ٹرالی پر چائے دھری تھی اور میں رضاعلی عابدی صاحب کی کتاب ’’اپنی آواز ‘‘ کا ایک قصہ پڑھ رہا تھا۔وہ اپنے بچپن کی باتیں اور عنفوانِ شباب کے کچھ قصے سنارہے تھے۔ اوائل عمری کا ایک قصہ جب وہ کانوں میں انگلیاں دے کر بولتے تو اُنھیں اپنی آواز بہت صاف اور قریب سے آتی محسوس ہوتی۔اُن کی یہ مشق بعدازاں بی بی سی کے کام آئی ،جس نے ایک عرصے تک زمانے کے ستائے ہوؤں کو دنیا کے المناک واقعات کی خبریں اِسی خوبصورت ، دلنشیں اور سحرانگیز آواز میں کچھ اِس طرح سنائیں کہ لوگ بجائے توبہ استغفار کرنے کے ہل من مزید کا تقاضا کرتے نظر آتے:
تری نیم کش نگاہیں ترا زیر ِ لب تبسم۔۔یونہی اِک ادائے مستی یونہی اِک فریبِ سادہ
اور عنفوانِ شباب میں جب اُنھیں اپنی ہی بلڈنگ کے ایک دوسرے فلیٹ کی لڑکی سے عشق ہوگیا اور ماں باپ نے اُسے یوسف کے ساتھ بیاہ کر رخصت کیا اور دوسرے دن وہ رشتہ توڑ کر واپس چلی آئی اور یہ بات اُسی بلڈنگ کے ایک تیسرے فلیٹ کی مائی حاجرہ نے اِنھیں سنائی تو اِن کے دکھی دل نے ایک انگڑائی سی لی اور مشورہ دیا کے انگلیوں سے پھر اپنے کان بندکرو اور کہو ’’اچھا ہوا‘‘
۔۔اُنھوں نے ایسا ہی کیااُنھیں اپنی ہی یہ آواز پہلے سے زیادہ صاف ،خوشگوار اور قریب سے آتی محسوس ہوئی یعنی:
موت پر اختیار ہو کہ نہ ہو۔۔زندگی اپنے اختیار میں ہے!