سمٹ کے رفعت افلاک رہ گئی اس دم
جناب نایاب بلیاوی صاحب
سمٹ کے رفعت افلاک رہ گئی اس دم
نبی کھڑے ہوئے تعظیم فاطمہ کے لیے
جو چھن رہی تھیں شعائیں ردائے زہرا سے
وہ ذوالفقار بنی تھی مباہلہ کے لیے
کوئی ادنی سے ادنی ہے تو کوئی
ظل سبحانی
اسی کے درمیاں پستی رہے گی نسل انسانی
کوئی ساحل پہ موجوں کی طرح سر کو پٹکتا ہے
کوئی خاموش ماہی کی طرح چومے ہے طغیانی
میں شیشے سےبھی نازک سنگریزے کوسمجھتا ہوں
ہے قھاری کے سینے میں بھی پنہاں شان رحمانی
کوئی ذرے کے پوشیدہ بیاباں میں بھٹکتا ہے
کوئی مہتاب کے دامن سے لے آیا پشیمانی
ستارے کی طرف جانا یہ انساں کی بلندی ہے
ستارے کی بلندی ہے در زہرا پہ پیشانی