باجوہ فیملی کی بزنس ایمپائر عاصم باجوہ کی فوجی عہدوں پر ترقی کے ساتھ پھیلی

بابا-جی

محفلین
خوشی ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سمجھ رہی ہے اب اس کے چور ٹبر کو بھی این آر او مل جائے گا
کپتان نے این آر او کے لیے معیار طے کر دِیا ہے۔ مزید تفصیلات باجوہ سے بنفسِ نفیس مل کے طے کی جا سکتی ہیں۔ ہینڈسم کے پاس فالتو کا ٹائم نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کپتان نے این آر او کے لیے معیار طے کر دِیا ہے۔ مزید تفصیلات باجوہ سے بنفسِ نفیس مل کے طے کی جا سکتی ہیں۔ ہینڈسم کے پاس فالتو کا ٹائم نہیں۔
عاصم باجوہ کے معاملے میں ایک خیر کا پہلو یہ نکلا کہ اب وہ بھی سوال پوچھنا شروع ہوگئے ہیں جو ان کے لیڈر سے ساری دنیا پوچھتی آئی۔
مثال کے طور عاصم باجوہ سے کل شاہزیب خانزادہ نے سوال پوچھا کہ آپ کی بیگم نے جب باجکو گروپ سے اپنے پیسے واپس نکالے تو ان کا کیا مصرف کیا؟ کیا انہیں اپنے اثاثہ جات میں شو کیا؟
اب پٹواری اندازے لگا رہے ہیں کہ 19 ہزار ڈالرز سے یقینناً دس، بیس ملین ڈالرز بنائے ہوں گے، تو پھر یہ رقم اثاثوں میں کیوں شو نہیں کی؟
عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ کاروبار سے اپنا حصہ ڈِس انویسٹ کرکے بیٹوں کو دے دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ باجکو گروپ سے انیس ہزار ڈالرز یا اپنے حصے کی رقم واپس لے لی، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس بزنس میں جتنے شئیرز عاصم باجوہ کی بیگم کے تھے، وہ سب اپنے بیٹوں کے نام ٹرانسفر کردیئے۔
یہ بیٹے بالغ اور خودمختار ہیں، اور وہ زیرکفالت کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اسی لئے ان کا نام اثاثہ جات میں بھی شامل نہیں۔
اس سارے معاملے میں خیر کا پہلو یہی ہے کہ پٹواری بھی اب اثاثہ جات پر سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ چند ہزار سال بعد یقینناً یہ پٹواری کبھی نہ کبھی شریف خاندان سے یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ آپ کے ڈرائیور، خانساماں اور مالی آپ کی بیگمات کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کیسے ٹرانسفر کرلیا کرتے تھے۔
امید پر دنیا قائم ہے، ایک نہ ایک دن پٹواری اپنی لیڈرشپ سے یہ سوال ضرور کریں گے!!! بقلم خود باباکوڈا
 

