قیصرانی
لائبریرین
اور لینے والا بھی اسی کی ہمسائیگی میں ہوگا شایدرشوت دینے والا جہنمی ہے
اور لینے والا بھی اسی کی ہمسائیگی میں ہوگا شایدرشوت دینے والا جہنمی ہے
اس کی کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہےاور لینے والا بھی اسی کی ہمسائیگی میں ہوگا شاید
تو رشوت دینے والا کیوں رشوت دینے پر تلا ہوگااس کی کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہےاوہ !!! ذبردست ٹوٹکا بتاہا آپ نے - مجھے یاد آیا ایک بار واپڈا کے آفس جانا ہوا مجھے خراب مین سپلائی لائن تبدیل کروانا تھی مجھے نہیں معلوم تھا کے یہ واپڈا کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ کام بغیر کسی معاوضے کے کرنے کی پابند ہے- تو میں سیدھا ڈیوٹی آفیسر کے پاس پہنچا (کچھ اور لوگ بھی وہاں بیٹھے تھے) اور پوچھا سر کتنا خرچہ آیے گا اس پر اس نے مجھ سے 1200 روپے سب کے سامنے مانگے اور اگلی ہی دن لائن چینج کر دی یہ کوئی 8 سال پہلے کا واقعہ ہے-
وافر مال ۔تو رشوت دینے والا کیوں رشوت دینے پر تلا ہوگا
بھائی صاحب! یہ جہنمی کیا ہوتا ہے، جہنم کسے کہتے ہیں؟رشوت دینے والا جہنمی ہے
جہنمی نہیں پتہ؟بھائی صاحب! یہ جہنمی کیا ہوتا ہے، جہنم کسے کہتے ہیں؟
ویسے تو اخلاقی طور پر کرپٹ اور گھر سے بھاگ کر ایک فلمی پروڈیوسر کے ساتھ مبینہ طور پر بلا نکاح رہنے والی ”عظیم فحش نگار ادیبہ“ عصمت چغتائی نے بھی اپنے انتہائی شریف، باکردار اور مزاح نگار ادیب بھائی عظیم بیگ چغتائی کے انتقال پر اُنہیں ”جہنمی“ کے خطاب سے نوازتے ہوئے اُن کا خاکہ لکھا تھا۔لیکن میں یہاں ”اوروں“ کی نہیں، ”جناب والا“ کی بات کر رہاتھا کہ آپ جہنم اور جہنمی کسے کہتے ہیں۔
زبردست شئیرنگ ہے یارا
بھائی صاحب! یہ جہنمی کیا ہوتا ہے، جہنم کسے کہتے ہیں؟
محترم یوسف ۔2 بھائی ۔۔ویسے تو اخلاقی طور پر کرپٹ اور گھر سے بھاگ کر ایک فلمی پروڈیوسر کے ساتھ مبینہ طور پر بلا نکاح رہنے والی ”عظیم فحش نگار ادیبہ“ عصمت چغتائی نے بھی اپنے انتہائی شریف، باکردار اور مزاح نگار ادیب بھائی عظیم بیگ چغتائی کے انتقال پر اُنہیں ”جہنمی“ کے خطاب سے نوازتے ہوئے اُن کا خاکہ لکھا تھا۔لیکن میں یہاں ”اوروں“ کی نہیں، ”جناب والا“ کی بات کر رہاتھا کہ آپ جہنم اور جہنمی کسے کہتے ہیں۔
میں نے بھی سنا پڑھا کچھ ایسا ہی تھا، جو کہ لکھا ہے غالباً آپ نےعصمت چغتائی کا اپنے بھائی کی وفات پر لکھا افسانہ ”دوزخی“ نہیں پڑھا، لیکن مجھے پڑھنے کا اتفاق ہواہے۔ اسی طرح شاید آپ کو نہیں معلوم کہ محترمہ کو ان کی وصیت کے مطابق شمشان گھاٹ میں جلا دیا گیا تھا۔ یقیناً انہیں اپنے لائف اسٹائل کی طرح (محترمہ کو ان کے بڑے بھائی نے اسی ”لائف اسٹائل“ کی وجہ سے گھر سے باہر نکال دیا تھا، ایک مسلمان مشرقی بھائی اپنی سگی بہن کو گھر سے کب نکالنے پر مجبور ہوتا ہے، اس کا اندازہ پتہ نہیں آپ کو ہے یا نہیں ) اپنا دنیوی انجام (دفن ہونا) بھی ”مسلمانوں جیسا“ پسند نہ تھا، اور نعش کو جلایا کس مذہب میں جاتا ہے، شاید آپ کو یہ تو پتہ ہی ہوگا۔ محترمہ کی پوری زندگی اور موت ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ،جس سے یا تو آپ ناواقف ہیں یا ”بوجوہ“ آنکھیں چرانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے ؟محترم یوسف ۔2 بھائی ۔۔
سنا پڑھا کچھ ایسا ہے کہ جہنمی " جہنم " کے ان باشندوں کا بھی لقب ہے ۔ جو انسانوں پر " جھوٹی تہمتیں اور بہتان " لگاتے ہیں ۔
کیا واقعی یہ بات درست ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
