عرب کو عجم سے کیا ضد تھی ؟کوئی نہیں ، کوئی بھی تو نہیں سِوائے اِس کے کہ اُنھیں زبان دانی میں دنیائے غیرعرب سے اپنے تفوق کا پکایقین اوراِس پر تفاخر کا شدیداحساس تھا۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غالباً اب عرب کو اس بات پر فخر ہے کہ دین اسلام کی بنیاد یہاں رکھی گئی، اور بجا فخر کر رہے ہیں عرب
 
فخر کی بات تو ہے لیکن اس فخر کے ساتھ جو ذمہ داری ان پر پڑی اسے انہوں نے کہاں تک پورا کیا؟؟ امت کی والدہ ہمشیرہ ہو رہی ہے اور انہیں مندر اور سیناگاگ بنوانے اور غیر قوموں کی غلامی پر تلے دیکھ کر کچھ فخر نہیں ہو رہا ۔ اب وہ عرب کہاں
 

وجی

لائبریرین
مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ الٹی گنگا بہت زیادہ بہ رہی ہے انہی لوگوں کی تعداد کے ہوتے ہوئے
 
وہاں روس میں دستوئے فسکی نے ناول ’’ایڈیٹ ‘‘ لکھ کر اپنےمعاشرے کے زخم خوردہ لوگوں سے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔’’میں ہوں نا۔۔۔۔۔۔!‘‘یہاں شوکت صدیقی نے ’’خدا کی بستی ‘‘ کا نوحہ سناکراُردُو میں اپنے لوگوں سے پوچھا تھا: ’’کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
پہلا مصرع تو بھائی عاطف نے کہہ لیا، دوسرا ہے

سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
 
آخری تدوین:
ترے۔ جمال۔ کی ۔تصویر کھینچ دو ں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں،آنکھ میں زبان نہیں
جگؔر مرادآبادی کے اِس شعرسے آنندبخشی
صاحب نے فلم مائی لوکے ایک گیت کا بند
یوں کشید کیا:
تجھ کو دیکھا ہے میری نظروں نے
تیری تعریف ہو مگر کیسے
کہ بنے یہ نظر زباں کیسے
کہ بنے یہ زباں نظر کیسے
نہ زباں کو دکھائی دیتا ہے
نہ نگاہوں سے بات ہوتی ہے
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تو جو چاہے تو دن نکلتا ہے
تو جو چاہے تو رات ہوتی ہے
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ حسین وہی جسے اپنے حسن کا شعور نہیں۔یہ بات علامہ کے کسی خط میں دیکھی تھی، جو انہوں نے لندن جاتے ہوئے بحری جہاز سے دوستوں کو تحریر کیے ہوں گے۔ غور کیا تو گزرے وقتوں کی گاؤں کی دوشیزائیں حسن کی ملکہ کہلانے کے لائق تھیں ، جنھیں علم بھی نہ ہوتا کہ وہ کس عظیم وصف کی حامل ہیں۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال 1905 ء میں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن جارہے تھے تو ایک انگریز لڑکی کا واقعہ اپنے کسی خط میں تحریر کیا ہے کہ وہ بڑی حسین تھی اور بار بار اِدھر اُدھر دیکھتی تھی کہ کون اُسے تعریفی نظروں سے دیکھ رہا ہے ،دیکھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسی پر انہوں نے کہاہوگا کہ حسین وہ جسے اپنے حسن کا شعور نہیں۔​
 
آخری تدوین:
جوان جسم ہے ، جذبات میں تلاطم ہے
ذرا سی حب وطن کی حشیش پینے دو
اسی کی ساری توانائیوں کو کھا جاؤ
پھر اس سے کہنا جیواور ہم کو جینے دو
 
Top