بابا-جی

محفلین
عاصم باجوہ کے معاملے میں ایک خیر کا پہلو یہ نکلا کہ اب وہ بھی سوال پوچھنا شروع ہوگئے ہیں جو ان کے لیڈر سے ساری دنیا پوچھتی آئی۔
مثال کے طور عاصم باجوہ سے کل شاہزیب خانزادہ نے سوال پوچھا کہ آپ کی بیگم نے جب باجکو گروپ سے اپنے پیسے واپس نکالے تو ان کا کیا مصرف کیا؟ کیا انہیں اپنے اثاثہ جات میں شو کیا؟
اب پٹواری اندازے لگا رہے ہیں کہ 19 ہزار ڈالرز سے یقینناً دس، بیس ملین ڈالرز بنائے ہوں گے، تو پھر یہ رقم اثاثوں میں کیوں شو نہیں کی؟
عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ کاروبار سے اپنا حصہ ڈِس انویسٹ کرکے بیٹوں کو دے دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ باجکو گروپ سے انیس ہزار ڈالرز یا اپنے حصے کی رقم واپس لے لی، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس بزنس میں جتنے شئیرز عاصم باجوہ کی بیگم کے تھے، وہ سب اپنے بیٹوں کے نام ٹرانسفر کردیئے۔
یہ بیٹے بالغ اور خودمختار ہیں، اور وہ زیرکفالت کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اسی لئے ان کا نام اثاثہ جات میں بھی شامل نہیں۔
اس سارے معاملے میں خیر کا پہلو یہی ہے کہ پٹواری بھی اب اثاثہ جات پر سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ چند ہزار سال بعد یقینناً یہ پٹواری کبھی نہ کبھی شریف خاندان سے یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ آپ کے ڈرائیور، خانساماں اور مالی آپ کی بیگمات کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کیسے ٹرانسفر کرلیا کرتے تھے۔
امید پر دنیا قائم ہے، ایک نہ ایک دن پٹواری اپنی لیڈرشپ سے یہ سوال ضرور کریں گے!!! بقلم خود باباکوڈا
چلو کوڈا بھی باجوہ کی طرح مطمئن ہے۔ اور اب، پٹواریوں کو اسی چکر میں الجھائے رکھو۔ ٹھیک جا رہے ہو۔ کپتان یوں ہی نئیا پار لگائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلو کوڈا بھی باجوہ کی طرح مطمئن ہے۔ اور اب، پٹواریوں کو اسی چکر میں الجھائے رکھو۔ ٹھیک جا رہے ہو۔ کپتان یوں ہی نئیا پار لگائے گا۔
احمد نورانی کی خبر اور دو نمبر جمہوریت‎
03/09/2020 انیق ناجی

کئی دنوں سے خیال تھا کہ دو نمبر جمہوریت کے نعرے یا دلیل کی حقیقت واضح کروں اور عرض کروں کہ جس چیز کو تحریک انصاف دو نمبر جمہوریت کہتے نہیں تھکتی تھی اس کا مطلب در اصل کیا ہے۔ شکر گزار ہونا چائیے احمد نورانی کا جنہوں نے اس مطلب کو ثبوت کے ساتھ سب کے سامنے رکھ دیا اور دو نمبر جمہوریت کی وضاحت کر دی۔

جن دوستوں کے لئے یہ تصویر ابھی تک ادھوری ہے اسے میں یوں مکمل کرنے کی کاوش کروں گا کہ دو نمبر جمہوریت کا دوسرا مطلب دو نمبر آمریت ہوتا ہے، یعنی اصلی جمہوریت میں آمریت کی گنجائش نہیں اور اصلی آمریت میں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور انہیں اکٹھا کرنے یا جوڑنے کی ناکام مسلح کوشش کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم حاصل کر چکے ہیں۔

اس سعی لاحاصل کی مثال یوں ہے کہ آپ روزہ رکھ کے دوپہر کا کھانا کھا لیں اور افطاری بھی کر لیں یا کوئی پودہ جو صرف سرد موسم میں ہی پھل پھول سکتا ہو شدید گرمی والے صحرا میں لگا دیں اور معجزے کا انتظار کریں۔ سمارٹ ہونے کے لئے خوب ورزش کریں اور پانی کی جگہ کولا کا استعمال کریں۔ یا ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سفر کا آغاز کریں اور سیدھے راستے پر چلتی ٹریفک کا مقابلہ کریں۔ دو مردوں یا دو عورتوں کی مہنگی ترین شادی کروا کر نیک اولاد کی پیدائش کی تمنا پالیں۔

کئی دوست جو پولیس میں سینئر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں، سے پوچھا کہ اگر آپ کسی تھانے میں ایک کی جگہ دو ایس ایچ اوز کو برابر کا اختیار دے ڈالیں تو کیا ہوگا، جواب ایک ہی تھا کہ ہر کام بگڑے گا اور جواب دہی بھی نہ ہو پائے گی۔ سینئر سول افسروں سے پوچھا کہ ایک ڈیپارٹمنٹ کے دو سیکریٹری لگا کر ایک جیسا اختیار دے دیا جائے تو حالات میں کیا بہتری آئے گی، جواب وہی ملا کہ سب کچھ ٹھپ ہو رہے گا۔ اس سے آگے بڑھ کے میں خالق کائنات کی آخری کتاب کا حوالہ دوں گا کہ جس میں اس نے اپنی عظمت کا بیان کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو لڑائی میں سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ۔ سورہ اخلاص اس کی بہترین مثال ہے۔

