باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا
عاصمہ شیرازی صحافی
سول اور فوجی قیادت کالعدم تنظیموں سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نظر آرہی ہے
اہم فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔ مجھ جیسے خوش گمانوں نے ایک بار پھر امید باندھ لی ہے۔ ریاست جاگ چکی ہے، اپنا گھر اِن آرڈر کرنا ہے۔ ہم ہر وقت غلط نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر وقت دنیا کی نظروں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہے اور ’نیا پاکستان‘ اسی کا نام ہے۔
یہ وہ جملے ہیں جو پہلی بار ریاست کے تمام اداروں سے سننے کو مل رہے ہیں۔
ہم بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگ کو ہم ایسے ہی لیتے ہیں جیسے پاک بھارت کرکٹ میچ۔ اس کا عملی مظاہرہ جنگی طیاروں کی لڑائی کے دوران دیکھنے کو آیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھسے، ہم نے دن کی روشنی میں مار گرایا۔ فخر اور تحسین کی بازگشت میں قوم سارا دن صرف فضائی میچ کا سکور ہی پوچھتی نظر آئی۔
محض ایک دن قبل بھارت کے بالاکوٹ حملے کے بعد قوم کا دل پی ایس ایل میں بھی نہیں لگا۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ قلندر جیت رہے ہیں یا کوئٹہ کے شیر پچھاڑے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان نے دو طیارے گرا نہیں لیے اور ابھینندن کو پنڈی کی چائے نہیں پلوا لی پاکستانیوں کو بےکلی ہی رہی۔
پھر تو جذبات کا یہ عالم تھا کہ مٹھائیوں کی دکانوں پر رش اور بازاروں میں گہما گہمی، ہر شخص کی باچھیں کچھ زیادہ ہی کھلی ہوئی تھیں۔ سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کرنے والے بھی ’ہماری فوج‘ کہتے نہیں تھک رہے اور کیوں نہ کریں فوج اب وہی کام کر رہی ہے جو اُس کو کرنا چاہیے تھا اور کرنا چاہیے ہے۔
یہ کس قدر اہم ہے کہ نہ تو ہم اقوام متحدہ میں کسی مسعود اظہر کے لیے دوستوں کو آزمائش میں ڈالیں گے اور نہ ہی اب ان کالعدم تنظیموں پر کارروائی سے کوئی روک سکے گا۔ اہم تو یہ بھی ہے کہ اب پہلی بار سول اور فوجی قیادت ان ’کالعدم‘ سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نہ صرف نظر آرہی ہے بلکہ تحریر بھی ایک ہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
یہ بھی اہم ہے کہ اب دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کر رہیں۔۔۔ مگر کیا یہ سب اُس وقت ہو رہا ہے جب عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے اور ہمیں بین الاقوامی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
’ادارے‘ نے سیاسی قیادت کے ساتھ کچھ فیصلے 2014 میں کر لیے تھے۔ اُن میں طیاروں جیسی تیزی بالاکوٹ کے بعد ہی آئی ہے۔
پاکستان کی صحافت میں باجوہ ڈاکٹرائن کا ذکر رہا ہے لیکن ایک بات ضرور ماننا پڑے گی کہ 22 فروری 2017 کو جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے ذریعے آپریشن ردالفساد کا اعلان کیا گیا جس کا اہم مقصد نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل درآمد ٹھہرا۔
اب نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو نہ صرف غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ اگلے مرحلے میں ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں بھی شامل کیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تناظر میں جیشوں، لشکروں اور جماعتوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔۔ دیر آید درست آید۔
تصویر کے کاپی رائٹAFP
پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی تھی
جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہاں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب کوئی ’ملی‘۔۔۔ مسلم لیگ کا نام بدنام نہیں کرے گی اور سیاست میں اداروں کی مداخلت اپنے انجام کو پہنچے گی۔ کوئی ’لبیک‘ کسی سیاسی جماعت کا ووٹ بنک تقسیم کرنے لیے نہیں بنائی جائے گی۔ جیش اور لشکر بھلے کسی بھی ملک کے خلاف اگر بنے ہیں تو ختم ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ بہت جلد کرنا ہے۔ دنیا کے 38 ملک (ایف اے ٹی ایف) ہم پر نظر جما کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ نا جائے ماندن۔۔نا پائے رفتن۔۔8707 مشکوک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال بھی سامنے ہے۔
مسلم ممالک میں سوائے ترکی کے کسی نے حقِ دوستی ادا نہیں کیا۔ چین بھی اب شاید ہمارے لیے کسی ویٹو کا حق استعمال نہ کر سکے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھارت کے لیے بازو وا کیے ہوئے ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کا بوجھ اب مزید دباؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گویا کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
باجوہ ڈاکٹرائن کام کرے یا عمرانی نظریہ اب گھر کو صاف کرنے کا فیصلہ ہو چکا جسے اٹل ہونا چاہیے تاکہ دنیا کو صفائیاں دینے کا سلسلہ بند ہو۔
عبدالقیوم چوہدری