آپ تعلق چاہے متحدہ سے ہو ، یا کسی بھی پارٹی سے مگر آپ کے ان جذبات کو سلام ، زیور نامی اس فتنے کو بھی قبول کریں کہ
یہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی روایات کا حصہ بھی ہے ۔۔۔
وسلام
کبھی مرد کا زیور اور کبھی روایات کے حصے کے نام پر یہ مہلک اسلحہ و بارود ہمارے بچوں کے ہاتھ میں تھمانے والے قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔
اس طرح کے لولے لنگڑے عذر پیش کرنے سے قبل سوچ لیا کریں کہ واقعی ہماری قوم اتنی مہذب ہو چکی ہے کہ وہ اس اسلحے کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے گی؟ اگر آنکھیں نہیں کھلیں تو کھول کر دیکھ لیں اسی مہلک اسلحے کی وجہ سے آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معصوم پاکستان میں موت کی آغوش میں جا چکے ہیں ۔۔۔۔ مگر یہ جاہلانہ سوچ مرد کا زیور اور روایات کا حصہ آج بھی اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہیں۔
پشتون و بلوچ برادران کوئی آسمان سے اترے ہوئے ہم سے کوئی مختلف مخلوق نہیں ہیں۔ ہمیں اگر ایک پاکستان میں رہنا ہے تو ہمیں اُن سے جدا نہیں ہونا اور نہ انہیں ہم سے جدا ہونا ہے۔
یہ اکیسویں صدی ہے۔ ذرا مرد کا زیور اور روایات کا حصہ کہنے والے لوگ اپنے دل و دماغ کے دروازے کھولیں اور دیکھیں کہ اچھی روایات اور خطرناک روایات میں کیا فرق ہے۔ جو پشتون کراچی اور پاکستان اور جرمنی اور دنیا کے دیگر ممالک میں جا کر آباد ہوئے انہیں اپنی اس خطرناک روایت سے جان چھڑا کر قانون کے مطابق زندگی گذارنے میں کوئی مشکل نہیں آئی اور وہ بالکل ایسے ہی رہتے ہیں جیسا کہ ہم لوگ۔ مگر پاکستان میں غیر قانونی اسلحے کو جو انہوں نے مرد کا زیور اور روایات کے حصے کے نام پر جاری کر رکھا ہے تو اسکا فتنہ یہ ہے کہ سمگل ہو کر ملک کے کونے کونے اور جامعہ حفصہ کے تہہ خانوں کے بنکرز اور ہر ہر دہشت گرد اور انتہا پسند کے ہاتھوں میں پہنچ رہا ہے۔
مگر نہیں۔۔۔۔۔ آنکھیں و دل و دماغ سب کے دروازے بند ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ انتہا ہے منافقانہ رویے کی [ڈبل سٹینڈرڈ کے معنوں میں استعمال کر رہی ہوں]۔ منافقانہ رویہ یہ کہ پچھلے ساٹھ سال سے مرد کے زیور اور روایات کے حصے کے نام پر جو آگ و موت اگلنے والے "آٹومیٹک" ہتھیار کہ جو کہ دفاعی اسلحہ نہیں بلکہ دہشتگردی میں استعمال ہونے والا موذی اسلحہ ہے، اور ہینڈ گرینیڈ جو کہ دفاعی اسلحہ نہیں بلکہ دہشتگردی میں استعمال ہونے والا موذی اسلحہ ہے، اور راکٹ لانچرز اور دیگر خطرناک اسلحہ۔۔۔۔۔۔ ان سب کا دفاع ہے مرد کے زیور اور روایات کے حصے کے نام پر۔۔۔۔۔
مگر منافقانہ رویہ ہے کہ جب لائسنسز کے ذریعے قانونی اور دفاعی اسلحہ [نان آٹومیٹک] کراچی میں کھلنے والے ہزاروں بینکوں کے گارڈز اور سٹریٹ کرائمز کے خلاف سناروں کی دکان اور دوسرے لوگوں کو فراہم کیا گیا کہ جن کے پاس پیسے کا لین دین ہونے سے ڈکیتی کا ڈر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہی مرد کا زیور اور روایات کا حصہ کا راگ الاپنے والے لوگ ہیں جن کے پیٹوں میں مڑوڑ ایسے اٹھنے شروع ہوئے کہ انکی چیخیں اسکے خلاف رکنے کا نام ہی لے رہیں اور ایسے ایسے تعصبی بیانات انہوں نے دیے کہ بس اللہ کی پناہ۔
باخدا یہی مرد کا زیور اور روایات کا حصے کا راگ الاپنے والے لوگ تھے جو کہہ رہے تھے کہ مشرف غدار اپنی قوم [مہاجر] کو مسلح کر کے چلا گیا۔ کتنی ذلیل اور گھٹیا بات تھی یہ، مگر مشرف و متحدہ کی دشمنی میں اس بات کو آنکھوں پر بٹھایا جا رہا تھا اور مشرف و متحدہ پر گالیوں کی بوچھاڑیں ہو رہی تھیں اور میں دیکھ رہی تھی کہ کوئی انہیں روکنے والا اور کوئی ان کی مذمت کرنے والا نہیں تھا۔
یہ کیا منافقت ہے؟ یہ کونسا انصاف ہے؟
کراچی میں یہ چند ہزار قانونی لائسنس جو ناقابل معافی جرم اور قیامت کی نشانی بن جائیں۔۔۔ مگر جو سہراب گوٹھ میں اور وہاں سے جو کئی لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی دہشتگردی میں استعمال ہونے والا آٹومیٹک اسلحہ جو کراچی میں پھیلا تو اس پر یہی لوگ گونگے اور بہرے بنے بیٹھے رہے اور کوئی آواز نہ نکلی۔ اور سہراب گوٹھ کہیں زیادہ جو غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے اصل ام الفتن فاٹا کا علاقہ ہے، وہاں بھی آج تک یہ لوگ گونگے اور بہرے ہیں اور انکا گونگا پن دور ہوتا ہے تو صرف اُس وقت جب اس فتنے کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے، اور اس پر یہ لوگ مرد کا زیور اور روایات کے حصے کے نام پر اس آواز اٹھانے والے خلاف کود پڑتے ہیں۔
اور یاد رہے کہ جہاں پر اس غیر قانونی اسلحے کا کاروبار ہو گا، وہی جگہیں دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کا محور بھی بنیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سہراب گوٹھ میں صرف غیر قانونی اسلحے کا کاروبار ہی نہیں، بلکہ ڈرگز اور ہر دوسرے قسم کا غیر قانونی کاروبار بھی ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر فاٹا میں صرف غیر قانونی اسلحے کا ہی نہیں بلکہ ہیروئن کی کھلے عام کاشت اور ہر چوری کی کار کا وہاں پہنچنا اور ہر قسم کا سمگلنگ کا غیر قانونی مال موجود ہے کہ جس نے کبھی پاکستانی صنعت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ مگر بات وہی کہ ابتک ان تمام فتن پر یہی لوگ صم بکم بنے بیٹھے ہیں۔