دو نمبر آمریت ہی ہے جس کے بطن سے دو نمبر جمہوریت نامی چیز برآمد ہوتی ہے۔ اس سے بہتر نتائج اصلی آمریت دے سکتی ہے، پھر لکھتا ہوں کہ مثبت نتائج دے سکتی ہے، لازمی نہیں کہ ایسا ہو مگر ممکن ہے۔ دوسری جانب جمہوریت کو اپنانے والے ممالک حیرت انگیز طور پر ترقی کی مثالیں بن کر سامنے کھڑے ہمیں حکم دیتے ہیں۔

سیاست اور حکومت کے اس دہرے منافق اور ناکارہ نظام کی دو رخی نے سارے معاشرے کو منافقت میں ڈھال دیا ہے۔

مثلاً، رشوت یا حرام کی دولت سے عمرہ کی ادائیگی، قبضے کی زمین پر مذہبی درسگاہیں، رمضان میں روزے رکھ کے چور بازاری اور ملاوٹ کی انتہا، منشیات کے پیسوں کا بنگلہ اور اس پر لکھی عبارت کہ یہ سب تو خدا کا کرم ہے، نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے طالبات سے اچھے نمبروں کے لئے جنسی مطالبات، دوسروں کے اخلاق و کردار پر فتویٰ جاری کرنے والے مذہبی مدارس میں بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، سڑکوں پر مذہبی نعرے لکھ کر ٹریفک قوانین کو مسلسل توڑنا، مطلب و معنیٰ سے خالی اخلاقیات بھری تقریروں والے امیر و کبیر عالم جن کی آنکھیں صرف طاقتوروں کی ابتلا پر بھیگا کرتی ہیں۔

چھوٹی بڑی عدالتوں میں پائے جانے والے ان گنت پانچ وقت کے نمازی کرائے کے جھوٹے گواہ۔ منہ بولی بہن یا بھائی کا عجیب و غریب تعلق، ایک ہی سانس میں مغرب کی بے حیائی، فحاشی کا درد اور اسی مغرب کے کسی ملک کی شہریت لینے کے لئے بہن کو بیوی اور دوسری بیوی کو بہن بنانے کے لئے قانونی کارروائی۔

ووڈکا روس کی ایک شراب ہوتی ہے جس کا رنگ نہیں ہوتا اور دیکھنے میں پانی جیسی لگتی ہے، کسٹم کے افسر اور اہلکار آپ کو بتا دیں گے کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والی آنے والی فلائٹس کے مسافر، ووڈکا کو سفید پلاسٹک کی بوتلوں کے اوپر آب زم زم لکھ کر نکالنے کی کوشش میں کتنی بار پکڑے جا چکے ہیں۔ اب تو خیر سعودی حکومت نے پابندی لگا دی ہے کہ آب زم زم صرف ان کی پیکنگ والی سیل بند بوتل میں ہی لایا جا سکتا ہے مگر پھرتی دکھانے والے اب بھی چانس لیتے ہیں۔

یہاں ٹیکس نہ دینے والے، قبضہ گروپوں کے سرغنہ مجرم میڈیا چلاتے ہیں اور سر عام اپنی خواتین ورکروں سے ان کے حسن اور مجبوری کا خراج وصول کرتے ہیں دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو کسی جھجھک کے بغیر طاقتوروں کے ساتھ جنسی تعلق کے زور پر شو کی میزبانی حاصل کرتی ہیں پھر معاشرے کی سیاسی اخلاقیات کا رونا روتی ہیں اور زبردستی کی صحافی بن جاتی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ رپورٹنگ کرنے والا عام صحافی بھی نہیں بلکہ انویسٹیگیشن یا تحقیقاتی صحافی کا دعویٰ رکھتی ہیں۔

