سانحہ قصبہ و علیگڑھ کالونی
(تحریر: قاسم علی رضاؔ )
14، دسمبر1986ء پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب ظلم وبربریت کی ایسی داستان رقم کی گئی جسے سن کر انسانیت کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔اس دن محض مہاجردشمنی میں قتل وغارتگری ، لوٹ مار اور درندگی کامظاہرہ کرکے سینکڑوں مہاجربزرگوں ، خواتین ، نوجوانوں اور معصوم بچوں کو تعصب اور نفرت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اس دن کراچی کی غریب بستی قصبہ وعلیگڑھ کالونی میں وحشی درندے کھلے عام چارگھنٹے تک خون کی ہولی کھیلتے رہے لیکن بانیان پاکستان کی نہتی اولادوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کو تحفظ دینے والا کوئی نہ تھا۔1986ء میں سندھ کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ تھے ، گزشتہ ماہ انہوں نے معروف صحافی واینکرپرسن مظہرعباس کوانٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ سانحہ قصبہ وعلیگڑھ کالونی منشیات اور اسلحہ مافیا کا ردعمل تھا۔یہ بیان دیکرانہوں اپنی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کو ردعمل کی آڑمیں چھپانے کی کوشش کی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سانحہ منشیات واسلحہ مافیا کا ردعمل تھا تو غوث علی شاہ ، بطوروزیراعلیٰ سندھ کیا کررہے تھے؟ اخبارات کے ریکارڈ کے مطابق 12، دسمبر1986ء سہراب گوٹھ میں اسلحہ اور منشیات کے خلاف نام نہاد کارروائی کی جاتی ہے اور اس کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جب سہراب گوٹھ میں ناجائز اسلحہ اور منشیات کے خلاف ایکشن لیا جارہا تھا اس سے ایک روزقبل ہی منشیات واسلحہ فروش اپنا مال سہراب گوٹھ سے کہیں اور منتقل کرچکے تھے۔ بی بی سی کے مطابق اسلحہ اور منشیات کی تلاش کیلئے سہراب گوٹھ میں جو غیرقانونی اسلحہ اور منشیات کے اڈے کے خاتمے کے دوران علاقے کے لوگوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ اس کاروبار میں ملوث گروہوں کو پہلے سے خبردار کردیا گیا تھا۔اس کارروائی سے بانیان پاکستان کی اولادوں کا دوردورتک کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود منشیات واسلحہ مافیا نے قصبہ وعلیگڑھ کالونی کے مکینوں پر مسلح حملہ کردیا ۔14، دسمبر کی صبح جب اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ کالونی اور علیگڑھ کالونی میں رہائش پذیر اپنے کام میں مصروف تھے اور ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان پرکیا قیامت ٹوٹنے والی ہے کہ اورنگی ٹاؤن کی پہاڑیوں سے مسلح دہشت گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ یہ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے مکینوں پر حملے کرتے رہے ، گھروں کو لوٹ کر نذرآتش کرتے رہے، شیرخوار بچوں کو دہکتی ہوئی آگ میں جھونکتے رہے اور خواتین کی بے حرمتی کرتے رہے لیکن ان کی مدد کو نہ تو پولیس پہنچی اور نہ حکومت۔قصبہ علیگڑھ کالونی میں رونما ہونے والے دلدوز مناظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ علاقے غیرملکی فوج کے نرغے میں ہیں اوریہ دہشت گرد حکومت اور انتظامیہ کی سرپرستی کے باعث بلاخوف وخطر بے گناہ شہریوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنارہے ہیں۔سفاک قاتل اور دہشت گرد سینکڑوں افراد کو اپنی درندگی کانشانہ بناکر اور ہزاروں ہنستے بستے گھروں کو خاکسترکرنے کے بعد دوبارہ پہاڑوں پر چلے گئے۔ غوث علی شاہ جانتے تھے کہ یہ دہشت گرد کون ہیں ، پولیس سفاک قاتلوں سے واقف تھی لیکن آج25 سال گزرنے کے بعد بھی سانحہ قصبہ علیگڑھ کالونی کے شہداء کے سفاک قاتل قانون کی گرفت سے محفوظ ہیں۔ بعض متعصب اور کینہ پرور صحافی ، اینکرپرسن اور کالم نگار جو دن رات امن وامان اور انسانیت کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے ان کی زبانیں سانحہ قصبہ علیگڑھ کی ہولناک داستان پر چپ ہیں ، ان کی جانب سے آج تک ان بے گناہ شہیدوں کی ہمدردی میں دو لفظ ادا نہیں کئے جاتے ۔قصبہ کالونی وعلیگڑھ کالونی کے مکینوں کے یہ زخم آج بھی تازہ ہیں ۔حکومت کوچاہئے کہ سانحہ قصبہ علیگڑھ کالونی کے شہداء کے سفاک قاتلوں کو گرفتارکرکے عبرتناک سزا دے تاکہ بے گناہ شہریوں کی جان ومال سے کھیلنے والے اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ سانحہ قصبہ وعلیگڑھ کے شہداء کے درجات بلند فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور شہداء کے سوگوارلواحقین کو صبرجمیل عطا کرے ۔ آج کے دن تحریک کے ہرسپاہی کو اس عزم کا اعادہ کرنا چاہئے کہ جس نیک مقصد کیلئے حق پرست شہداء نے اپنے لہو کے نذرانے دیئے ہم اس مشن ومقصد کے حصول کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