باجوہ ڈکٹرائین

نام نہاد سیاست دانوں کو جس قدر چاہے لتاڑ لیا جائے، عسکریوں کی سیاست میں مداخلت نازیبا ہے۔ان سے بڑی توقعات وابستہ کرنا بے کار ہے۔ ہمارے قومی منظرنامے پر جو سیاست دان چھائے ہوئے ہیں، وہ بھی عسکریوں کی پیداوار ہیں تو پھر ہمیں ان سب سے کیا توقع ہو سکتی ہے؟ بہتر یہی ہے کہ سویلین بالادستی کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اس کے علاوہ جو راستہ اختیار کیا جائے گا، وہ ہمیں بند گلی کی طرف دھکیل دے گا۔
اگر عسکریوں کی پیداوار ، سویلین قیادت کو عوامی حمایت حاصل ہے تو پھر ان کے عوامی جمہوری کہلانے میں کوئی حرج نہیں شرط عوامی حمایت ہے، بلکہ اگر عسکری حکمرانوں کو بھی عوامی حمایت حاصل ہے تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ مقصد تو عوامی کی مرضی کی حکومت ہے۔
ویسے آپ کے خیال میں سویلین بالادستی کا کیا مطلب ہے؟ سول بیوروکریسی کا بالا دستی یا سیاستدانوں کی بالا دستی؟ کیا ایسے سیاستدانوں کو بالا دست ہونے کا حق حاصل ہے عوام کے ووٹ سے حکومت بنانے کے بعد عوامی رائے کو پس پشت ڈال دیں؟
 
بادشاہ ہاتھی دے کر واپس نہیں لیتے

جس طرح آسمان سے پہلے ایک بوند گرتی ہے۔ ذرا دیر بعد دوسری، تیسری، چوتھی اور پھر موسلادھار شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح پہلے آزمائشی غبارہ (شوشہ) چھوڑا جاتا ہے۔ اس کے ردِ عمل کا کیمیاوی تجزیہ کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اصلی پروڈکٹ بھرپور اشتہاری بھونپو مہم کے جلو میں متعارف کروا دی جائے کہ فی الحال رک جایا جائے۔

یہی کچھ پاکستانی سپہ سالار کے باجوہ نظریے (ڈاکٹرائن) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لگ بھگ دو ماہ پہلے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی اصطلاح فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے استعمال کی۔ اس کے بعد ڈاکٹرائن کی وضاحت کے لیے ڈھائی درجن سپن ڈاکٹرز، چیدہ صحافیوں، چیتا اینکروں اور چنندہ تجزیہ کاروں کو صاحبِ نظریہ سے ملوایا گیا اور پھر ہر کوئی جہاں ہے، جیسا ہے کی بنیاد پر جتنا ڈاکٹرائن سمجھا، لے اڑا اور اس کا ردِ عمل بھی اسی لپاڈکیانہ فکری ترتیب کے ساتھ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

صاحبِ نظریہ اور ان کی ٹیسٹنگ ٹیم گیلری میں بیٹھے ہوئے میڈیا کو ڈاکٹرائن کی گیند سے ٹی ٹوئنٹی کھیلتا دیکھ رہے ہیں۔ جب بحث ہانپنے لگے گی تو ممکن ہے کسی تقریر میں ڈاکٹرائن کا باضابطہ اجرا بھی ہو جائے۔

اس بابت اب تک جتنی بھی گفتگو سامنے آئی ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ اعلیٰ عسکری دماغ نیم قبرستانی پارلیمانی چار دیواری کو چھیڑے بغیر بےترتیب قبروں کو 18ویں ترمیم کے مزار اور کتبوں سمیت قطار وار کرنا چاہتے ہیں۔