ان سے کہیں آگے وہ اینکر مرد حضرات کھڑے ہیں جو حسب ضرورت، فیشن ڈیزائنر، جوکر، سنجیدہ مفکر، سائنس دان، صحافی، گلوکار، اداکار، مذہبی عالم، سیاسی ماہر، بیک وقت سمندری، زمینی اور فضائی جنگوں کے ماہر، تجزیہ کار، تاریخ دان اور ماہرین فلکیات سے لے کر خارجہ امور کی پیچیدگیوں تک کی مہارت کا دعویٰ بغیر کسی جھجھک اور شرم کے کرتے ہیں اور اپنے شوز میں نہ ختم ہونے والی بے مغز تقاریر کرتے ہیں۔

آمر ضیا الحق نے اس منافقت کو شروع نہیں کیا تھا مگر اس کو نکتہ عروج پر پہنچانے کا انتظام ضرور کر دیا تھا۔ اب کروڑوں کی تعداد میں ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے جو اسی منافقت کو جینے کا نارمل یا جائز طریقہ مانتی ہے۔ جس کے نزدیک ہیرو وہ ہے جو کہے کہ “چوری میرا پیشہ اور نماز میرا فرض ہے”۔

اپنی اقلیت کو بے رحمی سے کچلنا اور دوسرے ممالک کی مسلمان اقلیتوں کے لئے تڑپنا۔ خود کے لئے اسلامی تبلیغ کا حق مانگنا اور دوسرے کو تبلیغ کرنے پر قتل کرنا بھی جائز سمجھنا اس نسل کی نظر میں روا ہے۔

دو نمبر آمریت یا دو نمبر جمہوریت ہمارے آج کے عمومی مزاج کے مطابق ہے اور نظام بھی اس نسل کے لئے ایک طرح سے درست ہے مگر کیا کریں کہ دنیا ہمارے اجتماعی جھوٹ کو ماننے سے انکار کرتی ہے، وہ ہمارے پاسپورٹ پر ویزا لگانے کو تیار نہیں کہ ان کے نزدیک ہم جھوٹ کو برائی ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں۔

احمد نورانی کی خبر کو دبانے کے لئے اس نظام نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ناکام رہا، عین ویسے ہی جیسے یہ دہرا، منافقت کا نظام کبھی ہمیں ترقی نہیں دے گا، کبھی دنیا میں عزت نہیں دے گا۔ اس نظام کا پہلا قتل میرٹ یا عدل ہوتا ہے۔ آپ ہی بتا دیں کہ عدل کا قتل اور اسلام کا نعرہ ایک ساتھ لگا کر ہم کس کو بے وقوف بناتے ہیں، خود یا تاریخ کو۔

آخری بات یہ کہ احمد نورانی کی خبر سانپ بن کر تحریک انصاف کے گلے میں لپٹ چکی ہے،خان صاحب لاکھ تسبیح گھما لیں، وضو فرما کر انٹرویو دیتے رہیں، یہ سانپ پھنکارتا رہے گا۔ سابق جنرل صاحب کو نہیں بلکہ یہ تحریک انصاف کے لیڈر اور ارکان اسمبلی ہوں گے جن کو اپنے حلقوں میں لوگوں کا سامنا ہو گا۔ اس خبر کو دبانے کی کوشش صرف اسے ابھارے گی۔ ہزاروں سیکنڈل آئے چلے گئے، مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جیسے ایوب خان کے زمانے میں چینی، بے نظیر بھٹو کے زمانے میں غلام حسین انڑ تاوان اور حال ہی میں پانامہ۔

آپ جواب میں ترقی کی ہزار مثالیں دے ڈالیں، خارجہ امور کی کامیابیاں گنوا ڈالیں، ایسا سکینڈل سب کچھ بے معنی کر ڈالتا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل صاحب کو کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں، وہ جانیں، اس کا سیاسی نقصان بہرحال عمران خان کو اٹھانا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
احمد نورانی کی خبر اور دو نمبر جمہوریت‎
03/09/2020 انیق ناجی

کئی دنوں سے خیال تھا کہ دو نمبر جمہوریت کے نعرے یا دلیل کی حقیقت واضح کروں اور عرض کروں کہ جس چیز کو تحریک انصاف دو نمبر جمہوریت کہتے نہیں تھکتی تھی اس کا مطلب در اصل کیا ہے۔ شکر گزار ہونا چائیے احمد نورانی کا جنہوں نے اس مطلب کو ثبوت کے ساتھ سب کے سامنے رکھ دیا اور دو نمبر جمہوریت کی وضاحت کر دی۔

