سیما علی

لائبریرین
محبت ٹام کی جیری سے بیمثال ہے ۔۔۔۔



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62

 
ہنس،راج کنول، مرغابی یہ چیزیں حوض کا حسن ، تالاب کی خوبصورتی اور ندی کی زینت بن جاتی ہیں ۔ہواؤں کے جھکورےاور پانیوں کے نرم نرم ہلکورے ان کے ناز اُٹھاتے ہیں۔۔۔۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
بہترین مقالوں ، کارآمد مراسلوں ، ، حسین جملوں،دلنشیں عبارتوں ،دلرُبامضامین،دلکُشاتحریروں، دلپذیرشعروں،دلچسپ طرزوں اور بحروں میں نظم کے ٹکڑوں ،غزلوں کے تراشوں اور انشاء پردازی کی توقع کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔​
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالؔب صریر ِ خامہ نوائے سروش ہے​
فی الحال توظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے۔۔۔۔۔
 
ٹیم ورک یعنی مل کر کرنے کا ہے یہ کام کہ کمپیوٹر جیسی عظیم الشان مشین اور انٹرنیٹ جیسی بہترین سہولت کی، کھیل ہی کھیل میں جیسی بھد اُڑائی جارہی ہے ،نہ اُڑے۔مثل مشہور ہے ’’رانڈ، بھانڈ ،سانڈ بگڑے بُرے۔۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
ثمرنیکی کا نیک ہے ۔بابائے اُردُو مولوی عبدالحق اپنی علمی مصروفیات میں کچھ زیادہ کتابیں تصنیف نہ کرسکے سِوائے’’چندہم عصر‘‘،’’۔اُردُو کی ابتدائی نشو ونُما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ اور دوستوں ،شاگردوں ، اعزاء کے نام خطوط یا مختلف اوقات میں مختلف علمی اورادبی ہستیوں کے بارے میں کہی باتیں جو کبھی ’’افکارِ حالی ‘‘ کے عنوان سے مدون ہوئیں اور کہیں ’’سرآغاخاں کی اُردُو نوازی ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوکر سامنے آئیں۔لیکن میرے خیال میں بابا کی تصانیف کا ہی درجہ نصیب ہے اُردُو سائنس کالج، اُردُو آرٹس کالج، اُردُو لاءکالج ،اُردُو کامرس کالج(جواب خیر سے اُردُو یونیورسٹیوں کے مراتب پر فائز ہیں)،انجمن ترقیِ اُردُو اور اِس کے ذیلی ادارۂ تالیف و تصینف و ترجمہ کو۔اِن سے فیض یاب ہونے والے طلبا، ادیب اور علماءِ کرام دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہاے زندگی کی روحِ رواں ہیں۔۔۔
(باباکےعلمی اور تحقیقی مقدمات کا تذکرہ کسی اور مراسلے کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں)
 
Top