جیسے اکثریت اور اقلیت کا فرق مٹانے کے لیے ون یونٹ بنایا گیا، جیسے عوام کو جمہوری تربیت دینے کے لیے بنیادی جمہوریت کا سکول کھولا گیا، جیسے جمہوریت سے مثبت نتائج پیدا کرنے کے لے درست سوچ والی قیادت کی پنیری شورائی جمہوریت کے کھیت میں لگائی گئی، جیسے باطل جمہوری قوتوں کو روکنے کے لیے حق و سچ کا پرچم بلند رکھنے والی جماعتوں کو ایک ساتھ باندھنے کا تجربہ کیا گیا۔

اسی جذبے سے اختیاراتی فاقے سے دوچار صوبوں کے آگے 18ویں ترمیم کا مرغِ مسلم رکھنے اور پھر اسے پوری طرح ہضم نہ کرنے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اس کا علاج بقول میڈیا یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ سامنے سے قاب ہی ہٹا دی جائے کیونکہ وفاقی لنگر کی دال روٹی پر پلتے آئے صوبوں کے پیٹ مرغن اختیاراتی غذا کے لیے موزوں نہیں۔ ان صوبوں کو اختیارات استعمال نہیں کرنے آتے مگر جمع کرنے کا ہوکا اس قدر ہے کہ جو گٹھڑی ہاتھ آئی ہے اس میں سے بلدیاتی اداروں کو بھی حصہ دینے کے خیال سے بخار چڑھ جاتا ہے۔

18ویں ترمیم کے سبب وفاق و صوبوں کے درمیان محکموں اور اختیارات کی تقسیم کو مزید شفاف اور عملی بنانا مسئلے کا حل ہے یا 18ویں ترمیم کو یکسر ختم کر کے پہلے کی طرح مرکز کی بالادستی بحال کرنا مسئلے کا حل ہے۔ اس بارے میں دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کا سیاسی وزن کس پلڑے میں جاتا ہے۔

اگر جلد ہی جنرل باجوہ اپنے نظریے کی باضابطہ وضاحت نہیں کرتے، صوبے اپنی اپنی اسمبلیوں کے ذریعے مرکز اور صوبوں کے اختیارات پر چھڑنے والی نئی بحث کی بابت واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے، سرکردہ سیاسی جماعتیں اس بحث کے تناظر میں اپنے اپنے پتے شو نہیں کرتیں، ماہرینِ دستور 18ویں ترمیم میں نفازی خامیوں اور اختیاراتی کنفیوژن اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے قابلِ عمل تجاویز نہیں دیتے تو پھر جو بھی ہوگا وفاق کے لیے برا ہی ہو گا۔

ہاتھی دان کر دینا مگر نئے مہاوت کو اس کی دیکھ بھال نہ سکھانے اور ہاتھی کی خوراک کے لیے وسائل فراہم نہ کرنے سے ہاتھی مر جاتا ہے۔ خاندانی بادشاہ تحفہ دے کر واپس نہیں لیتے بلکہ تحفے کی لاج رکھنے کے شایانِ شان انتظامات بھی خاموشی سے کرتے رہتے ہیں۔

ربط

 

شاہد شاہ

محفلین
'نظریہءِ باجوہ' ایک شخص کی نہیں ادارے کی سوچ ہے
طاقتور شخصیات کے بارے میں اکثر افسانوی باتیں گھڑی جاتی ہیں۔ اب ہم نظریہءِ باجوہ کے بارے میں سن رہے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال کچھ میڈیا حلقے اور خود ایک ٹی وی انٹرویو میں آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی کرچکے ہیں۔

اس نظریے کے مطابق آرمی چیف کے پاس نازک سیاسی مسائل سے لے کر معیشت اور خارجہ پالیسی تک ہر چیز پر ایک عظیم الشان وژن ہے۔ کیا ہمیں حیرت زدہ ہونا چاہیے؟ بالکل نہیں۔ کیا ہم فوج کے گزشتہ سربراہان کو بھی ایسا ہی دانا قرار دیا جانا بھول چکے ہیں؟

