ایرانی فون کمپنی کی اشتہاری مہم میں حضرت عمر کی شان میں گستاخی

سید ذیشان

محفلین
جہاں تک میں آپ کی باتوں سے سمجھا ہوں آپ بالکل ریاست کے دائرہ کار میں رہنے والے ایک شہری جیسی بات کر رہے ہیں۔۔۔ اور باقی احباب جن سے آپ کو اختلاف ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ خالصتا مذہبی اور دینی اعتبار سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ تو یہ مکتبہ ہائے فکر ہیں، ان کو سمجھنا چاہئے اور اس پر زیادہ اختلاف کا مظاہرہ نہ ہو تو اچھا ہے۔۔۔

تو آپ کے خیال میں ریاست کے علاوہ سزا دینے کا حق اور کس کو ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تو آپ کے خیال میں ریاست کے علاوہ سزا دینے کا حق اور کس کو ہے؟
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ریاست کا شہری ہونے کی حیثیت سے آپ کو پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ آپ کی حکومت کا کسی معاملے میں کیا مؤقف ہے۔۔ اس کے بعد اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے۔۔۔ بھائی، مجھے ایک بات بتائیے ۔۔۔ ریاست کس اصول پر چلتی ہے؟ آج کل تو کوئی ریاست کسی بھی اصول پر نہیں چلتی۔۔۔ ہر ریاست کا اپنا اپنا آئین ہے لیکن عمل درآمد نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔ کہیں بھی نہیں۔۔۔ تو ریاست مفادات کے اصول پر چلتی ہے۔۔۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ لڑی ہی بے کار ہوجاتی ہے جس میں لوگوں کو اس بات پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی جس کا تعلق سراسر ان کے مذہب سے تھا۔۔ مذہب اور ریاست دو الگ الگ معاملات ہیں۔۔۔ ریاست مفادات پر چلتی ہے۔۔ مذہب مفادات کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔۔۔ اقبال کا ایک شعر عرض کردوں، شاید یہ معاملہ سمجھنے میں آپ کو مدد ملے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

تو ہم ریاست نام کے کسی خدا کو نہیں مانتے ۔ہم اپنے مذہب کو مانتے ہیں اور اس خدا کو مانتے ہیں جس نے اس مذہب کو مکمل کیا۔۔۔ یہ ہمارا مکتبہ فکر ہے۔۔۔ ریاست کا قانون اس کے آگے بہت چھوٹا ہے۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ریاست کا شہری ہونے کی حیثیت سے آپ کو پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ آپ کی حکومت کا کسی معاملے میں کیا مؤقف ہے۔۔ اس کے بعد اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے۔۔۔ بھائی، مجھے ایک بات بتائیے ۔۔۔ ریاست کس اصول پر چلتی ہے؟ آج کل تو کوئی ریاست کسی بھی اصول پر نہیں چلتی۔۔۔ ہر ریاست کا اپنا اپنا آئین ہے لیکن عمل درآمد نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔ کہیں بھی نہیں۔۔۔ تو ریاست مفادات کے اصول پر چلتی ہے۔۔۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ لڑی ہی بے کار ہوجاتی ہے جس میں لوگوں کو اس بات پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی جس کا تعلق سراسر ان کے مذہب سے تھا۔۔ مذہب اور ریاست دو الگ الگ معاملات ہیں۔۔۔ ریاست مفادات پر چلتی ہے۔۔ مذہب مفادات کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔۔۔ اقبال کا ایک شعر عرض کردوں، شاید یہ معاملہ سمجھنے میں آپ کو مدد ملے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

تو ہم ریاست نام کے کسی خدا کو نہیں مانتے ۔ہم اپنے مذہب کو مانتے ہیں اور اس خدا کو مانتے ہیں جس نے اس مذہب کو مکمل کیا۔۔۔ یہ ہمارا مکتبہ فکر ہے۔۔۔ ریاست کا قانون اس کے آگے بہت چھوٹا ہے۔۔۔