میں عصمت چغتائی کے حوالے سے بات نہیں کروں گا ، لیکن آپکی یہ بات پڑھ کر بخاری و مسلم میں درج یہ واقعہ ذہن میں آگیا جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو سنایا۔۔۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جلانے کے بعد جو راکھ بچے، اسے چار مختلف پہاڑوں کے اوپر جاکر چار مختلف سمتوں میں اڑا دینا۔۔۔اسکے بیٹوں نے اسکی وصیت پر پورا پورا عمل کیا۔۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا اور اسکی راکھ کو مجتمع کرکے پوچھا گیا کہ بتا تُونے ایسا کیوں کیا۔۔۔تو اس کا موقف یہ تھا کہ اس نے ایسا محض اپنے گناہوں اور اللہ کی پکڑ سے خوفزدہ ہوکر ایسا کیا تھا تاکہ اس سے کوئی پوچھ کچھ نہ کی جاسکے۔۔۔حدیث شریف میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور مغفرت فرمائی۔۔۔۔اب ملّا اور ظاہر بین حضرات کیلئے اس میں ایک سبق ہے۔۔۔اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہر چیز کو محیط ہے اور مولوی حضرات عقیدوں کی جن باریکیوں میں جاکر موشگافیاں کرتے ہیں اورعام لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں بلکہ ڈراتے ہی نہیں مسلط ہوکر انکو اپنے ذہن کے مطابق سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے۔۔کیونکہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہورہا ہے کہ اس بندے میں خدا کا خوف تو تھا ہی لیکن خدا کی قدرت اور اسکی عظمتِ شان کے بارے میں اسے کچھ اندازہ نہیں تھا اور اس نے یہ سمجھا کہ میرے یوں یوں کرنے سے میں اللہ کے قابو سے باہر نکل جاوں گا۔۔تو ملا حضرات تو شائد اس بد عقیدگی کو کبھی بھی معادف کرنے پر تیار نہ ہوں لیکن اللہ نے تو اس بدعقیدگی کو بالکل اہمیت نہیں دی، بلکہ اس شخص کی ذات میں جو جوہر تھا یعنی اللہ سے ڈرنا، اسی کے مطابق معاملہ کیا۔۔۔فااعتبروا یا اولی الابصارمیں نے بھی سنا پڑھا کچھ ایسا ہی تھا، جو کہ لکھا ہے غالباً آپ نےعصمت چغتائی کا اپنے بھائی کی وفات پر لکھا افسانہ ”دوزخی“ نہیں پڑھا، لیکن مجھے پڑھنے کا اتفاق ہواہے۔ اسی طرح شاید آپ کو نہیں معلوم کہ محترمہ کو ان کی وصیت کے مطابق شمشان گھاٹ میں جلا دیا گیا تھا۔ یقیناً انہیں اپنے لائف اسٹائل کی طرح (محترمہ کو ان کے بڑے بھائی نے اسی ”لائف اسٹائل“ کی وجہ سے گھر سے باہر نکال دیا تھا، ایک مسلمان مشرقی بھائی اپنی سگی بہن کو گھر سے کب نکالنے پر مجبور ہوتا ہے، اس کا اندازہ پتہ نہیں آپ کو ہے یا نہیں ) اپنا دنیوی انجام (دفن ہونا) بھی ”مسلمانوں جیسا“ پسند نہ تھا، اور نعش کو جلایا کس مذہب میں جاتا ہے، شاید آپ کو یہ تو پتہ ہی ہوگا۔ محترمہ کی پوری زندگی اور موت ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ،جس سے یا تو آپ ناواقف ہیں یا ”بوجوہ“ آنکھیں چرانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے ؟
میں عصمت چغتائی کے حوالے سے بات نہیں کروں گا ، لیکن آپکی یہ بات پڑھ کر بخاری و مسلم میں درج یہ واقعہ ذہن میں آگیا جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو سنایا۔۔۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جلانے کے بعد جو راکھ بچے، اسے چار مختلف پہاڑوں کے اوپر جاکر چار مختلف سمتوں میں اڑا دینا۔۔۔ اسکے بیٹوں نے اسکی وصیت پر پورا پورا عمل کیا۔۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا اور اسکی راکھ کو مجتمع کرکے پوچھا گیا کہ بتا تُونے ایسا کیوں کیا۔۔۔ تو اس کا موقف یہ تھا کہ اس نے ایسا محض اپنے گناہوں اور اللہ کی پکڑ سے خوفزدہ ہوکر ایسا کیا تھا تاکہ اس سے کوئی پوچھ کچھ نہ کی جاسکے۔۔۔ حدیث شریف میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور مغفرت فرمائی۔۔۔ ۔