جن دوستوں کے لئے یہ تصویر ابھی تک ادھوری ہے اسے میں یوں مکمل کرنے کی کاوش کروں گا کہ دو نمبر جمہوریت کا دوسرا مطلب دو نمبر آمریت ہوتا ہے، یعنی اصلی جمہوریت میں آمریت کی گنجائش نہیں اور اصلی آمریت میں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور انہیں اکٹھا کرنے یا جوڑنے کی ناکام مسلح کوشش کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم حاصل کر چکے ہیں۔

اس سعی لاحاصل کی مثال یوں ہے کہ آپ روزہ رکھ کے دوپہر کا کھانا کھا لیں اور افطاری بھی کر لیں یا کوئی پودہ جو صرف سرد موسم میں ہی پھل پھول سکتا ہو شدید گرمی والے صحرا میں لگا دیں اور معجزے کا انتظار کریں۔ سمارٹ ہونے کے لئے خوب ورزش کریں اور پانی کی جگہ کولا کا استعمال کریں۔ یا ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سفر کا آغاز کریں اور سیدھے راستے پر چلتی ٹریفک کا مقابلہ کریں۔ دو مردوں یا دو عورتوں کی مہنگی ترین شادی کروا کر نیک اولاد کی پیدائش کی تمنا پالیں۔

کئی دوست جو پولیس میں سینئر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں، سے پوچھا کہ اگر آپ کسی تھانے میں ایک کی جگہ دو ایس ایچ اوز کو برابر کا اختیار دے ڈالیں تو کیا ہوگا، جواب ایک ہی تھا کہ ہر کام بگڑے گا اور جواب دہی بھی نہ ہو پائے گی۔ سینئر سول افسروں سے پوچھا کہ ایک ڈیپارٹمنٹ کے دو سیکریٹری لگا کر ایک جیسا اختیار دے دیا جائے تو حالات میں کیا بہتری آئے گی، جواب وہی ملا کہ سب کچھ ٹھپ ہو رہے گا۔ اس سے آگے بڑھ کے میں خالق کائنات کی آخری کتاب کا حوالہ دوں گا کہ جس میں اس نے اپنی عظمت کا بیان کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو لڑائی میں سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ۔ سورہ اخلاص اس کی بہترین مثال ہے۔

دو نمبر آمریت ہی ہے جس کے بطن سے دو نمبر جمہوریت نامی چیز برآمد ہوتی ہے۔ اس سے بہتر نتائج اصلی آمریت دے سکتی ہے، پھر لکھتا ہوں کہ مثبت نتائج دے سکتی ہے، لازمی نہیں کہ ایسا ہو مگر ممکن ہے۔ دوسری جانب جمہوریت کو اپنانے والے ممالک حیرت انگیز طور پر ترقی کی مثالیں بن کر سامنے کھڑے ہمیں حکم دیتے ہیں۔

سیاست اور حکومت کے اس دہرے منافق اور ناکارہ نظام کی دو رخی نے سارے معاشرے کو منافقت میں ڈھال دیا ہے۔

مثلاً، رشوت یا حرام کی دولت سے عمرہ کی ادائیگی، قبضے کی زمین پر مذہبی درسگاہیں، رمضان میں روزے رکھ کے چور بازاری اور ملاوٹ کی انتہا، منشیات کے پیسوں کا بنگلہ اور اس پر لکھی عبارت کہ یہ سب تو خدا کا کرم ہے، نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے طالبات سے اچھے نمبروں کے لئے جنسی مطالبات، دوسروں کے اخلاق و کردار پر فتویٰ جاری کرنے والے مذہبی مدارس میں بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، سڑکوں پر مذہبی نعرے لکھ کر ٹریفک قوانین کو مسلسل توڑنا، مطلب و معنیٰ سے خالی اخلاقیات بھری تقریروں والے امیر و کبیر عالم جن کی آنکھیں صرف طاقتوروں کی ابتلا پر بھیگا کرتی ہیں۔

