سید عاطف علی
لائبریرین
عاطف بھائی یہاں تو جاسمن آپا نے چھکا لگا دیا
میرے تو دونوں ہاتھ پہلے ہی اتنے اوپر اٹھ گئے کہ جتنے اوپر ہو سکتے تھے ۔کھانا ہے تم نے جو
میں نے بھی وہ ہی کھانا ہے
آؤ کریں کھانا ختم
عاطف بھائی یہاں تو جاسمن آپا نے چھکا لگا دیا
میرے تو دونوں ہاتھ پہلے ہی اتنے اوپر اٹھ گئے کہ جتنے اوپر ہو سکتے تھے ۔کھانا ہے تم نے جو
میں نے بھی وہ ہی کھانا ہے
آؤ کریں کھانا ختم
فیر تے اماں جی نے چنگا کیتہمیرے لیے گجرے لایا
ماں نے جونڈے پھڑ کے تونڑی لادی
ہان کا منڈا ملنے آیا
Really beautifulشبنم کے قطرے
تھوڑی دیر کو ٹھہریں گے
مہماں یہ پیارے
ماہیے نیں سنڑاونڑےمنڈا ہان دا
دوروں دوروں لنگھی جاوندا اے
سانوں نئیں پہچاوندا
ہم تو جاسمن آپا کے پیچھے پیچھے آئے کہ شکر ہے پنجابی تو سننے کو ملی۔ آنکھیں ہی ترس گئی تھیں۔ماہیے نیں سنڑاونڑے
ماشاءاللہ بہت عمدہ سر!کل سہ پہر سے جو بارش شروع ہوئی تو رات گئے تک نہیں تھمی۔ کبھی ہلکی، کبھی تیز۔ شام ڈھلے سرد ہوا کے جھونکوں نے بارش کی دھاروں کو اپنے ساتھ لہرانا بھی سکھادیا۔ چھت اور دیواروں پر بوندوں کا ساز بجنے لگا تو میں چائے کا کپ لے کر گھر کے باہر ڈیوڑھی میں کرسی پر آبیٹھا ۔ سڑک پر دور دور تک بے شمار آبی دائرے مسلسل بنتے بگڑتے نظر آرہے تھے ۔ چائے کے کپ کی گرماہٹ انگلیوں کو اچھی لگنے لگی۔ پھر نجانے کیسے ذہن میں یکایک محسؔن بھوپالی کا یہ ہائیکو گونجنے لگا۔
محسن غم مت کر
ہربارش میں بڑھ جاتا ہے
سرکنڈوں کا قد
سوچ کے دھارے ان تین مصرعوں کی انگلی تھامے سات سمندر پار کسی اور دیس میں جا نکلے ۔ چائے کی خوشبو کپ کے بجائے کوئلوں کی آگ پر رکھے سماوار سے آتی محسوس ہونے لگی۔ سڑک پر بنتے آبی دائرے پھیلتے پھیلتے ایک شہرِ رفتہ کی گلیوں میں جا نکلے۔ شام کی خنکی میں موتیا کی مہک اور گھروں کی پیشانی پر جلتی روشنیوں کے دائرے نیم تاریک آنگنوں سے شاعرانہ گفتگو کرنے لگے۔ میں نے ان باتوں کو ہائیکو کی صورت میں فی البدیہہ لکھنے کی کوشش کی ہے ۔
کالی ہوگی رات
جگنو جب سوجائیں گے
کوئی نہ ہوگا ساتھ
٭٭٭
موسم بدلا ہے
دو پھولوں کے کھلنے سے
آنگن مہکا ہے
٭٭٭
دھندلے شیشے پر
کیا کیا باتیں لکھتی ہیں
بارش کی بوندیں
٭٭٭
سرد ہوا کے ہاتھ
پیلے پتے ڈھونڈتے ہیں
ڈالی روتی ہے
بہت خوبصورت خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ بھیا واہشبنم کے قطرے
تھوڑی دیر کو ٹھہریں گے
مہماں یہ پیارے
جاسمن بہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت۔۔۔۔ واہبغض دی میلی چدر اوڑھی
ہتھ پیر مل مل دھو چھڈے نیں
پاک نہ دل ایہہ ہویا
ہماری صلاح:آنگن مہکا تھا
جنت جیسی ماں کا جب تک
سر پہ سایہ تھا