مگر جنرل قمر باجوہ کی جو خوبیاں گنوائی جا رہی ہیں، وہ انہیں اپنے پیشروؤں سے بھی بالاتر دکھا رہی ہیں، یعنی ایک ایسا مسیحا جس کی قوم کو ایک عرصے سے ضرورت تھی۔ اگر میڈیا حلقوں پر اعتبار کیا جائے تو یہ 'نظریہ' خارجہ پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کا وعدہ کرتا ہے جو کہ گزشتہ 70 سال کی 'احساسِ برتری' کی پالیسی سے بالکل مختلف ہوگی۔ یہ تو بہت زبردست بات ہے۔

اس 'نظریے' کے مطابق جنرل پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن چاہتے ہیں۔ پُرتشدد انتہاپسندی بالکل بھی قابلِ قبول نہیں مگر سدھر جانے والے جہادیوں کو مرکزی دھارے میں لانا اس 'نظریے' کے تحت اہم ہے۔

'جمہوریت پسند' اور قانون کی بالادستی کے سخت حامی قرار دیے جانے والے جنرل اس 'نظریے' کے مطابق ہمارے سیاسی نظام سے ناخوش ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم نے ملک کو کنفیڈریشن میں بدل دیا ہے۔ بظاہر ان کا سب سے بڑا خدشہ معاشی پالیسی میں بدانتظامی ہے جس نے ان کی نظروں میں پاکستان کو دیوالیہ پن کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے شروع کیے گئے مہنگے انفراسٹرکچر منصوبوں مثلاً موٹروے اور میٹرو بس، اور بینظر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی معیشت پر بوجھ سمجھتے ہیں۔

حقیقتاً صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ حالیہ ملاقات میں آرمی چیف نے ان سب باتوں کا اظہار کیا جنہیں اب تبدیلی کے ایک عظیم 'نظریے' کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل صرف اپنے ادارے کی سوچ کا اظہار کر رہے تھے، جسے ان کے ذاتی وژن کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کوئی شخص ان کی (یا فوج کی) جانب سے مسائل کی تشخیص سے اتفاق کرسکتا ہے مگر نازک سیاسی اور معاشی مسائل کے لیے ان کے حل بے انتہا سادہ ہیں۔

ایک کے بعد ایک فوجی حکمرانوں نے حالات بدلنے کے نام پر تختے الٹے مگر انہوں نے اگر زیادہ نہیں تو اتنے ہی خراب حالات میں ملک کو چھوڑا جن میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی طرح بھلے ہی ان کی اظہار کردہ نیت کے بارے میں شک نہ ہو، مگر سیاسی صورتحال، معیشت اور دیگر مسائل پر ان کی آراء نے منتخب سویلین حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو آشکار کردیا ہے۔

بھلے ہی جنرل اقتدار حاصل کرنا نہیں چاہتے مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بحرانی صورتحال میں سب سے آسان کام ہے۔ وہ منتخب سویلین حکومتوں کو کھلی چھوٹ بھی نہیں دینا چاہتے۔ سیاستدانوں پر عدم اعتماد شدید ہے مگر اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عام انتخابات ہوں گے۔

لیکن اگر سینیٹ چیئرمین شپ کے حالیہ انتخابات کسی چیز کا اشارہ ہیں تو یہ واضح ہے کہ نواز شریف اور ان کے حامیوں کو مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں جگہ نہیں دی جائے گی۔ عدلیہ کے ساتھ مل کر فوج کا سایہ ابھرتے ہوئے سیاسی سیٹ اپ پر قائم رہے گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے زیادہ تر تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ہی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی زیرِ نگرانی کام کر رہے ہیں۔