چھوٹی بڑی عدالتوں میں پائے جانے والے ان گنت پانچ وقت کے نمازی کرائے کے جھوٹے گواہ۔ منہ بولی بہن یا بھائی کا عجیب و غریب تعلق، ایک ہی سانس میں مغرب کی بے حیائی، فحاشی کا درد اور اسی مغرب کے کسی ملک کی شہریت لینے کے لئے بہن کو بیوی اور دوسری بیوی کو بہن بنانے کے لئے قانونی کارروائی۔

ووڈکا روس کی ایک شراب ہوتی ہے جس کا رنگ نہیں ہوتا اور دیکھنے میں پانی جیسی لگتی ہے، کسٹم کے افسر اور اہلکار آپ کو بتا دیں گے کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والی آنے والی فلائٹس کے مسافر، ووڈکا کو سفید پلاسٹک کی بوتلوں کے اوپر آب زم زم لکھ کر نکالنے کی کوشش میں کتنی بار پکڑے جا چکے ہیں۔ اب تو خیر سعودی حکومت نے پابندی لگا دی ہے کہ آب زم زم صرف ان کی پیکنگ والی سیل بند بوتل میں ہی لایا جا سکتا ہے مگر پھرتی دکھانے والے اب بھی چانس لیتے ہیں۔

یہاں ٹیکس نہ دینے والے، قبضہ گروپوں کے سرغنہ مجرم میڈیا چلاتے ہیں اور سر عام اپنی خواتین ورکروں سے ان کے حسن اور مجبوری کا خراج وصول کرتے ہیں دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو کسی جھجھک کے بغیر طاقتوروں کے ساتھ جنسی تعلق کے زور پر شو کی میزبانی حاصل کرتی ہیں پھر معاشرے کی سیاسی اخلاقیات کا رونا روتی ہیں اور زبردستی کی صحافی بن جاتی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ رپورٹنگ کرنے والا عام صحافی بھی نہیں بلکہ انویسٹیگیشن یا تحقیقاتی صحافی کا دعویٰ رکھتی ہیں۔

ان سے کہیں آگے وہ اینکر مرد حضرات کھڑے ہیں جو حسب ضرورت، فیشن ڈیزائنر، جوکر، سنجیدہ مفکر، سائنس دان، صحافی، گلوکار، اداکار، مذہبی عالم، سیاسی ماہر، بیک وقت سمندری، زمینی اور فضائی جنگوں کے ماہر، تجزیہ کار، تاریخ دان اور ماہرین فلکیات سے لے کر خارجہ امور کی پیچیدگیوں تک کی مہارت کا دعویٰ بغیر کسی جھجھک اور شرم کے کرتے ہیں اور اپنے شوز میں نہ ختم ہونے والی بے مغز تقاریر کرتے ہیں۔

آمر ضیا الحق نے اس منافقت کو شروع نہیں کیا تھا مگر اس کو نکتہ عروج پر پہنچانے کا انتظام ضرور کر دیا تھا۔ اب کروڑوں کی تعداد میں ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے جو اسی منافقت کو جینے کا نارمل یا جائز طریقہ مانتی ہے۔ جس کے نزدیک ہیرو وہ ہے جو کہے کہ “چوری میرا پیشہ اور نماز میرا فرض ہے”۔

اپنی اقلیت کو بے رحمی سے کچلنا اور دوسرے ممالک کی مسلمان اقلیتوں کے لئے تڑپنا۔ خود کے لئے اسلامی تبلیغ کا حق مانگنا اور دوسرے کو تبلیغ کرنے پر قتل کرنا بھی جائز سمجھنا اس نسل کی نظر میں روا ہے۔

دو نمبر آمریت یا دو نمبر جمہوریت ہمارے آج کے عمومی مزاج کے مطابق ہے اور نظام بھی اس نسل کے لئے ایک طرح سے درست ہے مگر کیا کریں کہ دنیا ہمارے اجتماعی جھوٹ کو ماننے سے انکار کرتی ہے، وہ ہمارے پاسپورٹ پر ویزا لگانے کو تیار نہیں کہ ان کے نزدیک ہم جھوٹ کو برائی ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں۔

