مہدی نقوی حجاز
محفلین
بخدا کہ جرعہ ای دہ تو بہ حافظ سحر خیز
کہ دعای صبح گاہی اثری کند شما را
(چائے کے جرعے کی بات ہو رہی ہے )
کہ دعای صبح گاہی اثری کند شما را
(چائے کے جرعے کی بات ہو رہی ہے )
سنا ہے، پڑھا بھی ہے کہ فعیل بہ معنی مفعول استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قتیل بمعنی مقتول، خزیب بمعنی مخزوب اور شہید بمعنی مشہود وغیرہ۔۔۔روزانہ ایک لفظ پر ریسرچ کیا کریں۔ ذبیح اسم مفعول نہیں ہو سکتا؟
شنید ہماری بھی یہی ہے جو جناب نے سنا ہے ۔۔۔۔ البتہ فعیل کی دو حالتین مفعول اور فاعل مبالغہ بخصوصیت استمرار(مثلاں علیم مستقل علم والا) معروف ہیں ہم گونگے قاعدہ کی تو کیا کہیں گے جواہل زبان معروف جانیں وہی قاعدہ اور سند ٹھہرالیں ۔۔سنا ہے، پڑھا بھی ہے کہ فعیل بہ معنی مفعول استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قتیل بمعنی مقتول، خزیب بمعنی مخزوب اور شہید بمعنی مشہود وغیرہ۔۔۔
لیکن اس کے لیے ابھی تک کوئی قائدہ طے نہیں ہو سکا۔ ایک نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ جب بھی ثلاثی مجرد میں کسی متعدی فعل کا مفعول بنانا مقصود ہو تو وہ فعیل کے وزن پر بنتا ہے۔ لیکن یہ قائدہ بھی موجود ہے کہ فعیل کا وزن فعل کو لازم کیے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس پر کسی عالم کی رہنمائی درکار ہوگی!
صرفی حضرات کا ماننا ہے کہ جو صیغہ مبالغہ ہے وہ بھی در اصل فاعل ہی ہے، جیسے ثلاثی مجرد کے باب شرف یشرف سے شریف واقع ہوتا ہے، یہی صفت مشبہ بھی ہے جو فاعل کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور صیغہ مبالغہ جیسے رحیم بھی اسی سے مشتق ہے۔ اور ثلاثی مجرد سے فعیل کا وزن برآمد کرنے کا ایک ہی قائدہ ہے اور وہ یہ فعل، فعل لازم ہو۔ لیکن فعیل بمعنی مفعول متعدی سے بننا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا آپ ہی کی مثال میں یعنی علیم میں یہ دونوں قائدے ٹکرا جاتے ہیں!شنید ہماری بھی یہی ہے جو جناب نے سنا ہے ۔۔۔۔ البتہ فعیل کی دو حالتین مفعول اور فاعل مبالغہ بخصوصیت استمرار(مثلاں علیم مستقل علم والا) معروف ہیں ہم گونگے قاعدہ کی تو کیا کہیں گے جواہل زبان معروف جانیں وہی قاعدہ اور سند ٹھہرالیں ۔۔