تو گویا آپ اس حق میں ہیں کہ کسی مہذب ملک کا باشندہ اس ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تو گویا آپ اس حق میں ہیں کہ کسی مہذب ملک کا باشندہ اس ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے؟
قانون ہاتھ میں خود ریاست لے رہی ہے۔۔۔ آپ نے غور نہیں کیا۔۔ میں نے لکھا کہ قانون یا آئین تو موجود ہے۔۔ عمل درآمد نہیں۔۔۔ پھر وہ کون سا قانون ہے جو آپ کو اپنی رائے کے اظہار سے روکتا ہو۔۔۔ ایسا توکوئی بھی قانون نہیں ہے۔۔۔ یہاں بھی محض رائے کا اظہار ہورہا ہے۔۔۔ نفرت کا اظہار تو ہوگا ہی، بات ہی اتنی غلط ہے ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ جس ہستی کا ذکر کیا گیا، جتنے بھی ان کے چاہنے والے ہیں، ان کو اپنے والدین سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔۔۔ تو آگے آپ خود سوچ لیجئے کہ جب محبت کا یہ عالم ہے تو پھر غصہ آنا تو ایک فطری سی بات ہوئی۔۔۔ اس سے کون سا قانون روکتا ہے۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
قانون ہاتھ میں خود ریاست لے رہی ہے۔۔۔ آپ نے غور نہیں کیا۔۔ میں نے لکھا کہ قانون یا آئین تو موجود ہے۔۔ عمل درآمد نہیں۔۔۔ پھر وہ کون سا قانون ہے جو آپ کو اپنی رائے کے اظہار سے روکتا ہو۔۔۔ ایسا توکوئی بھی قانون نہیں ہے۔۔۔ یہاں بھی محض رائے کا اظہار ہورہا ہے۔۔۔ نفرت کا اظہار تو ہوگا ہی، بات ہی اتنی غلط ہے ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ جس ہستی کا ذکر کیا گیا، جتنے بھی ان کے چاہنے والے ہیں، ان کو اپنے والدین سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔۔۔ تو آگے آپ خود سوچ لیجئے کہ جب محبت کا یہ عالم ہے تو پھر غصہ آنا تو ایک فطری سی بات ہوئی۔۔۔ اس سے کون سا قانون روکتا ہے۔۔۔

میں نے تو کہیں پر نہیں کہا کہ آپ کو رائے دینے کا حق حاصل نہیں۔ لیکن اگر آپ اپنی رائے کا حق رکھتے ہیں تو اور لوگوں کو بھی اس کی آزادی دیجئے۔