اب ملّا اور ظاہر بین حضرات کیلئے اس میں ایک سبق ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہر چیز کو محیط ہے اور مولوی حضرات عقیدوں کی جن باریکیوں میں جاکر موشگافیاں کرتے ہیں اورعام لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں بلکہ ڈراتے ہی نہیں مسلط ہوکر انکو اپنے ذہن کے مطابق سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے۔۔کیونکہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہورہا ہے کہ اس بندے میں خدا کا خوف تو تھا ہی لیکن خدا کی قدرت اور اسکی عظمتِ شان کے بارے میں اسے کچھ اندازہ نہیں تھا اور اس نے یہ سمجھا کہ میرے یوں یوں کرنے سے میں اللہ کے قابو سے باہر نکل جاوں گا۔۔تو ملا حضرات تو شائد اس بد عقیدگی کو کبھی بھی معادف کرنے پر تیار نہ ہوں لیکن اللہ نے تو اس بدعقیدگی کو بالکل اہمیت نہیں دی، بلکہ اس شخص کی ذات میں جو جوہر تھا یعنی اللہ سے ڈرنا، اسی کے مطابق معاملہ کیا۔۔۔ فااعتبروا یا اولی الابصار
لیکن آپ کی مبینہ ممدوحہ نے تو اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کو بلا کسی ”ظاہری سبب“ کے ہی ”جہنمی“ ڈیکلیئر کردیا ہے۔ اور یہ اُن پر کوئی ”الزام“ نہیں ہے۔ آپ عظیم بیگ چغتائی کی وفات پر ان کا لکھا گیا مضمون ”جہنمی“ ضرور پڑھئے، اگر پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے تو۔میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ کسی کے جہنمی یا جنتی ہونے کا فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ ۔۔
میری ممدوحہ؟۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔میں نے عصمت چغتائی کا صرف نام سنا ہے انکی کوئی کتاب نہیں پرھی۔۔۔اور نہ ہی اس دھاگے میں کہیں کوئی ایسی بات کی ہے جن سے یہ تاثر ملے کہ میں نے انکی تعریف کی ہے۔۔۔کسی کی مذمت اگر نہ کی جائے تو کیا یہ تعریف ہوتی ہے؟لیکن آپ کی مبینہ ممدوحہ نے تو اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کو بلا کسی ”ظاہری سبب“ کے ہی ”جہنمی“ ڈیکلیئر کردیا ہے۔ اور یہ اُن پر کوئی ”الزام“ نہیں ہے۔ آپ عظیم بیگ چغتائی کی وفات پر ان کا لکھا گیا مضمون ”جہنمی“ ضرور پڑھئے، اگر پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے تو۔
وضاحت کا شکریہمیری ممدوحہ؟۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ میں نے عصمت چغتائی کا صرف نام سنا ہے انکی کوئی کتاب نہیں پرھی۔۔۔ اور نہ ہی اس دھاگے میں کہیں کوئی ایسی بات کی ہے جن سے یہ تاثر ملے کہ میں نے انکی تعریف کی ہے۔۔۔ کسی کی مذمت اگر نہ کی جائے تو کیا یہ تعریف ہوتی ہے؟
سبحان اللہ ۔ کیا استدلال ہے میرے محترم بھائی کا ؟میں نے بھی سنا پڑھا کچھ ایسا ہی تھا، جو کہ لکھا ہے غالباً آپ نےعصمت چغتائی کا اپنے بھائی کی وفات پر لکھا افسانہ ”دوزخی“ نہیں پڑھا، لیکن مجھے پڑھنے کا اتفاق ہواہے۔ اسی طرح شاید آپ کو نہیں معلوم کہ محترمہ کو ان کی وصیت کے مطابق شمشان گھاٹ میں جلا دیا گیا تھا۔ یقیناً انہیں اپنے لائف اسٹائل کی طرح (محترمہ کو ان کے بڑے بھائی نے اسی ”لائف اسٹائل“ کی وجہ سے گھر سے باہر نکال دیا تھا، ایک مسلمان مشرقی بھائی اپنی سگی بہن کو گھر سے کب نکالنے پر مجبور ہوتا ہے، اس کا اندازہ پتہ نہیں آپ کو ہے یا نہیں ) اپنا دنیوی انجام (دفن ہونا) بھی ”مسلمانوں جیسا“ پسند نہ تھا، اور نعش کو جلایا کس مذہب میں جاتا ہے، شاید آپ کو یہ تو پتہ ہی ہوگا۔ محترمہ کی پوری زندگی اور موت ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ،جس سے یا تو آپ ناواقف ہیں یا ”بوجوہ“ آنکھیں چرانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے ؟