نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ ہ ہ ہ ہ ہ ! بہت خوبصورت۔۔ اللہ جمیل و یحب الجمال۔ فطرت بہت حسین ہے، دیکھنے والی آنکھیں کم ہیں، کم لوگ ہیں جو فطرت کی ان کہی کو سمجھ سکتے ہیں۔
تحریر آپ کے معیار ذوق پر پوری اتری۔ داد پا کر خوشی ہوئی۔ شکرگزار ہوں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جتنا وجود تھکتا تھا ذہن پر جمی گرد اتنی ہی دھلتی چلی جا رہی تھی۔ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں اتری تھی کہ ایک بار نظام تنفس بھی پریشان ہوگیا۔ آج کوئی مٹی کوئی گرد نہیں۔ جسم میں ایک تازگی کی لہر سے دوڑ گئی۔ اسی جوش کے زیر اثر جو میں نے تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کی تو پاؤں کے نیچے آنے والے خزاں رسیدہ پتوں نے اس مملکت کے عام آدمی سے زیادہ شور مچا دیا تھا۔ وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ ایک بار تو میں نے بھی رک کر دیکھا ، پتے ہی ہیں نا۔

کتنی بھلی لگتی ہے فطرت کی خاموشی۔کبھی پرندوں کا چہچہانا اس خاموشی کو توڑتا تھا۔ تو کبھی کسی بھولے بھٹکے چوپائے کی چلنے سے جھاڑیاں شور مچاتی تھیں جیسے کسی نے انہیں بےسبب کچی نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ یہ خاموشی فراواں کلام کرتی ہے۔ سماعتوں کو وہ لفظ سناتی ہے جو روزمرہ کی گفتگو سے متروک ہوچکے ہیں۔ وہ خیال، وہ جذبے وہ چاہتیں جو دم توڑ چکی ہیں ان کو زندہ کرتی ہے۔

اوپر پہنچا تو ایک خوبصورت نظارہ منتظر تھا۔ نیچے عمیق وادی میں بےرحم شہر اقتدار پھیلا تھا۔ بلند و بالا عمارات چھوٹی ہو کر نشان سا رہ گئی تھیں۔ دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔​
بہت اچھا لکھا ذوالقرنین بھائی!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔
ضمیمہ کی اجازت دیجیے ذوالقرنین بھائی!
نیچے اگر کچھ تھا تو وہ پریشان مخلوق تھی جس کے ہاتھ میں






















اگربتی تھی یا نہیں، دور سے معلوم نہیں ہو سکا۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
عمدہ....!!
جب بارش کی پھوار محسوس ہونے لگے اور منظر زندگی کی صورت آنکھوں کے سامنے قطار بنانے لگیں تو جان لیجیئے کہ بہت دم ہے لکھاری کی تحریر میں..!! :)
ہمیشہ ایسے ہی جاندار رہیں آپ کی تحریریں نینی بھیا..!!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)
:) :) :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اے مرد شاپر پرست۔۔۔ بہت عرصہ بعد محفل میں دیدار ہوئے ہیں۔ :)
تحریر کو پسند کرنے کا شکریہ :)

یار محفل سے دور رہا، میرا ہی قصور ہے۔ مگر ان دنوں فیس بک اور باقی جگہوں سے بھی اوجھل تھا۔ خیر امید ہے اب دوری پھر سے رکاوٹ نہیں بنے گی :) :) ( اگرچہ روایت کے خلاف ہے پر یاروں سے بندہ ضد کر لیتا ہے۔ میں نے بھی کچھ لکھا ہے نثر میں ۔۔۔۔۔۔۔ اِک نِگاہِ کرم اس طرف بھی! :) )
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
عمدہ....!!
جب بارش کی پھوار محسوس ہونے لگے اور منظر زندگی کی صورت آنکھوں کے سامنے قطار بنانے لگیں تو جان لیجیئے کہ بہت دم ہے لکھاری کی تحریر میں..!! :)
ہمیشہ ایسے ہی جاندار رہیں آپ کی تحریریں نینی بھیا..!!
بہت شکریہ عینا۔۔۔۔۔ شکرگزار ہوں۔ :)
 
Top