وکٹ کیپنگ اعلیٰ درجہ کی غوطہ خوری سے کم نہیں ۔ وسیم باری جیسے مایہ ناز وکٹ کیپر نے پیچیدہ اور غیرمتوقع گیندیں مہارت سے کیچ کرکے یہ ثابت کردکھایا۔۔۔۔۔۔
 
بہت دیا دینے والے نے تجھ کو آنچل ہی نہ سمائے تو کیا کیجیے
بیت گئے۔ جیسے یہ دن۔ رینا۔ باقی ۔بھی کٹ جائے دعا کیجیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو بھی دیدے مالک تُو کرلے قبول کبھی کبھی کانٹوں میں بھی کھلتے ہیں پھول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں۔ دیر بھلے ہے۔ اندھیر ۔نہیں۔ گھبرا۔کے ۔یوں۔ گلا۔ مت ۔کیجیے
فلم ’’صورت اور سیرت‘‘، سال 1962ء،مرکزی کردار:دھرمیندراور نوتن،موسیقی:روشن،گلوکار: مکیش،موضوع:انسان اچھی سیرت اورنیک کردار سے ہی اشرف المخلوقات یعنی کائنات کی اِس متحرک تصویرکا ہیرو ہے۔۔​
 
پاپوش نگر کراچی کی ایک بستی ہے ۔پا پاؤں کو کہتے ہیں اور پوش اِسے ڈھانپنے والی چیز یعنی جوتی ہے۔مگر یہاں پاپوش بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں بلکہ چاندنی چوک سے شروع ہوکر ریلوے پھاٹک سے گزرتی ناظم آباد کے مین روڈ تک جاتی ایک لمبی سڑک ہے جہاں ایک فوڈ اسٹریٹ ہے کہ کہیں کباب سیخوں پرچڑھے کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک کا انتظا رکررہے ہیں کہیں کچوریاں اور سموسے تیل کے کڑھاؤمیں غوطہ زن ہیں،کہیں حلیم کی دیگ پیٹ پھُلائے آتے جاتوں کو تک رہی ہے اور کہیں چکن قورمے کو فل میک اپ کراکےاِس کے ہونے کی خبر بڑی سی ہنڈیا کو پیٹ پیٹ کر دی جارہی ہے۔یہ سب کچھ ہے مگر نہیں ہے تو وہ فضا نہیں ہے کہ جس میں اِن طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں رچی ہوں بلکہ وہ ماحول ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے یہاں ہرپکوان اور اِن کے بنانے والے فقیروں کی طرح آپ کی جیب کو دیکھ رہے ہیں آپ کے پیٹ پر ایک کی نظر نہیں۔۔۔۔​
میراتو جو بھی قدم ہے وہ تیری راہ میں ہے
کہ تو کہیں بھی رہے ،تو میری نگاہ میں ہے​
 
آخری تدوین:
جپ جپ جپ جپ رے پریت کی مالا۔۔۔۔۔فلم ’’شاردا‘‘ راجکپور ، مینا کماری۔۔۔۔۔مکیش کی آواز​

پریم نگر کا باسی ہوجا ڈوب کے اِس ساگر میں کھوجا
 
چرخی دھاگالپیٹنے کی پھرکی کو کہتے ہیں ،چرخ آسمان کو کہاجاتا ہے اور چرخا سُوت کاتنے کی مشین ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِن سب میں جو ایک بات مشترک ہے وہ اِن کا گھومنا ہے ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
ذکر العیش نصف العیش ہے۔ چنانچہ اکثر کو دیکھا اور خود اپنے تئیں بھی نوٹ کیا کہ ماضی اور اُس کی مسرتیں خواہ معمولی تھیں،رہ رہ کر یاد آتی ہیں اور زبردستی دوسروں کو سنائی جاتی ہیں۔کسی کو اِن سے کیا سروکار مگر وہ اِس لیے سن لیتے ہیں کہ ہم کہہ چکیں تو وہ بھی کہیں۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
رہتا تو واقعی ہے یاد گزرا ہوا زمانہ، اقبال یاد آ گئے
آتا ہے یاد مجھ کو، گزرا ہوا زمانہ
 