جہاں تک "قانون ہاتھ میں خود ریاست لے رہی ہے" والی بات ہے تو یہ بات تو بڑی عجیب ہے کیونکہ جب قانون بنانا اور اس پر عمل کروانا ریاست کا کام ہے تو قانون اپنے ہاتھ میں اور کون لے گا؟ آپ ذرا کھل کر بات کریں تو شائد آپ کے خیالات واضح ہو سکیں۔ فی الحال تو آپ کی باتوں کو سمجھنا میرے بس میں نہیں ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے تو کہیں پر نہیں کہا کہ آپ کو رائے دینے کا حق حاصل نہیں۔ لیکن اگر آپ اپنی رائے کا حق رکھتے ہیں تو اور لوگوں کو بھی اس کی آزادی دیجئے۔
جہاں تک "قانون ہاتھ میں خود ریاست لے رہی ہے" والی بات ہے تو یہ بات تو بڑی عجیب ہے کیونکہ جب قانون بنانا اور اس پر عمل کروانا ریاست کا کام ہے تو قانون اپنے ہاتھ میں اور کون لے گا؟ آپ ذرا کھل کر بات کریں تو شائد آپ کے خیالات واضح ہو سکیں۔ فی الحال تو آپ کی باتوں کو سمجھنا میرے بس میں نہیں ہے۔
قانون عمل درآمد کے لیے ہوتا ہے، ہاتھ میں لینے کے لیے نہیں۔۔۔ قانون وہ ہو جس سے سب متفق ہوں اور تمام ممالک ایسے ہی قوانین بنائیں جن سے ان کے شہری اتفاق کرتے ہوں، یہ ایک مسلمہ جمہوری اصول ہے۔۔ اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں جسے عوام کی اکثریت مسترد کردے ۔۔۔ لیکن یہ مسئلہ تھوڑا پیچیدہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ عوام براہ راست قانون نہیں بناتے۔۔ قانون ان کے منتخب کردہ نمائندے بناتے ہیں، اس لیے الٹے سیدھے قوانین بھی بن جاتے ہیں جن میں بعد میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔۔۔ اب ریاست کا حال تو یہ ہے کہ قوانین بناتی ہی توڑنے کے لیے ہے۔۔۔ ۔ایک بڑی سیدھی سی بات ہے جس پر غور کرنا چاہئے کہ قانون ہوتا کس لیے ہے؟ انصاف کے لیے لیکن انصاف کہاں ہے؟ کہیں بھی نہیں۔۔۔ جہاں تک دوسروں کو آزادی دینے کا تعلق ہے تو آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔۔ جہاں وہ حد عبور ہوتی ہے وہاں دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے حقوق پامال ہوئے۔ جس کے حقوق پامال ہوتے ہیں، پھر اسے بھی بولنے کا حق ہے۔۔۔۔ ۔اتنی سی بات ہے۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
قانون عمل درآمد کے لیے ہوتا ہے، ہاتھ میں لینے کے لیے نہیں۔۔۔ قانون وہ ہو جس سے سب متفق ہوں اور تمام ممالک ایسے ہی قوانین بنائیں جن سے ان کے شہری اتفاق کرتے ہوں، یہ ایک مسلمہ جمہوری اصول ہے۔۔ اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں جسے عوام کی اکثریت مسترد کردے ۔۔۔ لیکن یہ مسئلہ تھوڑا پیچیدہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ عوام براہ راست قانون نہیں بناتے۔۔ قانون ان کے منتخب کردہ نمائندے بناتے ہیں، اس لیے الٹے سیدھے قوانین بھی بن جاتے ہیں جن میں بعد میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔۔۔ اب ریاست کا حال تو یہ ہے کہ قوانین بناتی ہی توڑنے کے لیے ہے۔۔۔ ۔ایک بڑی سیدھی سی بات ہے جس پر غور کرنا چاہئے کہ قانون ہوتا کس لیے ہے؟ انصاف کے لیے لیکن انصاف کہاں ہے؟ کہیں بھی نہیں۔۔۔ جہاں تک دوسروں کو آزادی دینے کا تعلق ہے تو آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔ ۔ جہاں وہ حد عبور ہوتی ہے وہاں دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے حقوق پامال ہوئے۔ جس کے حقوق پامال ہوتے ہیں، پھر اسے بھی بولنے کا حق ہے۔۔۔ ۔ ۔اتنی سی بات ہے۔۔

آپ کی بات پاکستان، افغانستان یا چند ایک افریقی ممالک کے لئے تو درست ہے جہاں حد سے زیادہ کرپشن ہے اور سٹیٹ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دنیا کے اکثر ممالک اپنے قانون کی پاسداری کروانا اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ ان ممالک میں ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی تک تو کر نہیں سکتے ہیں باقی قانون کو ہاتھ میں لینا تو دور کی بات ہے۔ جس ملک میں بھی پولیس اور کورٹس کا نظام کام کر رہا ہے وہاں کافی حد تک انصاف میسر ہے۔
اب اسی قضیے کو لیجئے ایک کمپنی نے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ اس کمپنی نے معذرت کی اور اپنے فعل کی وضاحت کی- بلوچستان کے اٹارنی جنرل نے اس پر ایکشن لے کر اس کمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا۔
اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ حکومت نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔ اور آپ کے خیال میں حکومت کو اور کیا اقدام کرنا چاہیے تھا جس سے آپ کے مطابق انصاف ہو سکتا تھا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ تو آپ نے بہت اچھی بات بتائی کہ یہاں عمل درآمد ہورہا ہے۔ لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ انصاف نہیں ملتا اور یہ اسی کا اثر ہے کہ لوگ ایسی باتوں پر غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بالکل فطری ہے۔ ۔میری رائے میں یہ غصے کا اظہار بھی رائے ہی کا اظہار ہے۔۔ اس پر اعتراض درست نہیں۔۔۔
 