مگر جو چیز سب سے زیادہ تشویش ناک ہے وہ 18ویں ترمیم کے بارے میں فوج کے نظریات ہیں۔ تاریخی قانون سازی جس نے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی ہے، اسے پارلیمنٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے منظور کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ صوبوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں صلاحیت کے مسائل کا سامنا کیا ہے مگر اسے بھی باقاعدہ مرحلے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ کہ 18ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے اور مرکز اور صوبوں کے درمیان کشمکش کی ایک مستقل وجہ کو ختم کردیا ہے۔ مرکز میں اختیارات کے جمع ہونے سے بالخصوص چھوٹے صوبوں کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ملک کو واقعی یکساں تعلیمی نظام کی ضرورت ہے اور صوبائی قوانین میں بہتری کی بھی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی واحد کوشش اگر ہوسکتی ہے تو غیر آئینی ہی ہوسکتی ہے، اور اگر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ معیشت نہایت خراب حالت میں ہے اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جو اب کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اس مالی بدانتظامی کے لیے ذمہ دار تھے۔ یہ بحران کافی عرصے سے جنم لے رہا تھا اور یہ مسئلہ تیزی سے گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مزید سنگین ہوا۔ مگر پھر بھی صورتحال ناقابلِ درستی نہیں ہے۔

نظریہءِ باجوہ کہلایا جانے والا یہ وژن بحران کا کوئی فوری حل نہیں پیش کرسکتا۔ معیشت قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے، مگر اتنا ہی ضروری جمہوری مرحلے کا جاری رہنا بھی ہے، چاہے اس میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں۔ معاشی ترقی سیاسی استحکام سے بھی منسلک ہے اور فوجی حکومتوں کا بھی کوئی قابلِ فخر معاشی ریکارڈ نہیں رہا ہے۔

یہ نظر آ رہا ہے کہ خارجہ اور قومی سلامتی پالیسیاں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھ میں رہی ہیں۔ جنرل باجوہ کے ان الفاظ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں غیر معمولی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ مگر ہمارے خارجہ پالیسی چیلنجز بہت بڑے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر چیلنجز سیکیورٹی کے گرد گھومتی ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ہیں جس کے لیے عسکری قیادت ذمہ دار ہے۔ یہ معیشتوں کا دور ہے اور ایک جامع خارجہ پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ہم پڑوسی ممالک بشمول ہندوستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات وسیع کریں۔

ہاں ہم نے عسکریت پسندی کو شکست دینے اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے مگر ابھی بھی ہمارے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی پُرتشدد مذہبی انتہاپسندی سے نمٹنے کی کوئی واضح حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔

ملکی اور خارجہ پالیسی مسائل پر ایک متبادل 'نظریہ' پیش کرنے کے بجائے سول ملٹری قیادت کے درمیان خارجہ پالیسی کے اہم امور پر خلیج پُر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

بدقسمتی سے ہمارے پاس کسی بھی چیز پر قومی بیانیہ نہیں ہے۔ نظریہءِ باجوہ کہلانے والا یہ نظریہ ایک شخص کے نظریات سے زیادہ ایک ادارہ جاتی سوچ ہے۔
'نظریہءِ باجوہ' ایک شخص کی نہیں ادارے کی سوچ ہے - Opinions - Dawn News
 

شاہد شاہ

محفلین
اگر عسکریوں کی پیداوار ، سویلین قیادت کو عوامی حمایت حاصل ہے تو پھر ان کے عوامی جمہوری کہلانے میں کوئی حرج نہیں شرط عوامی حمایت ہے، بلکہ اگر عسکری حکمرانوں کو بھی عوامی حمایت حاصل ہے تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ مقصد تو عوامی کی مرضی کی حکومت ہے۔
آپکی بات درست ہے۔ ماضی و حال میں بھی بہت سے حکمران جو دوسری حکومتوں نے کھڑے کئے کو عوام پسند کرتی رہی ہے۔ حقیقی جمہوریت کیلئے عوام کا پڑھی لکھی اور باشعور ہونا بھی ضروری ہے۔ جو کہ بدقسمتی سے پاکستان نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
  • جہادی عناصر کسی صورت قابل قبول نہیں نا اب یہ متعلقہ رہے ہیں۔
  • حکومت مناسب اقدامات کرتی تو ہم گرے لسٹ میں نا آتے۔

باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا
عاصمہ شیرازی صحافی
  • 5 مار چ 2019
_105892586_29fee207-3f84-4c6f-bc4c-38fe21a4e5b1.jpg

