ڈراما یونانی لفظ ’’ڈرؤ‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے کرکے دکھانا یعنی عمل یا ایکٹ کرنا۔
اسی وجہ سے انگریزی میں ڈرامے کے لیے ’’ون ایکٹ یا ٹو ایکٹ‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔شیلڈن چینی کے بقول: ’’ڈراما اس یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’میں کرتا ہوں‘‘ اور جس کا اطلاق ’’ کی ہوئی چیز پر ہوتا ہے‘‘(بحوالہ: اردو ڈراما اور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص ۱۱ سنِ اشاعت ۲۰۱۶)بقول ارسطو: ’’ڈراما انسانی افعال کی ایسی نقل ہے جس میں الفاظ موزونیت اور نغمے کے ذریعے کرداروں کو محو گفتگو اور مصروف عمل ہو بہو ویسا ہی دکھایا جائے جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ یا ان سے بہتر یا بدتر انداز میں پیش کیا جائے‘‘۔ (بحوالہ: اردو ڈراما اور ناول اصول و فن، طارق سعید، ص۱۲)بقول طارق سعید: ’’ڈراما کسی قصے یا واقعے کو اداکاروں کے ذریعے تماشائیوں کے روبرو پھر سے عملاً پیش کرنے کا نام ہے‘‘۔ (ایضاً ص ۱۲)مذکورہ تعریفات میں کرنا، کیا ہوا، کرکے دکھائی ہوئی چیز، جیسے الفاظ کی تکرار ڈرامے میں ’’عمل‘‘ کی اہمیت کی طرف مشیر ہے۔ ڈراما کے متعلق بات صاف ہے کہ یہ دیگر اصناف سے مختلف ہے اس کی تکمیل بغیر اسٹیج کے مشکل اور ناممکن ہے۔ ڈرامے کے وجود کے اسباب: ڈرامے کے وجود میں آنے کی محرک دو انسانی جبلتیں ہیں، پہلی اظہارِ ذات، اور دوسری لفّاظی۔ اظہار ذات سے مراد انسان کا اپنے احساسات و جذبات اور اپنی کیفیاتت کو دوسروں کے سامنے اظہار کرنا ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اپنی بات دوسروں کے سامنے رکھے اور اس سے لطف اندوز ہوں۔۔۔۔۔۔
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔
ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62