کسی کے کچھ کہنے سے آپ کے ایمان پر ضرب نہیں لگنی چاہیے کیونکہ آپ کا یمان آپ کے دل میں ہوتا ہے۔ اور اگر اسطرح ہر کسی کی باتوں سے آپ کا ایمان متزلزل ہونے لگا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا پھر۔

جہاں تک سزا کی بات ہے تو مجرم کو قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیے۔

اگر ایساہی ہوتا تو امام خمینی کبھی سلمان رشدی کے قتل پر انعام نہیں رکھتا۔

کسی کے کہنے سے فرق پڑتا ہے میرے برادر۔ پھر یہ کہنا عام ہوجاتا ہے ۔ آخر میں قبول عام ہوجاتا ہے۔ جیسے یورپ میں مذہب اورحضرت عیسیٰ کے ساتھ یہ لوگ کرتے ہیں۔

ایران کے انقلاب کے بعد مقابلتا معمولی جرائم کے مرتکب جرنیلز اور دوسرے افیشلز کو اسپیڈی ٹرائیلزکے بعد جو ایک گھنٹہ تک بھی رہے جس کی کاروائی ٹی وی پر نشر کی گئی موت کی سزا سنادی گئی۔ یہاں تو صرف فیس سیونگ کے لیےتوہین صحابہ کے جسے بڑے جرم کے مرتکب فرد پر پردہ ڈالنے کےلیے مقدمہ کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ یہ کیا ایران کی حکومت کی بیمار ذہنت کو ظاہر نہیں کرتا؟
 
ایران کی حکومت تو شریعت پرعمل درآمد کے سلسلے میں بڑی سخت ہے۔۔۔ یہاں ان کی سختی کو کیا ہوا، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔

درحقیقت ایران میں یہ چلن عام ہے کہ صحابہ کرام کو لعن طعن کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ حکومت کیونکر ان کو منع کرے گی؟
 

سید ذیشان

محفلین
اگر ایساہی ہوتا تو امام خمینی کبھی سلمان رشدی کے قتل پر انعام نہیں رکھتا۔

کسی کے کہنے سے فرق پڑتا ہے میرے برادر۔ پھر یہ کہنا عام ہوجاتا ہے ۔ آخر میں قبول عام ہوجاتا ہے۔ جیسے یورپ میں مذہب اورحضرت عیسیٰ کے ساتھ یہ لوگ کرتے ہیں۔

ایران کے انقلاب کے بعد مقابلتا معمولی جرائم کے مرتکب جرنیلز اور دوسرے افیشلز کو اسپیڈی ٹرائیلزکے بعد جو ایک گھنٹہ تک بھی رہے جس کی کاروائی ٹی وی پر نشر کی گئی موت کی سزا سنادی گئی۔ یہاں تو صرف فیس سیونگ کے لیےتوہین صحابہ کے جسے بڑے جرم کے مرتکب فرد پر پردہ ڈالنے کےلیے مقدمہ کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ یہ کیا ایران کی حکومت کی بیمار ذہنت کو ظاہر نہیں کرتا؟

اول تو یہ کہ میں ایرانی حکومت کا سپوکس پرسن نہیں ہوں کہ ان کی صفائی پیش کروں۔ اس کے لئے آپ کو نزدیک ترین کونسل خانے سے رجوع کرنا پڑے گا۔

دوم یہ کہ خمینی نے ایک فتویٰ دیا تھا جو کہ بہت سارے مفتی دیتے ہیں۔

سوم یہ کہ سلمان رشدی کے واقعے کا اس واقعے کیساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ وہاں پر توہین بہت واضح تھی اور حضور (ص) اور حضرت عائشہ کے لئے استعمال کئے گئے الفاظ بہت واضح تھے۔ یہاں پر ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ قاضی شریح کے ایک فیصلے کو شیطان کا گمراہ کردہ کہا گیا ہے۔

