شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’شعرشورانگیز ‘‘میرے سامنے ہے ۔ڈھائی ہزار صفحات کی اِس کتاب کے آغاز میں اکابرین علم و ادب کے ’’شعرشورانگیز ‘‘ پر تبصرے نما اقوال خاصے کی چیز ہیں۔منشی دیبی پرشادسحربدایونی ’’معیار البلاغت ‘‘والے ، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ’’بہشتی زیور‘‘والے اور میرزا عبدالقادر بیدل ، غالب جن کے سب سے بڑے معتقدتھے اور کہتے تھے ’’طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا ،اسد اللہ خاں قیامت ہے‘‘کے ایسے اقوال کتاب کے ابتدائی صفحات کی زینت ہیں جن کی روشنی میں میرکے اشعار کی تشریح ،تنقیح ، تفسیر اور محاکمہ عمل میں لایاگیا ہے اور چارجلدوں پر مشتمل اِس کتاب نے ظہور پایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