’’زبان آج کھلی ہے کل بند‘‘یعنی زندگی کاکوئی اعتبار نہیں۔تو زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ،اِس پر تو کتنی ہی کہاوتیں ، مقولے ، ضرب الامثال، نظمیں ، غزلیں اور اشعار موجود ہیں پھر زندگی کو زبان سے کیوں جوڑا گیا؟خوب غور کیا تو پتا چلا کہ زبان بھی زندگی کی طرح اہم بلکہ اہمیت میں زندگی سے بڑھ کر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔زبان بدلنے سے گھر بدلنا بہتر ہے(ایفائے عہد یعنی کیے گئے عہد کا پا س و لحاظ)زبان ٹیڑھی ملک بانکا(بدزبانی نت نئی خرابیاں دکھائے)زبان جنے ایک بار ماں جنے بار بار (کہنا اورکہہ کر مکرجانا جائز نہیں)زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو(اکثریت کی رائے اہم ہے)زبان سے بیٹا بیٹی پرائے ہوجاتے ہیں(منہ سے نکلی بات کسے دشمن بنا ڈالے کچھ پتا نہیں،رشتے ناطے بھی اِسی زبان سے طے ہوتے ہیں)زبان شیریں ملک گیری ، زبان ٹیڑھی ملک بانکا(میٹھی زبان لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی ہے کڑوی زبان سے بازی پلٹ ہی جاتی ہے)
 
آخری تدوین:
ژند باف پارسیوں کے پادری کو کہتے ہیں ،یہ بتایا ایک ڈکشنری نے۔اِس کے بعد ہم نے ڈکشنری بند کردی اور ڈکشنری نے بھی اپنی للّو بند کرلی۔۔۔۔۔۔۔
 
سحر کا حسن ویسے بھی لاجواب ہوتا ہے مگر اب جبکہ مون سُون کی کیفیات بھی اِس میں شامل ہوگئیں تویہ دوآتشہ ہوگیاہے۔میں شہرِکراچی کی بات کررہاہوں ۔جہاں اِس وقت صبح کے دس بجکر چارمنٹ ہوئے ہیں مگر یوں لگتا ہے جیسے صبح کے پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھہ بجے ہیں ۔۔۔۔۔۔بادلوں کے پرے جمے کھڑے ہیں، بھیگی بھیگی ہوائیں چل رہی ہیں ،ہلکی ہلکی بونداباند ی کااثر ہے ،دودھ والا دودھ اور اخبار والا اخبار مگر وقت پر دے گیا ہے ۔ گرم گرم چائے آیا چاہتی ہے ۔بارش کی خبریں مگر یہ ہیں کہ تندوتیزہواؤں کے جھکڑ رات خاصا ہلڑ مچاتے رہے اور شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں اور ایک کراچی نہیں پورے ملک میں بارشوں کا راج ہے۔۔۔​
 
آخری تدوین:
شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’شعرشورانگیز ‘‘میرے سامنے ہے ۔ڈھائی ہزار صفحات کی اِس کتاب کے آغاز میں اکابرین علم و ادب کے ’’شعرشورانگیز ‘‘ پر تبصرے نما اقوال خاصے کی چیز ہیں۔منشی دیبی پرشادسحربدایونی ’’معیار البلاغت ‘‘والے ، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ’’بہشتی زیور‘‘والے اور میرزا عبدالقادر بیدل ، غالب جن کے سب سے بڑے معتقدتھے اور کہتے تھے ’’طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا ،اسد اللہ خاں قیامت ہے‘‘کے ایسے اقوال کتاب کے ابتدائی صفحات کی زینت ہیں جن کی روشنی میں میرکے اشعار کی تشریح ،تنقیح ، تفسیر اور محاکمہ عمل میں لایاگیا ہے اور چارجلدوں پر مشتمل اِس کتاب نے ظہور پایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top