لوگوں کو قتل اور ٹارچر کرنا معمولی جرائم نہیں تھے جن پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اور دنیا میں ہر انقلاب میں ایسا ہوتا ہے۔ اگرچہ ان ٹرائلز کو بہت بہتر ہونا چاہیے تھا لیکن وہ ایک شورش کا زمانہ ہوتا ہے جس میں عام قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
 

سید ذیشان

محفلین
درحقیقت ایران میں یہ چلن عام ہے کہ صحابہ کرام کو لعن طعن کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ حکومت کیونکر ان کو منع کرے گی؟

اچھا واقعی؟

ویسے آپ کی باتوں کو تو کوئی سیرئس نہیں لیتا لیکن اس طرح کی بے پرکی اڑانے سے پہلے ثبوت ضرور مہیا کریں۔
 
اچھا واقعی؟

ویسے آپ کی باتوں کو تو کوئی سیرئس نہیں لیتا لیکن اس طرح کی بے پرکی اڑانے سے پہلے ثبوت ضرور مہیا کریں۔

ثبوت یہ خبر خود ہے
اور اس پر اپ کی طراریا ں ہیں

کوئی سنجیدہ لے یا نہ لے۔ یہ بات سنجیدہ ہے کہ توہین صحابہ کے مرتکب مردود ہیں اور مسلمانوں میں یہ عمل ناقابل برداشت ہے
 
اول تو یہ کہ میں ایرانی حکومت کا سپوکس پرسن نہیں ہوں کہ ان کی صفائی پیش کروں۔ اس کے لئے آپ کو نزدیک ترین کونسل خانے سے رجوع کرنا پڑے گا۔

دوم یہ کہ خمینی نے ایک فتویٰ دیا تھا جو کہ بہت سارے مفتی دیتے ہیں۔

سوم یہ کہ سلمان رشدی کے واقعے کا اس واقعے کیساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ وہاں پر توہین بہت واضح تھی اور حضور (ص) اور حضرت عائشہ کے لئے استعمال کئے گئے الفاظ بہت واضح تھے۔ یہاں پر ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ قاضی شریح کے ایک فیصلے کو شیطان کا گمراہ کردہ کہا گیا ہے۔

لوگوں کو قتل اور ٹارچر کرنا معمولی جرائم نہیں تھے جن پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اور دنیا میں ہر انقلاب میں ایسا ہوتا ہے۔ اگرچہ ان ٹرائلز کو بہت بہتر ہونا چاہیے تھا لیکن وہ ایک شورش کا زمانہ ہوتا ہے جس میں عام قوانین لاگو نہیں ہوتے۔

محترم واقعہ ایران میں ہوا ہے اور میں نے اسی لیے خمینی کی بات کی ہے۔ سلمان رشدی کا اس واقعہ سے بلکل جوڑ ہے۔ حیرت ہے کہ اپ اس کو اتنا ہلکا لے رہے ہیں۔ کہ اپشن میں کہ ایک بہت بڑے صحابی کو اس اپشن میں شامل کرنا اپ کے لیے معمولی بات ہے۔ ہوسکتی ہے کہ اپ کے نزدیک ہو مگر ہمارے نزدیک نہیں۔

توہین رسالت اور توہین اصحاب رسول یقینا ایسے جرم ہیں کہ جس کے مقابلے میں کوئی بھی جرم ہلکا ہےاس لیے اسپیڈی ٹرائیل کرکے اس مردود کو کیوں نہ جہنم رسید کیاجارہا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس دھاگے میں بھی اچھی خاصی بحث ہوچکی ہے۔۔ میرا خیال ہے نبیل بھائی اس کو بھی پہلے پڑھیں پھر مقفل کرنے کی طرف توجہ دیں ۔۔ اس کا بھی موضوع کچھ تھا، کچھ ہوگیا ۔۔ بات اختلافی سمت میں زیادہ چلی گئی ۔۔۔
 

