لاسٹ کچھ دنوں سے مصروفیات بڑھ گئی تھی گھر کے ساتھ ساتھ باہر بھی تو ان شاءاللہ عنقریب ہم ان تمام مصروفیات سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
لاسٹ کچھ دنوں سے مصروفیات بڑھ گئی تھی گھر کے ساتھ ساتھ باہر بھی تو ان شاءاللہ عنقریب ہم ان تمام مصروفیات سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
محبتیں یاد آرہی تھیں آپکی !!!!کیونکہ ہم آپا کو بھولنے نہیں دیں گے آپکو بس یاد کرلیا کریں ویسے بھی ہم بوڑھے ہوگئے کبھی کچھ بیمار کبھی کچھ۔۔۔
 
محبتیں یاد آرہی تھیں آپکی !!!!کیونکہ ہم آپا کو بھولنے نہیں دیں گے آپکو بس یاد کرلیا کریں ویسے بھی ہم بوڑھے ہوگئے کبھی کچھ بیمار کبھی کچھ۔۔۔
نہیں جی بھولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت و تندروستی کے ساتھ ساتھ عمر حضر عطا فرمائے اور آپ کا سایہ شفقت ہمیشہ ہمارے سر پر رہے۔ آمین
 
یہ دنیا ایک سرائے ہے اور ہم یہاں پر فقط مسافر چند روزہ ہیں لیکن اللہ رب العزت نے اس لباس خاکی میں قلب زندہ کو بنا کر اس احساس کو پیدا فرما دیا ہے کہ اس سرائے فانی کی ہر شے سے ایسی رغبت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان اسے کبھی بھول نہیں پاتا لاکھوں نے مسافروں کے ملنے کے باوجود ہم ان مسافروں کو ہمیشہ یاد کرتے رہتے ہیں جو ہم سے سبقت لے جاتے ہیں اور سفر حیات تمام کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کو جا پہنچتے ہیں اور ہم یہیں کھڑے بس انھیں سوچتے رہ جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اس سفر میں ثابت قدم رہنے کو توفیق عطا فرمائے اور معینہ وقت پر ہمیں منزل پر پہنچائے۔
معذرت اصل میں جب سے محترم وارث مرحوم کے متعلق پڑھا ہے تو ان سے حسد ہونے لگا ہے کہ وہ مجھ سے سبقت لے گئے ہیں۔
 
اب آپ مجھ سے غالب کا شکو ہ سنیے:کب وہ سنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زبانی میری ۔غالب زندہ ہوتے تو اپنے شعر کو اِس طرح لکھنے پر کتنے خفا ہوتے لیکن شاید کمپیوٹر کی مجبوریوں کا خیال کرکے چُپ ہوجاتے اور میری طرح انتظار کرتے کہ کب اُردُو ویب گاہوں پر اُردُو لکھنے کے لیے انگریزی رسم الخط کے وسائل اُردُو کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں۔اِس دوران اگر دنیا سے کوچ کرجاتے اور اُن کے بعد اُردُو ویب گاہیں منزلِ مراد پاتیں تو شاید وہ ایک بار پھر جی اُٹھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب!
 

الف عین

لائبریرین
اب آپ مجھ سے غالب کا شکو ہ سنیے:کب وہ سنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زبانی میری ۔غالب زندہ ہوتے تو اپنے شعر کو اِس طرح لکھنے پر کتنے خفا ہوتے لیکن شاید کمپیوٹر کی مجبوریوں کا خیال کرکے چُپ ہوجاتے اور میری طرح انتظار کرتے کہ کب اُردُو ویب گاہوں پر اُردُو لکھنے کے لیے انگریزی رسم الخط کے وسائل اُردُو کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں۔اِس دوران اگر دنیا سے کوچ کرجاتے اور اُن کے بعد اُردُو ویب گاہیں منزلِ مراد پاتیں تو شاید وہ ایک بار پھر جی اُٹھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب!
بات تو سچ ہے مگر بات یہ ہے کہ اردو والوں کو بھی زمانے کے ساتھ بدلناچاہیے
 
پابہ رکاب
لاہور بھی کیا خوبصورت شہر ہے ۔یہاں ننھی دادی رہتی ہیں ۔پان بہت کھاتی ہیں اور پان کھاتے ہوئے باتیں بھی کرتی جاتی ہیں۔اپنے دور کے قصے لہک لہک کر سناتی ہیں اور ہمارے دور کو بُرا بھلا کہتی جاتی ہیں۔انھوں نے مرغیاں پال رکھی ہیں اور اُن سے اتنا پیار کرتی ہیں جیسے لوگ اپنے بچوں سے کرتے ہیں۔اُن کی زبان پر اکثر یہ دعا رہتی ہے خدایاچلتے ہاتھ پیر اٹھائیو،کسی کا محتاج نہ کیجو،آخری کلمہ تیرا ہی زبان پر ہو۔
2​
ننھی دادی پکا ریندھ کر فارغ ہوئیں ،عشاء کی نماز پڑھی ،سب کے ساتھ کھانا کھایااور جب سونے کا وقت آیا تو حسبِ معمول بچے جمع ہوگئے ۔ دادی کہانی سنائیں۔دادی نے حضرت موسیٰ ؑ اور خضر ؑکا قصہ کہنا شروع کیا اور ابھی تھوڑاسا ہی بیان کیا تھا کہ رکیں،کھنکھار ا جیسے گلا صاف کررہی ہوں پھر صاف اونچی آواز سے کلمہ پڑھا اور ہمیشہ کےلیے خاموش ہوگئیں:
مل جائے وہ تو اُس کی بلائیں ضرور لوں
میں ڈھونڈنے چلا ہوں دُعا کو اثر کے بعد
نکلی یہ جان یا ۔۔۔کوئی کانٹا نکل گیا
راحت ملی ہے آج مجھے عمر بھر کے بعد

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چائے کی طلب تو ہر وقت ہی رہتی ہے۔ ایسا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا اس موسم میں، مگر چائے ہو اچھی طرح پکی ہوئی اور پتلی سی
 

سیما علی

لائبریرین
داغ تو ایسے قادر الکلام شاعر تھے کہ ان کی خیال افروز تخلیقات کی آرزو ہر شعر کہنے والے کے دل میں ہے کہ ہم بھی اس معیار کے شعر کہہ سکتے ۔ جو باتیں لوگ اپنے دل میں رکھتے تھے وہ داغ کی شاعری میں نمایاں ہو کر بالکل سامنے آ جاتی تھیں ۔
بلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
ہم نوا ہیں سب عنادلِ باغِ ہستی کے جہاں

داغ کا وجود تو ایسا تھا جو باغوں میں چہکتے ہوئے بلبل کا ہوتا ہے دہلی کا یہ صاحب اسلوب شاعر افسوس کہ اسی قبرستان میں پہنچ گیا جہان دوسرے بڑے شعراء دفن ہیں۔




اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 
آخری تدوین:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔۔۔۔۔یہ بات غالب نے کہی تھی مگریاد رہے وہ ایسے مردم بیزار ، تنہائی پسند اور گوشہ نشیں قسم کے انسان نہ تھے بلکہ اُن کے خطوط گواہ ہیں کہ ایک وسیع حلقہ ٔ احباب و اعزاء و اقرباء تلامذہ اور معتقدین کا ہمیشہ اُن کے ربط میں رہا ،جن پر وہ جان چھڑکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو کہنے کی وجہ؟
 
Top