغ نہیں کی تھی، تب کیا یہ مغربی تہوار پاکستان میں منانا بند ہو گیا تھا؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے انٹرنیٹ کے زمانہ سے بھی قبل لوگ جوق در جوق اپریل فول ڈے اور ویلانٹائن ڈے بڑے دھوم دھام سے مناتے تھے۔ کسی اور کا تہوار منانے میں کوئی ہرج نہیں ہے اگر اسے اسی طرح منایا جائے جیسا وہ خود مناتے ہیں۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آپ کسی مغربی تہوار میں اپنا دیسی ٹچ بھر دیتے ہیں۔ اور یوں اسکا صرف منفی اثر باقی رہ جاتا ہے جو عوام کو ان تہواروں سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔بہت افسوس ہوا کہ آپ لوگوں کو مغرب کی تقلید کی تبلیغ کر رہے ہیں۔
آج پہلی بار مسٹر عارف اور مسٹر زیک کو ایک دوسرے سے "غیر متفق" ہوتے دیکھا۔ورنہ میں تو آپ دونوں کو پارٹنر سمجھتی تھیجب تبلیغ نہیں کی تھی، تب کیا یہ مغربی تہوار پاکستان میں منانا بند ہو گیا تھا؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے انٹرنیٹ کے زمانہ سے بھی قبل لوگ جوق در جوق اپریل فول ڈے اور ویلانٹائن ڈے بڑے دھوم دھام سے مناتے تھے۔ کسی اور کا تہوار منانے میں کوئی ہرج نہیں ہے اگر اسے اسی طرح منایا جائے جیسا وہ خود مناتے ہیں۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آپ کسی مغربی تہوار میں اپنا دیسی ٹچ بھر دیتے ہیں۔ اور یوں اسکا صرف منفی اثر باقی رہ جاتا ہے جو عوام کو ان تہواروں سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