جس کی دیغ اُس کی تیغ یہ بھی ایک کہاوت ہے جس کا مطلب ہے جودوسخاسے کام لینے والوں کا بیڑا پارہے۔اِس کے برعکس تنگ دل اور بخیل منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔۔۔۔
 
خوان بڑا ،خوان پوش بڑا، کھول کے دیکھا تو آدھابڑا:اِس کہاوت کا مطلب وہی ہے جو ہم اونچی دکان پھیکا پکوان یا عامیوں کی زبان میں باتیں کروڑوں کی دکان پکوڑوں کی سے لیتے ہیں۔۔۔۔
بڑا کا مطلب مونگ یا اُڑد کی تلی ہوئی ٹکیہ ہے،چندٹکیوں کودہی میں بھگولیں تو دہی بڑے ہوجاتے ہیں
 
آخری تدوین:
ڈر نہ محبت کرلے ڈر نہ محبت کرلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوشاد موسیقار تھے، مجروح سلطان پوری گیت کار اورمحبوب نے اُس فلم کا ڈول ڈالاتھا۔نام فلم کا ’’انداز‘‘ہے اور گیت گایا تھا لتامنگیشتر نے ۔بعد میں اِس فلم کے سبھی فنکاروں نے خوب خوب عروج پایا۔۔۔۔۔۔۔شاید محبت کا اثر تھا جس میں ڈر کا دخل نہ تھا۔۔۔​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ذرا سا مجروح سلطان پوری کا مشاعرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ آج کل مشاعروں کی ویڈیوز دیکھ رہا ہوں تو ان حضرات سے تعارف ہو رہا ہے۔
 
رات بے رات ضرورت پڑجائے تو دورتک ڈاکٹر ہے، دواخانہ ہے نہ ہسپتال پھر بھی لوگ بڑے ارمانوں سے نئی آبادیوں میں جابستے ہیں۔۔۔میں تو اِسے جابسنا نہیں جاپڑنا کہوں گا۔​
 
آخری تدوین:
1-زق زق بق بق مطلب بک بک جھک جھک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2-زمین خان یعنی توہم پرستوں کے ایک بزرگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے زمین خاں، شاہ دریا،شاہ سکندر،شاہ قلندر،شاہ لوٹن اور بی بی آسی سے آس و مراد چاہنے والے۔​
 
آخری تدوین:
سڑک دھجی ہونا:یہ بھی ایک محاورہ ہے یعنی سیلابی ریلے،کثرتِ استعمال،بھاری بھرکم ٹریفک،دیکھ بھال میں سستی یا قدیم تر ہوجانے پر شاہراہ ازحد خراب ہوجائے تو کہیں گے سڑک دھجی ہوگئی ہے۔۔۔​
 
آخری تدوین:
صلوٰاتیں ٹہلانا؛بُرا بھلا کہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بہاری اُردُو کے محاورے ہیں۔۔۔۔۔۔۔’’بہار اُردُو لغت‘‘از احمد یوسف،خدا بخش اورینٹل لائبریری ، پٹنہ،اشاعت 1995ء۔ہندُستان کے مردم خیز صوبےصوبۂ بہار کی علمی ، تعلیمی، تصنیفی، تحقیقی اور ادبی سرگرمیوں سے متعلق بحث چل رہی تھی۔ ایک صاحب نے اِس لغت کو بھی دیکھنے کامشورہ دیا۔میں نے یہ لغت دیکھی ۔ مجھے تو اِس میں جا بجا خلا نظر آیا، یعنی بعض بعض محاوروں ، کہاوتوں اور ضرب الامثال کے مفاہیم میسرنہ تھے جسے مؤلّف نے یہ کہکر بہلادیا کہ جن محاوروں کے مطلب صاف تھے اُنھیں رہنے دیاگیاہے۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
1۔’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طبلہ بجاتے تھے۔موسیقی پر ایک کتاب’’گلشنِ ترنم ‘‘لکھی ہے،صرف اِس کا دیباچہ پڑھنے سے ہندوستانی موسیقی کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوتے ہیں۔‘‘2-’’مجھے ایک لڑکی 1904ء میں ہوکر گزر گئی۔میں نے بارہاکہا آپ دوسرا عقد کرلیجیے اگر کہو تو میں آپ کےلیے لڑکی ڈھونڈوں۔یہ سن کر حیرت سے میرا منہ دیکھتے اور کہتے ؛کیا تم دل سے کہہ رہی ہو،کیا تم کو مجھ سے یہ امید ہوسکتی ہے۔نہیں بیگم(مجھے وہ ہمیشہ بیگم پکارا کیے)یہ نہیں ہوسکتا، جو خُدا کو منظور ہے وہی ہوگا۔اگراولاد خدا کو دینا ہوگاتو تم سے ہی دے گا۔‘‘(’’میری کہانی میری زبانی ‘‘سے اقتباس)یہ بھی بہاری اُردُو کانادر نمونہ ہے جس پر بشرطِ فرصت لکھوں گا۔۔۔مولوی سید ہمایوں مرزاکی خودنوشتہ سوانح عمری موسوم بہ ’’میری کہانی میری زبانی ‘‘کتاب کے دیباچہ کایہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو مصنف کی زوجہ محترمہ نے تحریرکیا تھا اور یہ کتاب شوہر کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
عالی جناب ،واقعی مجھے جب بھی اور جتنا بھی وقت ملتا ہے وہ سارے کا سارا کمپیوٹر کی نذر ہوجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر سے مراد انٹرنیٹ ہے ،جس کے بغیر کمپیوٹر نامکمل ہے اور کمپیوٹر کے بغیر آج کی دنیا اندھیرہے۔۔۔​
 
آخری تدوین:
’’غبارِ خاطر‘‘ سے مصفا ہونے کے لیے کمپیوٹر اور پھر انٹر نیٹ اور پھر اِس کی دیگراختراعات خوب کام کرتی ہیں۔مجھے اختیار ہوتا تو میں اِسے کیتھارسس مشین کا نام دیتا مگر ا ب بھی اپنے تئیں اِسے یہی کہتااور سمجھتا ہوں۔۔۔​
 

وجی

لائبریرین
عالی جناب ،واقعی مجھے جب بھی اور جتنا بھی وقت ملتا ہے وہ سارے کا سارا کمپیوٹر کی نذر ہوجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر سے مراد انٹرنیٹ ہے ،جس کے بغیر کمپیوٹر نامکمل ہے اور کمپیوٹر کے بغیر آج کی دنیا اندھیرہے۔۔۔​
فرق ضرور پڑتا ہے اگر ہم کمپیوٹر کا استعمال نہ کریں کسی کام میں
مگر یہ نہ کہیں کہ کام ہوہی نہیں سکتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
Top