محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
اکڑ شاہ مال دار ہوگیا
اکڑشاہ غم گین ہر آن تھا
وہ غربت کے مارے پریشان تھا
وہ بستر پہ اک رات رونے لگا
اسی رونے دھونے میں سونے لگا
اٹھا جب وہ سوکر تو بیمار تھا
بدستور غربت سے بے زار تھا
پرانی سی اک چارپائی تھی بس
بدن پر پھٹی اک رضائی تھی بس
دوا ڈاکٹر سے وہ لینے گیا
دوا ڈاکٹر دے کے کہنے لگا
کہ محسوس مجھ کو ہوئی شے عجیب
بدن میں تمھارے وہ ، دل کے قریب
ہوئی اس دوائی سے متلی اسے
اچانک ہوئی ایک الٹی اسے
چمکتا سا ہیرا برآمد ہوا
اکڑشاہ حیران از حد ہوا
وہ ہیرا اکڑشاہ نے بیچ کر
کیا حاصل اپنے لیے مال و زر
ہوا ملک بھر میں وہ اب مال دار
ہوا اہلِ ثروت میں اس کا شمار
وہ اپنی امیری میں یوں کھوگیا
فراموش سب دوستوں کو کیا
گو اسکوٹر اس نے نہ سیکھی کبھی
تجارت نہ کر پایا وہ آم کی
تھے اب اس کی گاڑی میں خدام بھی
وہ کھاتا تھا مہنگے سے اب آم بھی
وہ اب انکساری سے انجان تھا
اکڑشاہ گویا ’’اکڑشان‘‘ تھا
مسہری پہ اک رات سونے گیا
وہ کمبل کی بانھوں میں کھونے گیا
مزے سے وہ سو سو کے جوں ہی اٹھا
عجب سا اک احساس اس کو ہوا
مسہری نہیں ، چارپائی تھی وہ
وہ کمبل نہیں تھا ، رضائی تھی وہ
طویل اور اچھا سا یہ خواب تھا
کھلا اب بھی افلاس کا باب تھا
اساؔمہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
اکڑشاہ غم گین ہر آن تھا
وہ غربت کے مارے پریشان تھا
وہ بستر پہ اک رات رونے لگا
اسی رونے دھونے میں سونے لگا
اٹھا جب وہ سوکر تو بیمار تھا
بدستور غربت سے بے زار تھا
پرانی سی اک چارپائی تھی بس
بدن پر پھٹی اک رضائی تھی بس
دوا ڈاکٹر سے وہ لینے گیا
دوا ڈاکٹر دے کے کہنے لگا
کہ محسوس مجھ کو ہوئی شے عجیب
بدن میں تمھارے وہ ، دل کے قریب
ہوئی اس دوائی سے متلی اسے
اچانک ہوئی ایک الٹی اسے
چمکتا سا ہیرا برآمد ہوا
اکڑشاہ حیران از حد ہوا
وہ ہیرا اکڑشاہ نے بیچ کر
کیا حاصل اپنے لیے مال و زر
ہوا ملک بھر میں وہ اب مال دار
ہوا اہلِ ثروت میں اس کا شمار
وہ اپنی امیری میں یوں کھوگیا
فراموش سب دوستوں کو کیا
گو اسکوٹر اس نے نہ سیکھی کبھی
تجارت نہ کر پایا وہ آم کی
تھے اب اس کی گاڑی میں خدام بھی
وہ کھاتا تھا مہنگے سے اب آم بھی
وہ اب انکساری سے انجان تھا
اکڑشاہ گویا ’’اکڑشان‘‘ تھا
مسہری پہ اک رات سونے گیا
وہ کمبل کی بانھوں میں کھونے گیا
مزے سے وہ سو سو کے جوں ہی اٹھا
عجب سا اک احساس اس کو ہوا
مسہری نہیں ، چارپائی تھی وہ
وہ کمبل نہیں تھا ، رضائی تھی وہ
طویل اور اچھا سا یہ خواب تھا
کھلا اب بھی افلاس کا باب تھا
اساؔمہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے