بابا محمد یحیٰ خان

نایاب

لائبریرین
اچھا سلسلہ ہے لیکن
یہاں اس کو شروع کرنا مناسب نہیں لگا مجھے
کیونکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جسے آج کی سائنس پیراسائیکولوجی کے نام سے جانتی ہے
جسمیں ایسی باتیں کی جاتی جو بقول بعض لوگوں کے سچائی سے متصادم ہوتی ہیں عقائد سے متصادم ہوتی ہیں عام فہم نہیں ہوتی
اور میرے بھائی سید اسد محمود حیران ہوئے تھے فرقہ ملامتیہ کا سُن کر
تو میرے بھائی جہاں اتنے الٹے سیدھے فرقے ہیں وہاں یہ بھی سہی
لیکن یہ بھی تو دیکھیئے کہ اپنی صرف خامیاں کھلے عام بیان کرنا اُن کا اعتراف کرنا بہت دل گُردے کا کام ہے
بہرحال دنیا ہے دنیا کے رنگ جہاں چور، لٹیرے، زانی، قاتل، منافق اور سُودی ہیں وہاں یہ ملامتی بھی سہی
اور واقعی ان کی کتاب کافی مہنگی ہے میں خریدنا چاہتا ہوں لیکن بجٹ اجازت نہیں دیتا :)
میں چاہوں گا کہ اس پر روحانی بابا بھی کچھ روشنی ڈالیں
نایاب بھائی سے بھی گزارش ہے

محترم بابا جی
بلا شبہ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کی نصیحت سچی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ اسلام سب کو بلا تفریق سلامتی سے نوازتے مومن بننے پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور ہم مسلمان کوئی پل نہیں جانے دیتے جب ہم دو چار پر فتوی جڑ کافر نہ بنا لیں ۔۔۔۔
اس کی وجہ صرف یہی کہ ہم نے قران جو کہ ہدایت و نصیحت کا روشن مینارہ نور ہے ۔ ہم نے اس کی تلاوت سے مشرف ہوتے " غور و فکر و عمل " کو ترک کرتے اسے صرف " فتوی کفر " کی مہر بنا لیا ۔ کسی بھی سورت کی چند آیات کو سیاق و سباق سے الگ کرتے ان کی نازل ہونے کی حکمت کو فراموش کرتے ان آیات کو من پسند خواہش سے کسی پر بھی چسپاں کرتے " کافر " بنانا ہماری پہلی نیت و خواہش بن چکی ہے ۔
کیونکہ ہم نے قران پاک کے سب سے پہلے حکم کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔ جو کہ " اقرا" کا حکم دیتا ہے ۔
 

ساجد

محفلین
محترم اراکین سے التماس ہے کہ ہر معاملے میں دوسروں پر فتوی بازی مناسب عمل نہیں۔ اگر آپ اپنے لئے آزادی کے متمنی ہیں تو دوسروں کو بھی ان کے عقائد کی آزادی دینا پڑے گی۔ میں اپنے معزز اراکین سے توقع رکھتا ہوں کہ ادبی ، علمی اور نظریاتی تحریروں کو اپنے رنگ میں رنگنے اور ان پر فتوی بازی سے بہتر ہے کہ تحریر پیش ہی نہ کیا کریں یا پھر برداشت کی عادت ڈالیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
ایک بات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ بابا یحییٰ صاحب فرما رہے ہیں کہ بچپن میں مزاروں سے پیسے چراتا تھا۔۔۔اور بعد میں اس قدر امیر ہوگئے کہ بیرونِ ملک کاروبار اور فیکٹریاں؟؟؟ مجھے ان میں اور زرداری میں کچھ مماثلت نظر آرہی ہے۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
story4.gif
 
بیٹا قرآن سے محبت کرو
قرآن مجید فرقان حمید سے محبت کا ثبوت تو آپ کے مخصوص طریقہ کار پتہ لگ رہا ہے کہ کس بدتمیزی سے آپ قرآن شریف کو قران کہہ کر مخاطب کررہے ہیں۔
قرآن مجید میں ایک آیت کا مفہوم کچھ یون بنتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس کو پڑھ ہدایت پاتے ہیں اور بہت سارے کج روی اختیار کرتے ہیں اور جو کج روی اختیار کرتے ہیں ان کے دماغ میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور ماشاء اللہ سے آپ کے بھس بھرے دماغ میں جتنی ٹیڑھ ہے وہ ساری محفل جانتی ہے۔
 
یوسف-2
حضرت آپ ان کو اور بابا یحیی کو ساتھ ملا رہے ہیں یعنی آپ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ شیطان کی پوجا کرتے ہیں وہ اور بابا محمد یحیٰ ایک ہی چیز ہیں ؟؟؟؟
 
یار لوگوں نے تو بیٹھے بٹحاءے، بغیر مطالعہ کءے اور بغیر اس شخص سے ملاقات کءے اسکو تارکِ شریعت، اور شیطان کا چیلا تک ڈککلئیر کردیا۔۔۔
 
ایک بات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ بابا یحییٰ صاحب فرما رہے ہیں کہ بچپن میں مزاروں سے پیسے چراتا تھا۔۔۔ اور بعد میں اس قدر امیر ہوگئے کہ بیرونِ ملک کاروبار اور فیکٹریاں؟؟؟ مجھے ان میں اور زرداری میں کچھ مماثلت نظر آرہی ہے۔۔۔
اگر آپ نے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ پڑھی ہے تو اس میں بھی انہوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے حالات میں اس قسم کا واقعہ درج کیا ہے کہ کس طرح وہ اور انکے ایک دوست کا معمول تھا کہ وہ ایک مزار پر جاکر بیسے چرا کر استعمال میں لاتے تھے (جب وہ نابالغ تھے) اور مزار اور صاحبِ مزار کے ساتھ انکا یہی تعلق تھا۔۔۔بعد میں جب وہ انڈین سول سروس کے آفیسر بن گئے تو اسی راستے سے گذرتے ہوئے جب وہ مزار سامنے آیا تو فاتحہ پڑھنے کیلئے حاضر ہوئے اور فاتحہ کے دوران ان کے ذہن میں وہی بچپن کے واقعات گذرنے لگے کہ کس طرح وہ اور انکا دوست یہاں سے پیسے نکال کر لیجاتے تھے۔۔اب چونکہ وہ آفیسر بن چکے تھے لہذا اب ایسا کرنا انہیں اپنی شان کے منافی لگا۔ لیکن ایسا سوچتے ہی کیفیات تبدیل ہوگئیں اور وہ مقام جہاں انہیں محبت اور انسیت محسوس ہوتی تھی یکایک وحشتوں کی کیفیات منعکس کرنے لگا۔۔اپنے اس تکبر کا علاج انہوں نے اپنے سر پر 5 جوتے لگا کرکیا اوردربار کے بکس سے اپنے بچپن کے معمول کے مطابق پھر ایک اٹھنی نکالی اور تکبر ونخوت کی بے برکتیوں کی کیفیت سے نجات پائی۔۔۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ بابا جی فیکٹریوں اور کاروبار کے مالک کیسے بن گئے تو یہ کوئی ایسی ناممکن اور انہونی بات نہیں ہے۔ ایک متجسس، ذہین اور محنتی انسان کیلئے یہ سب حاصل کرلینا اللہ کے فضل سے عین ممکن ہےلیکن اگر آپکو اس سارے کردار میں زرداری کی جھلک دکھائی دے رہی ہے تو آپکی مرضی :)
 

ساجد

محفلین
لڑکپن میں باغ سے تازہ امرود اور کینو تو ہم نے بھی کھائے ہیں ۔ واردات یہ ہوتی تھی کہ مالی کو ایک کلو کے پیسے دے کر اندر گھس جاتے اور باغ کے بیچوں بیچ بہتے کھال میں "مالِ مسروقہ" پھینکتے جاتے جسے، باغ سے باہر اسی کھال کے کنارے کھڑا ، ہمارا ایک ساتھی سمیٹتا رہتا ۔ واپسی پر ہماری جھولی میں ایک کلو امرود ہی ہوتے اور ہم شریف بچوں کی طرح مالی کو سلام کر کے گھر کی راہ لیتے۔
پھر ایامِ عاشور میں اپنے نانا جی کے گھر میں رکھے گئے تعزیے پر عوام کی طرف سے ہونے والی سکوں کی برسات کو ہم تعزیے کے نیچے گھس کر خوب سمیٹتے ۔ تبھی خیال آتا کہ یہ لوگ عقیدت میں یہ بھی نہیں جانتے کہ اس رقم پر کسی ضرورت مند کا حق ہے ہم جیسوں کا نہیں۔
میرا یقین ہے کہ ہر انسان کی زندگی کا بچپن اور لڑکپن ایسے واقعات سے عبارت ہوتا ہے اور اس عمر کے کچھ تجربات ہمیں غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں جن سے ہماری اصلاح کے راستے کھلتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے مکمل انکار کر کے خود کو حاجی لق لق ثابت کرنا چاہے تو ہم اسے کہیں گے Good Luck.
 
لڑکپن میں باغ سے تازہ امرود اور کینو تو ہم نے بھی کھائے ہیں ۔ واردات یہ ہوتی تھی کہ مالی کو ایک کلو کے پیسے دے کر اندر گھس جاتے اور باغ میں بیچوں بیچ بہتے کھال میں "مالِ مسروقہ" پھینکتے جاتے جسے، باغ سے باہر اسی کھال کے کنارے کھڑا ، ہمارا ایک ساتھی سمیٹتا رہتا ۔ واپسی پر ہماری جھولی میں ایک کلو امرود ہی ہوتے اور ہم شریف بچوں کی طرح مالی کو سلام کر کے گھر کی راہ لیتے۔
پھر ایامِ عاشور میں اپنے نانا جی کے گھر میں رکھے گئے تعزیے پر عوام کی طرف سے ہونے والی سکوں کی برسات کو ہم تعزیے کے نیچے گھس کر خوب سمیٹتے ۔ تبھی خیال آتا کہ یہ لوگ عقیدت میں یہ بھی نہیں جانتے کہ اس رقم پر کسی ضرورت مند کا حق ہے ہم جیسوں کا نہیں۔
میرا یقین ہے کہ ہر انسان کی زندگی کا بچپن اور لڑکپن ایسے واقعات سے عبارت ہوتا ہے اور اس عمر کے کچھ تجربات ہمیں غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں جن سے ہماری اصلاح کے راستے کھلتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے مکمل انکار کر کے خود کو حاجی لق لق ثابت کرنا چاہے تو ہم اسے کہیں گے Good Luck.
بہت عمدہ ساجد میرے خیال سے بغیر کسی جانبداری کے آپ نے ایک بچے کے ذہن کی نفسیات اور طبیعت کو اجاگر کیا ہے جس میں آپ نے کسی اور کی مثال دینے کی بجائے اپنی مثال دی ہے
 

باباجی

محفلین
لڑکپن میں باغ سے تازہ امرود اور کینو تو ہم نے بھی کھائے ہیں ۔ واردات یہ ہوتی تھی کہ مالی کو ایک کلو کے پیسے دے کر اندر گھس جاتے اور باغ میں بیچوں بیچ بہتے کھال میں "مالِ مسروقہ" پھینکتے جاتے جسے، باغ سے باہر اسی کھال کے کنارے کھڑا ، ہمارا ایک ساتھی سمیٹتا رہتا ۔ واپسی پر ہماری جھولی میں ایک کلو امرود ہی ہوتے اور ہم شریف بچوں کی طرح مالی کو سلام کر کے گھر کی راہ لیتے۔
پھر ایامِ عاشور میں اپنے نانا جی کے گھر میں رکھے گئے تعزیے پر عوام کی طرف سے ہونے والی سکوں کی برسات کو ہم تعزیے کے نیچے گھس کر خوب سمیٹتے ۔ تبھی خیال آتا کہ یہ لوگ عقیدت میں یہ بھی نہیں جانتے کہ اس رقم پر کسی ضرورت مند کا حق ہے ہم جیسوں کا نہیں۔
میرا یقین ہے کہ ہر انسان کی زندگی کا بچپن اور لڑکپن ایسے واقعات سے عبارت ہوتا ہے اور اس عمر کے کچھ تجربات ہمیں غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں جن سے ہماری اصلاح کے راستے کھلتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے مکمل انکار کر کے خود کو حاجی لق لق ثابت کرنا چاہے تو ہم اسے کہیں گے Good Luck.

ساجد بھائی آپ سے گزارش ہے کہ اس دھاگے کو بند کردیں
اس سے زیادہ کچھ کہوں گا تو وہ گستاخی سمجھی جائے گی
 

انتہا

محفلین
ویسے فرقہ ملامتیہ کی تو خصوصیت ہی یہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر لوگوں کی ملامت کو اپنے سر لیتے ہیں، چناں چہ ملامت پر ٹینشن کیوں؟؟؟
لیکن تاریخ پر نظر ڈالنے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے، کہ یہ ملامتیہ والے اپنے آپ کو کبھی ملامتی ظاہر نہیں کرتے، لوگ خود ہی پہچان لیتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
دھاگہ اپنے منطقی انجام کی طرف سفر آغاز کر چکا ہے اب ایسے میں میری جہل پر مبنی رائے محض صفحے کا پیٹ بھر نے پر بھی دال صاد کی جاسکتی ہے۔ سو پھر بھی عرض گذار ہوتا ہوں کہ بابا محمد یحیٰ کو پڑھے بغیر رائے زدگاں دوستاں کا رویہ تکفیرِ علم کی مد میں آتا ہے ۔پھر یہ بھی اگر مان لیا جائے کہ بابا محمد یحیٰ صاحب بہروپیے ہیں تب بھی ان موصوف کی وجہ سے ’’ملامتی فرقہ‘‘ کے ’’اولیائے کرام‘‘ بشمول ’’منصورالحلاج‘‘ بالعموم ’’حضرت لعل شہباز قلندر‘‘ ایسی ہسیتوں کو بزعم ِ خویش ’’تبحرِ علمی ‘‘کی بنیاد پر طعن کا نشانہ بنا نا کہاں کی ’’علم دوستی ‘‘ ہے ؟ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر ایسا ایمان لے آتے ہیں کہ کسی بھی بات کو بیک جنبشِ قلم رد کردینے کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں ، روحانیت دنیا کے ہر مذہب موجود ہے ،بشری تقاضوں کی بنیاد پر کسی کو بھی رگیدنے کے عمل میں ہم بھول جاتے ہیں کہ پچھلی ہی کسی مراسلت میں ہم ’’ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے‘‘ کا فتوی بطور ڈھال استعمال کرچکے ہیں ۔ مجھے دیگر دوستوں سے کوئی خاص نہ شکایت ہے نہ اختلاف کیوں کہ سبھی اپنی اپنی رو میں سب کچھ کہنے پر قادر ہیں مگر کچھ دوستوں بالخصوص میرے دوست محمد امین کی مراسلت پر مجھے شدید دکھ ہو ا کہ موصوف ’’تحقیق‘‘ کے آدمی ہوکر محض شنیدن گفتم کی بنیاد پر کسی کو کتنی آسانی سے در کررہے ہیں ۔ میری دانست میں مجھے چوں کہ دیگر دوستوں کی نسبت محمدامین سے زیادہ محبت ہے سو دکھ انہی کی بات کا زیادہ ہوا ۔ بابا محمدیحیٰ سے میری بھی تفصیلی ملاقات کراچی میں ہوئی ہے ان کے بارے میں کچھ لکھنے یا کہنے سے پہلے میں بہت سوچتا ہوں کہ خدا نے اگر مجھ میں بھی کوئی ایسی صلاحیت رکھی ہے تو میں اس کا ’’محفل کے بازار‘‘ میں کیوں ڈھنڈورا پیٹتا رہوں ؟ بابا محمد یحیٰ اور سرفراز صاحب ان دنوں اگر ’’روحانیت‘‘ کے نام پر اگر بازار کا حصہ بنے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب قطعاً نہیں کہ مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش یا عناد ہو تو میں منصور الحلاج سمیت ملامتی فرقے کے لگ بھگ بیالیس فقراء اولیا کو سخت سست کہوں ۔۔ خان آصف نے ’’ اللہ کے سفیر‘‘ لکھ کر دراصل فریدالدین عطار کی ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ کی عام فہم شکل ہی سامنے لائی ہے ، ’’ملامتی فرقے‘‘ کا معاملہ پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے ، نظام الدین اولیاء ، فریدالدین شکر گنج ، ابوبکر کتانی سمیت دیگرکو ہم کیسے بغیر جانے ’’تارکِ شریعت‘‘ کہہ سکتے ہیں ؟ کبھی کبھی مجھے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ دوستوں کی مراسلت سے کہ بس جی چاہتا ہے سب کو فرداً فرداً ملوں اور ان کے پاؤں دھو کر پیوں ۔۔ کہ زعمِ علمی میں خبر نہیں گزرتدی دوستوں کو اور وہ بعض اوقات اولیاء سمیت صحابہ کے علم کو بھی رد کرتےہوئے فتح کے جھنڈے گاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی کی ذاتی تقلید ،عقیدت کو گھوڑے کے سموں تلے روندتے ہوئے ہم ایک ’’انسان‘‘ کے حلقوم پر دراصل چھری کا وار کررہے ہوتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے والا کوئی معصوم بچہ بھی ہوسکتاہے کوئی بزرگ بھی ہوسکتا ہے ۔۔ میں معافی چاہتا ہوں دوستوں سے کہ اگر یہ ’’علم‘‘ ہے تو اللہ یہ علم ہمیں نہ دے ہمیں ’’ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم ‘‘ والا جاہل انسان ہی رہنے دے ۔امین ۔
 