طالوت

محفلین
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیعہ عقائد چند صحابہ (جو صرف اہلسنت کے نزدیک صحابہ کے درجے پر ہیں) کے بارے میں کیسے ہیں اور انھی عقائد کے سامنے آنے پر چرب زبانی اور مبہم الفاظ میں اس کی مذمت بھی سامنے آنے لگتی ہے۔
ایران میں اس طرح کے معاملات چلتے رہتے ہیں ، توہین آمیز فلمیں بھی بنتی ہیں ، سرحد کے اس پار کے حرام عمل پر بحث میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر اپنی اور اپنے ہاں کی بہتری کی کوشش میں وقت صرف کیا جائے تو صحابہ سے محبت و عقیدت کا اظہار زیادہ ہو گا ۔ تاہم مکمل تحقیق کے ساتھ خبر دینا ضروری ہے تاکہ کوئی بے خبر نہ رہ جائے مگر بحث برائے بحث سے گریز ہی بہتر ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیعہ عقائد چند صحابہ (جو صرف اہلسنت کے نزدیک صحابہ کے درجے پر ہیں) کے بارے میں کیسے ہیں اور انھی عقائد کے سامنے آنے پر چرب زبانی اور مبہم الفاظ میں اس کی مذمت بھی سامنے آنے لگتی ہے۔
ایران میں اس طرح کے معاملات چلتے رہتے ہیں ، توہین آمیز فلمیں بھی بنتی ہیں ، سرحد کے اس پار کے حرام عمل پر بحث میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر اپنی اور اپنے ہاں کی بہتری کی کوشش میں وقت صرف کیا جائے تو صحابہ سے محبت و عقیدت کا اظہار زیادہ ہو گا ۔ تاہم مکمل تحقیق کے ساتھ خبر دینا ضروری ہے تاکہ کوئی بے خبر نہ رہ جائے مگر بحث برائے بحث سے گریز ہی بہتر ہے۔

عقائد کے سامنے آنے سے کیا مراد ہے۔ آج کل تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور ہزاروں شیعہ سائٹیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ آپ بخوبی شیعہ عقائد کو دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ شیعہ اور سنی عقائد میں کافی فرق ہے۔ اور یہ توقع رکھنا کہ ایک جیسے عقائد ہوں یہ ناممکنات میں سے ہے۔ چودہ سو سال کا قضیہ آپ اور ہم تو حل کرنے سے رہے۔
اپنے عقائد کا پرچار کرنے کی ہر ایک کو آزادی ہونی چاہیے اور ہم میں برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہیے۔
لیکن ایک بات کا خیال ضروری ہے کہ ہر فرقے کے اکابرین کے لئے غلط زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جس سے کسی کو دکھ ہو۔ ہم سب ایک ایسے نبی کے ماننے والے ہیں جو فرماتے ہیں "إنما بعثت لإتمم مكارم الاخلاق"۔ ہم سب کو، چاہے سنی ہو یا شیعہ، اس قول کا نمونہ ہونا چاہے۔ اس کے بعد تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔
اچھے برے لوگ ہر جگہ پر ہوتے ہیں لیکن چند گندے انڈوں کی وجہ سے پوری قوم کو مطعون ٹہرانا میرے خیال میں عقل مندی نہیں ہے۔
 
ایران کو تو چھوڑئیے جو کچھ ایران میں آفیشلی و ان فیشلی کیا جاتا ہے اس پر اگر گفتگو کی جائے تو دھاگہ مقفل اور بے چارہ ممبر بین ہوجاتا ہے۔ اصل معاملہ پاکستان کا ہے ، پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے تدارک کے لیے اہل تشیع حضرات کو ذرا دل بڑا کر کہ کچھ کرنا پڑے گا سب سے پہلے تو یہی کہ وہ تبرے پر پابندی کا بل جو کافی زمانے سے سپاہ صحابہ والے منظور کروانا چاہتے ہیں اس میں ان کو سپورٹ کریں ایک ایسا بل جس سے تمام اہل بیت اور صحابہ کی گستاخی شدید جرم قرار پائے وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اس بات کا تدارک ہو جائے تو اہل تسنن اور اہل تشیع کے بیچ کے فاصلے کم ہو سکتے ہیں۔
 
Top