دہشت گرد کو دہشت گرد کہنا کونسی منافقت ہے؟ کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہر خود کش دھماکے کے بعد دہشت گردی کا جواز ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے بہانے لے آتے ہیں اور طالبان کو ظالمان کہنے پر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں اور دوسری جانب بلوچستان میں عورتیں زندہ دفن کر دی جائیں یا کوئی پنچایت کسی عورت کو ریپ کے لیے پانچ مردوں کے حوالے کر دے تو انہی طالبان کے حامیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کیا اس وقت ان کی مذہبی غیرت نہیں جاگتی؟ ہو سکتا ہے وہ عورتوں کو اسی سلوک کے قابل ہی سمجھتے ہوں جبھی انہوں نے کبھی ظلم کی شکار عورتوں کے حق میں کبھی کلمہ خیر نہیں بولا۔ شاید طالبان کا اسلام بھی عورتوں کے ساتھ اسی سلوک کی ہی تعلیم دیتا ہے۔ طالبان کے نزدیک عورتوں کا بھیک مانگنا اور جسم فروشی کرنا قبول تھا لیکن ان کا تعلیم حاصل کرنا ایک ناقابل برداشت جرم تھا۔ طالبان افغانستان میں اپنے انجام کو پہنچے تھے اور انشاءاللہ پاکستان میں بھی یہ اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ جاہل لوگوں کے پاس سوائے منافقت کے فتوے جھاڑنے کے اور کوئی بات کرنے کی نہیں ہوتی۔
طالبان کی قید میں ایک برطانوی صحافی خاتون بھی رہی ہیں۔
آپ کی امریکی افواج کی تحویل میں ایک پاکستانی خاتون بھی رہی ہیں۔
بے مقصد سوال تو کجا ہماری تو بامقصدسوال کرنے کی عادت بھی نہیں کہ ہر جواب ہماری زنبیل میں دھرا رہتا ہے لیکن صاحبان عقل کے لیے نکتہ ہائے فکر چھوڑے دیتے ہیں:
کس نے اپنی قیدی عورت کو ریپ کے لیے چھوڑا؟
کس کے آئین میں نہتی عورت سے ریپ انتقام کا ہتھیار رہا؟
کس نے قیدی خاتون کے ساتھ بد ترین جسمانی، جنسی، ذہنی تشدد روا رکھا؟
اس سب کی روشنی میں ظالمان کون ہیں؟
پانچ عورتوں کے زندہ درگور ہونے میں طالبان کا کوئی قصور نہیں، اس پر ملک بھر میں بہت بحث ہو چکی۔
عورت اور پنچایت کا قصہ بھی جنوبی پنجاب کا ہے، اس میں بھی طالبان کا قصور نہیں، اس پر بھی بہت لے دے ہو چکی۔
سو یہ دونوں معاملات اسلام کی اتباع نہیں، بلکہ جاہلانہ سماجی رسم و رواج اور رہن سہن کا شاخسانہ ہے، انہیں کسی کے فہم اسلام سے نتھی کرکے اسلام کو بدنام مت کیجئے۔
طالبان کا اسلام جس سلوک کی اجازت دیتا ہے، اس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں۔
طالبان کا فہم اسلام بہرطور یکتا اور کامل نہیں، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بامیان کے مجسمے اور خواتین کی تعلیم جیسے کئی مسائل پر وہ اسلام کی روح نہ سمجھ پائے۔
طالبان افغانستان میں ہرگز ہرگز اپنے انجام کو نہیں پہنچے، وگرنہ مسلسل اتحادی افواج ان پتھریلے علاقوں میں پکنک کے واسطے نہیں ٹھہریں۔
طالبان کا پاکستان میں بھی انجام سے دوچار ہونا مشکل نظر آتا ہے، کم سے کم یہ دھماکے اس قدر فوجی آپریشنز کے بعد بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اور جاہل لوگوں کے بارے میں بہترین حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ واعرض عن الجاھلین۔
میرا کہنا صرف اتنا سا ہے کہ اس سارے قضیے میں مسئلے کی اصل جڑ امریکہ ہے۔ اب امریکہ کسی ملک میں اترے گا تو وہاں کے لوگ مزاحمت تو کریں گے خواہ وہ عراق ہو، افغانستان ہو یا پاکستان ہی کیوں نہ ہو۔ اس سارے مسئلے کو مذہبی اور لبرل، دونوں قسم کے تعصبات اور وابستگیوں سے بالاتر ہو کر as a matter of fact دیکھا جائے تو حقیقت حال واضح ہوگی کہ پاکستان کی حکومت کو امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ تمام تر مشینری امریکی تابع فرمان ہے،
- آج پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیے،
- اس جنگ سے باہر آجائیے،
- سرحد سے نہ کوئی جائے نہ کوئی آئے مکمل سیل کر دیا جائے کہ بھائی اپنی لڑائی تم خود لڑو ہماری طرف بھولے سے بھی پتھر آیا تو تمہاری خیر نہیں۔
اور یہ بات امریکہ اور طالبان دونوں کے لیے درست ہے، نہ تو امریکی جاسوس طیارے کو سرحد میں گھسنے دیا جائے نہ یہاں سے کوئی جائے اور کوئی آمدورفت ہوئی تو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ اپنے گھر کی کھڑکیاں دروازے بند کر لیجئے یانکیوں کو بھی کہہ دیجئے میاں اتنے مرد کے بچے ہو تو اپن جنگ خود لڑو،
- فغانیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ صاحب ہماری طرف سے معذرت ہماری اتنی پسلی نہیں۔
- پھر دیکھیں کیسے حالات واپس امن کی طرف لوٹ جائيں گے۔
آخر ایران میں کیوں دھماکے نہیں ہو رہے؟ظاہر ہے ایران امریکہ کا باجگزار نہیں۔
لیکن ہر طمانچے کے بعد لال بھبوکے منہ سے یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے کا راگ الاپنا ظاہر ہے کہ معاملات کو پیچیدہ تر کر دے گا۔
اگر یہ آپ ہی کی جنگ تھی تو آپ کو چاہئے تھا کہ انیس سو اٹھانوے میں ہی افغانستان پر لاؤ لشکر لے کر خود چڑھ جاتے۔