مغزل

محفلین
یہاں سب لوگ کیسے کی باتیں کرنا شروع ہوگئے ہیں؟ :confused:
گڑیا یہ بہت صاحب علم لوگ ہیں
تم بھی چپکے سے چلی جاؤ اس پیج سے ورنہ ایسے ایسے علمی وار ہونگے کہ جہالت سے محبت ہوجائے گی
سو فیصد متفق گڑیا سو فیصد متفق فراز بھائی ۔۔ بس یہی بک بک میں نے بھی لکھ ڈالی ہے ۔۔
 
دھاگہ اپنے منطقی انجام کی طرف سفر آغاز کر چکا ہے اب ایسے میں میری جہل پر مبنی رائے محض صفحے کا پیٹ بھر نے پر بھی دال صاد کی جاسکتی ہے۔ سو پھر بھی عرض گذار ہوتا ہوں کہ بابا محمد یحیٰ کو پڑھے بغیر رائے زدگاں دوستاں کا رویہ تکفیرِ علم کی مد میں آتا ہے ۔پھر یہ بھی اگر مان لیا جائے کہ بابا محمد یحیٰ صاحب بہروپیے ہیں تب بھی ان موصوف کی وجہ سے ’’ملامتی فرقہ‘‘ کے ’’اولیائے کرام‘‘ بشمول ’’منصورالحلاج‘‘ بالعموم ’’حضرت لعل شہباز قلندر‘‘ ایسی ہسیتوں کو بزعم ِ خویش ’’تبحرِ علمی ‘‘کی بنیاد پر طعن کا نشانہ بنا نا کہاں کی ’’علم دوستی ‘‘ ہے ؟ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر ایسا ایمان لے آتے ہیں کہ کسی بھی بات کو بیک جنبشِ قلم رد کردینے کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں ، روحانیت دنیا کے ہر مذہب موجود ہے ،بشری تقاضوں کی بنیاد پر کسی کو بھی رگیدنے کے عمل میں ہم بھول جاتے ہیں کہ پچھلی ہی کسی مراسلت میں ہم ’’ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے‘‘ کا فتوی بطور ڈھال استعمال کرچکے ہیں ۔ مجھے دیگر دوستوں سے کوئی خاص نہ شکایت ہے نہ اختلاف کیوں کہ سبھی اپنی اپنی رو میں سب کچھ کہنے پر قادر ہیں مگر کچھ دوستوں بالخصوص میرے دوست محمد امین کی مراسلت پر مجھے شدید دکھ ہو ا کہ موصوف ’’تحقیق‘‘ کے آدمی ہوکر محض شنیدن گفتم کی بنیاد پر کسی کو کتنی آسانی سے در کررہے ہیں ۔ میری دانست میں مجھے چوں کہ دیگر دوستوں کی نسبت محمدامین سے زیادہ محبت ہے سو دکھ انہی کی بات کا زیادہ ہوا ۔ بابا محمدیحیٰ سے میری بھی تفصیلی ملاقات کراچی میں ہوئی ہے ان کے بارے میں کچھ لکھنے یا کہنے سے پہلے میں بہت سوچتا ہوں کہ خدا نے اگر مجھ میں بھی کوئی ایسی صلاحیت رکھی ہے تو میں اس کا ’’محفل کے بازار‘‘ میں کیوں ڈھنڈورا پیٹتا رہوں ؟ بابا محمد یحیٰ اور سرفراز صاحب ان دنوں اگر ’’روحانیت‘‘ کے نام پر اگر بازار کا حصہ بنے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب قطعاً نہیں کہ مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش یا عناد ہو تو میں منصور الحلاج سمیت ملامتی فرقے کے لگ بھگ بیالیس فقراء اولیا کو سخت سست کہوں ۔۔ خان آصف نے ’’ اللہ کے سفیر‘‘ لکھ کر دراصل فریدالدین عطار کی ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ کی عام فہم شکل ہی سامنے لائی ہے ، ’’ملامتی فرقے‘‘ کا معاملہ پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے ، نظام الدین اولیاء ، فریدالدین شکر گنج ، ابوبکر کتانی سمیت دیگرکو ہم کیسے بغیر جانے ’’تارکِ شریعت‘‘ کہہ سکتے ہیں ؟ کبھی کبھی مجھے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ دوستوں کی مراسلت سے کہ بس جی چاہتا ہے سب کو فرداً فرداً ملوں اور ان کے پاؤں دھو کر پیوں ۔۔ کہ زعمِ علمی میں خبر نہیں گزرتدی دوستوں کو اور وہ بعض اوقات اولیاء سمیت صحابہ کے علم کو بھی رد کرتےہوئے فتح کے جھنڈے گاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی کی ذاتی تقلید ،عقیدت کو گھوڑے کے سموں تلے روندتے ہوئے ہم ایک ’’انسان‘‘ کے حلقوم پر دراصل چھری کا وار کررہے ہوتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے والا کوئی معصوم بچہ بھی ہوسکتاہے کوئی بزرگ بھی ہوسکتا ہے ۔۔ میں معافی چاہتا ہوں دوستوں سے کہ اگر یہ ’’علم‘‘ ہے تو اللہ یہ علم ہمیں نہ دے ہمیں ’’ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم ‘‘ والا جاہل انسان ہی رہنے دے ۔امین ۔

دوست۔ آپ کی باتیں جذباتی زیادہ ہیں اور آپ کچھ حد تک جانبدار بھی ہوئے
شریعت اسلام پر عمل کم ازکم شرط ہے کسی انسان کے ظاہر کو پہچاننے کی۔ مخلوق کسی کے باطن کو جاننے کی دعوی دار عمومانہیں ہے۔ سیدھی سے بات ہے کہ آدمی کو اس کے اعمال پر ہی جانا جائے گا۔ جب ظاہرا اعمال شریعت کی نفی کرتے ہیں تو ادمی کو ظاہرا اسی آصول پر تولا جائے گا جس کا علم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دیا۔
یہ کہاں سے ظاہر ہے کہ مقدس ہستیاں ظاہرا شریعت کی نفی کرتی رہی ہیں؟ ایسا سوچنا بھی درست نہیں ہوگا۔
ظاہر ہے کہ روحانیت کسی کو انکار نہیں ہے مگر روحانیت اور صوفیت میری نظر میں انسان کا اللہ سے تعلق ہے جو جتنا مضبوط ہوجائے گا اتنا ہی انسان کی فلاح کے لیے بہتر ہے مگر یہ تعلق کبھی بھی ان بنیادی شرائط کو کمزور نہیں کرے گا جو شریعت نے وضع کی ہیں کیونکہ یہی شریعت اس اللہ نے وضع کی ہے جس سے تعلق کو مضبوط کرنے کےلیے روحانیت یا صوفیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

