نور وجدان

لائبریرین
زمین و زماں تمھارے لیے
مکیں و مکاں تمھارے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری خوشیاں وفا نہیں کرتیں​
دل کو درد سے آشنا رکھنا۔۔​
سعدی فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

شعلہ تھا ، جل بجھا ہوں ہوائیں نہ دو مجھے
میں کب کا جا چکا ہوں، صدائیں نہ دو مجھے

صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا​
رات کا جادو بکھر کر رہ گیا​
ناصر کاظمی

ضمیر کانپ تو جا تا ہے آپ کچھ بھی کہیں​
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد​

طلبِ درد میں دل حد سے گذرتا کب تھا​
تم نے پوچھا تھا کہ اور،اس نے کہا اور سہی​
صدیاں کہتی ہیں کہ بس دیر ہے اب قرنوں کی​
اس قدر رنج سا ہے تو ذرا اور سہی

ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی​
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی​
(کلیم عاجز)
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
(جون ایلیا)
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

فراز آئے ہو تم اب رفیق شب کیلٰئے
کہ دورِ جام نہ ہنگام رقص باقی ہے

قیس جنگل میں‌اکیلا ہے مجھے جانے دو​
خوب گزرے گی جو مِل بیٹھے گے دیوانے دو​

کب سے بیٹھا ہوں میں‌ جانم​
سادے کاغذ پہ لکھ کہ تیرا نام

گاؤں مٹ جائے گا شہر جل جائے گا​
زندگی تیرا چہرہ بدل جائے گا​
(بشیر بدر)
لبوں پر حشر میں وحشت کے افسانے بھی آئیں گے
دلوں کا حال کہنے، اُن کے دیوانے بھی آئیں گے

میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا​
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا​
خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی​
تجھے گنوا کے تیرا درد بھی گنوا بیٹھا​
( احمد ندیم قاسمی)

نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظر جیسی​
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا​

وہ مجھ سے بچھڑ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا​
ورنہ ہر اک سانس قیامت اسے بھی تھی​

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں​
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا​
( انشاء)

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن​
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک​

یہ کہنا تو نہیں کافی، کہ بس پیارے لگے ہم کو​
اُنہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو

 

ناصر رانا

محفلین
زمین و زماں تمھارے لیے
مکیں و مکاں تمھارے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری خوشیاں وفا نہیں کرتیں
دل کو درد سے آشنا رکھنا۔۔​
سعدی فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

شعلہ تھا ، جل بجھا ہوں ہوائیں نہ دو مجھے
میں کب کا جا چکا ہوں، صدائیں نہ دو مجھے

صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا
رات کا جادو بکھر کر رہ گیا
ناصر کاظمی

ضمیر کانپ تو جا تا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد

طلبِ درد میں دل حد سے گذرتا کب تھا
تم نے پوچھا تھا کہ اور،اس نے کہا اور سہی
صدیاں کہتی ہیں کہ بس دیر ہے اب قرنوں کی
اس قدر رنج سا ہے تو ذرا اور سہی

ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
(جون ایلیا)
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

فراز آئے ہو تم اب رفیق شب کیلٰئے
کہ دورِ جام نہ ہنگام رقص باقی ہے
قیس جنگل میں‌اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مِل بیٹھے گے دیوانے دو
کب سے بیٹھا ہوں میں‌ جانم
سادے کاغذ پہ لکھ کہ تیرا نام

گاؤں مٹ جائے گا شہر جل جائے گا
زندگی تیرا چہرہ بدل جائے گا
(بشیر بدر)
لبوں پر حشر میں وحشت کے افسانے بھی آئیں گے
دلوں کا حال کہنے، اُن کے دیوانے بھی آئیں گے
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا
خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے تیرا درد بھی گنوا بیٹھا
( احمد ندیم قاسمی)

نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

وہ مجھ سے بچھڑ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر اک سانس قیامت اسے بھی تھی

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا
( انشاء)

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

یہ کہنا تو نہیں کافی، کہ بس پیارے لگے ہم کو
اُنہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو​

اب ہم کیا لکھیں، آپ نے تو نیا ہی پار لگادی۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
طرح طرح کے ظلم ڈھاے جا رہے ہیں بیچارے حرف "ژ" پر۔ کھبی "جیل" کی دھمکی ،تو کبھی
"گڑبڑی" کرنے کا الزام ۔ اب "ژ" جائے تو کہا جاے ؟۔:confused1:
 

یوسف سلطان

محفلین
عجب بات ہو گئی ، میں تو سمجھا تھا اپ میری بات کی تائید کریں گے ،"مخلص انسان " ہو کر بھی "ژ" کے ساتھ اتنا غیر مخلصانہ رویہ :unsure::(۔
 
Top