اس لاٹری سے قطع نظر ہماری رائے میں کم سن بچوں کے رشتے کردینا انتہائی نا مناسب بات ہے۔
آپ اپنی رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں۔
بلوچستان کے جس علاقے (ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ اللہ یار، سوئی) کی میں گفتگو کر رہا ہوں وہاں (بروہی خاندان، شاید اور نسلوں میں بھی رواج ہو لیکن میرا تعلق نہیں رہا تو علم بھی نہیں ) کسی لڑکی کا رشتہ دیتے وقت زر کثیر کا تقاضہ کیا جاتا ہے بصورت دیگر کچھ شرائط طے کیجاتی ہیں۔ ایک آنکھوں دیکھی مثال دیتا ہوں۔
جس ٹیوب ویل سے ہم روزمرہ استعمال کا پانی لیتے تھے وہ ایک بروہی فیملی کی ملکیت تھا، میرا وہاں کچھ عرصہ قیام رہا تو ان سے تعلقات کی نوعیت عام واقفیت سے کچھ زیادہ ہی رہی۔ اسی فیملی کا لگ بھگ 15 سال کا ایک بیٹا ٹیوب ویل کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ میرے قیام کے دوران ہی اس لڑکے کے رشتے وغیرہ کا سلسلہ چلا اور شادی بھی ہوئی۔ جب رشتے کی دعائے خیر وغیرہ ہوئی تو اوطاق یا ڈیرے پر ہم دو تین احباب بھی مدعو تھے۔ دعا سے پہلے مختلف معززین کے درمیان کوئی گھنٹہ بھر بروہی زبان میں سخت اور نرم گفتگو ہوتی رہی جو ہماری سمجھ سے بالا تھی۔ ایک آدھ دن بعد لڑکے کا والد ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ جب رشتہ طے ہو چکا تھا تو پھر یہ گھنٹہ بھر کیا گفتگو کرتے رہے؟
اس نے بتایا کہ لڑکی والوں نے رشتے کا دو لاکھ روپیہ مانگا ہے یا رشتے کے بدل میں رشتہ (وٹہ سٹہ) ۔ شومئی قسمت کہ اس خاندان میں بدلے کے لیے کوئی رشتہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس پیسے تھے۔ پھر کافی بحث مباحثہ کے بعد یہ طے ہوا کہ اس لڑکے کی پیدا ہونے والی اولاد میں سے دو لڑکیاں بدلے میں لڑکی کے خاندان والوں کو بغیر کسی شرط کے دی جائیں گی جو لڑکی کے دو ماموں زادوں سے بیاہی جائیں گی۔ میں نے پوچھا تو کیا لڑکی کے ماموں کے ہاں دو بیٹے ہیں؟ پتا لگا۔۔۔ اس ماموں کا تو ابھی رشتہ بھی نہیں ہوا۔