انسان کا اللہ سے جتنا تعلق مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی ہو اس تعلق کی تشتہر سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ تشتہر بھی کیوں ہو جبکہ یہ مقصد ہی نہیں اور اس کی وجہ سے مقصد اولیٰ و اعلی فوت ہوجاتا ہے۔
پس جو انسان اس روحانیت اور صوفیت کی مشھوری میں مشغول نظر اوے وہیں یہ معاملہ پڑجاتا ہے کہ یہ شخص کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟

میری نظر میں کوئی بھی ہستی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں جو خود شریعت پر عمل کرتے اور اس پر عمل کی تلقین کرتے رہے۔

میں کوئی اس معاملہ کا عالم نہیں ہے۔ میری رائے ایک ناقص رائے ہے۔ اگر اپ اس سے بہتر رائے رکھتے ہوں تو مجھے بھی ضرور مطلع رکھیں
 

یوسف-2

محفلین
دوست۔ آپ کی باتیں جذباتی زیادہ ہیں اور آپ کچھ حد تک جانبدار بھی ہوئے
شریعت اسلام پر عمل کم ازکم شرط ہے کسی انسان کے ظاہر کو پہچاننے کی۔ مخلوق کسی کے باطن کو جاننے کی دعوی دار عمومانہیں ہے۔ سیدھی سے بات ہے کہ آدمی کو اس کے اعمال پر ہی جانا جائے گا۔ جب ظاہرا اعمال شریعت کی نفی کرتے ہیں تو ادمی کو ظاہرا اسی آصول پر تولا جائے گا جس کا علم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دیا۔
یہ کہاں سے ظاہر ہے کہ مقدس ہستیاں ظاہرا شریعت کی نفی کرتی رہی ہیں؟ ایسا سوچنا بھی درست نہیں ہوگا۔
ظاہر ہے کہ روحانیت کسی کو انکار نہیں ہے مگر روحانیت اور صوفیت میری نظر میں انسان کا اللہ سے تعلق ہے جو جتنا مضبوط ہوجائے گا اتنا ہی انسان کی فلاح کے لیے بہتر ہے مگر یہ تعلق کبھی بھی ان بنیادی شرائط کو کمزور نہیں کرے گا جو شریعت نے وضع کی ہیں کیونکہ یہی شریعت اس اللہ نے وضع کی ہے جس سے تعلق کو مضبوط کرنے کےلیے روحانیت یا صوفیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

انسان کا اللہ سے جتنا تعلق مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی ہو اس تعلق کی تشتہر سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ تشتہر بھی کیوں ہو جبکہ یہ مقصد ہی نہیں اور اس کی وجہ سے مقصد اولیٰ و اعلی فوت ہوجاتا ہے۔
پس جو انسان اس روحانیت اور صوفیت کی مشھوری میں مشغول نظر اوے وہیں یہ معاملہ پڑجاتا ہے کہ یہ شخص کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟

میری نظر میں کوئی بھی ہستی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں جو خود شریعت پر عمل کرتے اور اس پر عمل کی تلقین کرتے رہے۔

میں کوئی اس معاملہ کا عالم نہیں ہے۔ میری رائے ایک ناقص رائے ہے۔ اگر اپ اس سے بہتر رائے رکھتے ہوں تو مجھے بھی ضرور مطلع رکھیں

تری آواز مکے اور مدینے :)
 
Top