غور کرنا تو مشکل ہے البتہ گوگل کرنے پر
محمد وارث بھائی کے بلاگ پر ان کا جواب مل گیا.
"طائر پرندہ اور لاہوت کا مطلب تصوف میں یہ لیا جاتا ہے کہ وہ عالم جس میں کوئی خدا کا متلاشی یا سالک اللہ تعالٰی کی ہستی میں فنا ہو جاتا ہے یعنی ایک ایسا پرندہ کہ اسکی ایسی پرواز ہے کہ حق سے واصل ہو گیا۔
استعارہ کے طور پر اس سے مراد انسان ہے، جیسے اقبال کا شعر
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس شعر میں طائرِ لاہوتی سے مراد انسان ہے اور اسی طرح واصف کی نظم میں بھی طائر لاہوتی کا مطلب انسان ہی ہے۔"