غالیہ اور عالیہ ہم صوت و ہم وزن الفاظ ہیں۔عالیہ کا مطلب تو صاف ہے یعنی اکثر یت پر واضح ہے مگر غالیہ کےلیے ڈکشنری سے رجوع کرنا پڑا ۔ ڈکشنری نے بتایا اِس کا مطلب خوشبو ہے۔غالؔب کی طرف پلٹے اور اُن کا ایک شعرپڑھا:
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وہ آئے
اِس شعر کے قافیے مُو اور وہ ہیں اور دونوں کی آوازوں میں فرق ہے (کہہ کے دیکھیے)۔اور پوری غزل کے باقی قافیے دیکھیں؛مُو۔وہ۔کو۔ گو۔ بُو۔جو ۔ ہو۔ کھو۔ڈبو اور ۔۔۔۔۔رو۔اب کون بتائے کہ بُو اور ہو باہم قافیے کیسے ہوگئے۔۔۔۔کیا مشترک لفظ سے قبل یکساں حرکات کے سبب مگر تلفظ تو دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔متحدحرکات کے باوجود۔۔۔۔۔
کیا غالؔب کی یہ غزل ہماری محفل کے زمرۂ ’’اِصلاحِ سُخن ‘‘ میں نہیں ہونا چاہیے تھی ؟