احمد نورانی کی خبر کو دبانے کے لئے اس نظام نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ناکام رہا، عین ویسے ہی جیسے یہ دہرا، منافقت کا نظام کبھی ہمیں ترقی نہیں دے گا، کبھی دنیا میں عزت نہیں دے گا۔ اس نظام کا پہلا قتل میرٹ یا عدل ہوتا ہے۔ آپ ہی بتا دیں کہ عدل کا قتل اور اسلام کا نعرہ ایک ساتھ لگا کر ہم کس کو بے وقوف بناتے ہیں، خود یا تاریخ کو۔

آخری بات یہ کہ احمد نورانی کی خبر سانپ بن کر تحریک انصاف کے گلے میں لپٹ چکی ہے،خان صاحب لاکھ تسبیح گھما لیں، وضو فرما کر انٹرویو دیتے رہیں، یہ سانپ پھنکارتا رہے گا۔ سابق جنرل صاحب کو نہیں بلکہ یہ تحریک انصاف کے لیڈر اور ارکان اسمبلی ہوں گے جن کو اپنے حلقوں میں لوگوں کا سامنا ہو گا۔ اس خبر کو دبانے کی کوشش صرف اسے ابھارے گی۔ ہزاروں سیکنڈل آئے چلے گئے، مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جیسے ایوب خان کے زمانے میں چینی، بے نظیر بھٹو کے زمانے میں غلام حسین انڑ تاوان اور حال ہی میں پانامہ۔

آپ جواب میں ترقی کی ہزار مثالیں دے ڈالیں، خارجہ امور کی کامیابیاں گنوا ڈالیں، ایسا سکینڈل سب کچھ بے معنی کر ڈالتا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل صاحب کو کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں، وہ جانیں، اس کا سیاسی نقصان بہرحال عمران خان کو اٹھانا ہے۔
کپتان نے کر دِیا جو کرنا تھا۔ باجوہ کے اثاثے خان نے ڈکلیئر کروائے۔ میڈیا پر جواب دہ بنایا۔ اب صحافی عدالت جانے سے گریزاں ہے تو کیوں ہے؟ باجوہ نے کرپشن کی ہے تو کوئی اسے ثابت کرے۔ کپتان کے پاس ثبوت ہوں گے کرپشن کے، تب ہٹائے گا۔ اور، کیسے نہیں ہٹائے گا، یہ نواز و زرداری نہیں، عمران خان ہے۔ آج باجوہ کرپٹ ثابت عدالت سے ہوا تو آج ہی کے دن فارغ ہو جائے گا۔ خان کی نظر میں نورانی و باجوہ برابر ہیں۔ غلطی باجوہ کی بنتی ہے کہ نورانی کو عدالت لے جائے مگر اس کی سزا کپتان کو کیوں ملے۔ کپتان گھاٹے کا سودا کم ہی کرتا ہے۔ باجوہ ایک تو ارب پتی ہے اور فوجی ایجنٹ بھی ہے تو اس کو عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے کابینہ سے نکالنے سے سیاسی نقصان زیادہ ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
باجوے کو افس میں دیکھ کر نیازی دل میں کہنے لگا یا خدایا اب یہ استعفیٰ دینے ایا ہے یا لینے۔۔۔۔۔۔۔
خانِ اعظم حال ہی میں جہانگیر ترین کا صدمہ اٹھا چکے۔ دوستی کی بھی پروا نہیں کی۔ ایک اور اَرب پتی کا جانا نقصان کا سودا ہے۔ باجوہ برادری سے تعلقات خراب کروانا اپوزیشن کا ایجنڈا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خانِ اعظم حال ہی میں جہانگیر ترین کا صدمہ اٹھا چکے۔ دوستی کی بھی پروا نہیں کی۔ ایک اور اَرب پتی کا جانا نقصان کا سودا ہے۔ باجوہ برادری سے تعلقات خراب کروانا اپوزیشن کا ایجنڈا ہے۔
باجوں کو این آر او دے کر خان اعظم نے یہ حکومت تو پکی کر لی ہے البتہ اگلے الیکشن میں عوام ان کو این آر او دے گی یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے
 
Top