muhammad umair
محفلین
السلام علیکم ایک شعر کی تشریح کی ضرورت ہے
باقی مطلب اب خود ہی نکال لینا چاہیے کہ مجھے چہرے پر بالوں والے محبوب زہر لگتے ہیں
تاہم، شاعر نے گنجائش رکھ چھوڑی ہے، اپنے اپنے ذوق کی بات ہے صاحب!باقی مطلب اب خود ہی نکال لینا چاہیے کہ مجھے چہرے پر بالوں والے محبوب زہر لگتے ہیں
آپ کی محبت ہے محترم حسن محمود جماعتی بھیا! ان شاء اللہ، اردو محفل میں اب زیادہ چکر لگا کرے گا۔محمد فرقان برادرم! میر کے کم کم کی طرح آپ کا محفل پہ آنا کچھ کم کم ہو گیا ہے۔۔۔۔
محفل ہے یا کوچۂ جاناں جو "چکر" لگانا ہے۔۔۔۔۔۔آپ کی محبت ہے محترم حسن محمود جماعتی بھیا! ان شاء اللہ، اردو محفل میں اب زیادہ چکر لگا کرے گا۔
صاحب! ہم تو 'چکر' لگانے ہی آتے ہیں، آپ تو جانتے ہی ہیں! تاہم، معلوم ہوتا ہے، اردو محفل میں آج کل ویرانیوں کا راج ہے!محفل ہے یا کوچۂ جاناں جو "چکر" لگانا ہے۔۔۔۔۔۔
غالب جوانی میں ایسی ہی شاعری کرتا تھا۔ اور یہ اس وقت کی کلاسیکی روایت کے عین مطابق شعر ہے۔ ویسے شاعر اگر سیدھے سادھے الفاظ میں ہی شعر کہہ دے تو پھر شاعر کس چیز کا ہوا۔ویسے انتہائي ادب و معذرت کے ساتھ اگر یہ بات گستاخی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اتنی سی بات کو اتنے اوکھے الفاظ استعمال کرکے بنایا گیا شعر۔۔۔۔ اپنی شاعری کا رعب جھاڑنے کے لیے تو نہیں؟؟
کلاسیکی روایت میں محبوب کی صنف ہمیشہ مذکر ہی سمجھی اور باندھی جاتی تھی اور اسی وجہ سے محبوب کے "خط" کی وصف میں سارے کلاسیکی شعرا نے شعر کہہ رکھے ہیں۔ اور میرا ذوق یقینا مرادنہ محبوب والا نہیں ہےتاہم، شاعر نے گنجائش رکھ چھوڑی ہے، اپنے اپنے ذوق کی بات ہے صاحب!
ویسے انتہائي ادب و معذرت کے ساتھ اگر یہ بات گستاخی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اتنی سی بات کو اتنے اوکھے الفاظ استعمال کرکے بنایا گیا شعر۔۔۔۔ اپنی شاعری کا رعب جھاڑنے کے لیے تو نہیں؟؟
کہتے ہیں کہ ۔۔۔غالب جوانی میں ایسی ہی شاعری کرتا تھا۔ اور یہ اس وقت کی کلاسیکی روایت کے عین مطابق شعر ہے۔ ویسے شاعر اگر سیدھے سادھے الفاظ میں ہی شعر کہہ دے تو پھر شاعر کس چیز کا ہوا۔
سبزۂ خط ۔ وہ ہلکے ہلکے بالوں کے روئِیں جو نوجوان کے منہ پر نکلتے ہیں۔
کاکل - زلفیں
زمرد - سبز رنگ کا ایک پتھر، اس کے بارے میں کہاں جاتا ہے کہ یہ سانپ کے زہر کا تریاق ہوتا ہے۔
افعی - سانپ
دمِ افعی - سانپ کا دم، سانپ کا زہر
چہرے کے روؤں کو زمرد اور کالی سرکش زلفوں کو سرکش سانپ سے تشبیہ دی ہے۔
باقی مطلب اب خود ہی نکال لینا چاہیے کہ مجھے چہرے پر بالوں والے محبوب زہر لگتے ہیں
ویسے شاعر کس چیز کا ہوتا ہے؟؟ سنجیدہ بات ہے مطلب زبان کا شاعر کہا جائے گا؟؟تو پھر شاعر کس چیز کا ہوا۔
روایات کے مطابق زمرد کو دیکھ کر افعی اندھا ہو جاتا ہے۔ آصف الدولہ نے تجربہ کر کے دیکھا تو اس پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ اس بات کا ذکر غالب نے شاید کسی خط میں کیا تھا۔ویسے انتہائي ادب و معذرت کے ساتھ اگر یہ بات گستاخی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اتنی سی بات کو اتنے اوکھے الفاظ استعمال کرکے بنایا گیا شعر۔۔۔۔ اپنی شاعری کا رعب جھاڑنے کے لیے تو نہیں؟؟
جی قبلہ میں بھی یہی کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن کہا نہیں، مشکل لفظوں کا مطلب لکھ دیا فقط۔وارث بھائی سے ذرا سے اختلاف کیساتھ میرے ذہن میں اس شعر سے مختلف بات آتی ہے.
غالب اپنے محبوب کے لازوال حسن کی تعریف کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ محبوب کی زلفیں جو کسی سانپ کی مانند اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر لوٹا کرتی ہیں ہمیں اندازه یہ تھا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ حسن کی اس کشش میں فرق پڑ جائے گا یعنی جیسے ہی عمر بڑھے گی خط ظاہر ہوگا کچھ نہ کچھ ان زلفوں کے جادو میں کمی تو ہوگی. چونکہ تازہ خط سبزی مائل خیال کیا جاتا ہے اور روائت یوں ہے کہ شیش ناگ اگر زمرد پتھر(جو ہرے رنگ کا ہوتا ہے) نگل لے تو اس کی موت ہوجاتی ہے اس روائت کی رعائت سے ترے چہرے پر زمرد (خط) کے آجانے سے بھی سانپوں جیسی زلفوں کا زور کم نہ ہوا
یہی خیال ایک دوسرے مطلع میں بھی مل جائے گا
غالب ۔ ع ۔
آمدِ خط سےہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا، شاید خطِ رخسارِ دوست