سول اور فوجی قیادت کالعدم تنظیموں سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نظر آرہی ہے

اہم فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔ مجھ جیسے خوش گمانوں نے ایک بار پھر امید باندھ لی ہے۔ ریاست جاگ چکی ہے، اپنا گھر اِن آرڈر کرنا ہے۔ ہم ہر وقت غلط نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر وقت دنیا کی نظروں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہے اور ’نیا پاکستان‘ اسی کا نام ہے۔

یہ وہ جملے ہیں جو پہلی بار ریاست کے تمام اداروں سے سننے کو مل رہے ہیں۔

ہم بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگ کو ہم ایسے ہی لیتے ہیں جیسے پاک بھارت کرکٹ میچ۔ اس کا عملی مظاہرہ جنگی طیاروں کی لڑائی کے دوران دیکھنے کو آیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھسے، ہم نے دن کی روشنی میں مار گرایا۔ فخر اور تحسین کی بازگشت میں قوم سارا دن صرف فضائی میچ کا سکور ہی پوچھتی نظر آئی۔

محض ایک دن قبل بھارت کے بالاکوٹ حملے کے بعد قوم کا دل پی ایس ایل میں بھی نہیں لگا۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ قلندر جیت رہے ہیں یا کوئٹہ کے شیر پچھاڑے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان نے دو طیارے گرا نہیں لیے اور ابھینندن کو پنڈی کی چائے نہیں پلوا لی پاکستانیوں کو بےکلی ہی رہی۔

پھر تو جذبات کا یہ عالم تھا کہ مٹھائیوں کی دکانوں پر رش اور بازاروں میں گہما گہمی، ہر شخص کی باچھیں کچھ زیادہ ہی کھلی ہوئی تھیں۔ سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کرنے والے بھی ’ہماری فوج‘ کہتے نہیں تھک رہے اور کیوں نہ کریں فوج اب وہی کام کر رہی ہے جو اُس کو کرنا چاہیے تھا اور کرنا چاہیے ہے۔

یہ کس قدر اہم ہے کہ نہ تو ہم اقوام متحدہ میں کسی مسعود اظہر کے لیے دوستوں کو آزمائش میں ڈالیں گے اور نہ ہی اب ان کالعدم تنظیموں پر کارروائی سے کوئی روک سکے گا۔ اہم تو یہ بھی ہے کہ اب پہلی بار سول اور فوجی قیادت ان ’کالعدم‘ سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نہ صرف نظر آرہی ہے بلکہ تحریر بھی ایک ہی ہے۔
_105880844_mediaitem105880840.jpg

نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
یہ بھی اہم ہے کہ اب دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کر رہیں۔۔۔ مگر کیا یہ سب اُس وقت ہو رہا ہے جب عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے اور ہمیں بین الاقوامی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

’ادارے‘ نے سیاسی قیادت کے ساتھ کچھ فیصلے 2014 میں کر لیے تھے۔ اُن میں طیاروں جیسی تیزی بالاکوٹ کے بعد ہی آئی ہے۔

پاکستان کی صحافت میں باجوہ ڈاکٹرائن کا ذکر رہا ہے لیکن ایک بات ضرور ماننا پڑے گی کہ 22 فروری 2017 کو جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے ذریعے آپریشن ردالفساد کا اعلان کیا گیا جس کا اہم مقصد نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل درآمد ٹھہرا۔

اب نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو نہ صرف غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ اگلے مرحلے میں ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں بھی شامل کیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تناظر میں جیشوں، لشکروں اور جماعتوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔۔ دیر آید درست آید۔
_105816962_197b2d8a-b111-490f-b4f6-4b7a960319b5.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAFP
پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی تھی
جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہاں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب کوئی ’ملی‘۔۔۔ مسلم لیگ کا نام بدنام نہیں کرے گی اور سیاست میں اداروں کی مداخلت اپنے انجام کو پہنچے گی۔ کوئی ’لبیک‘ کسی سیاسی جماعت کا ووٹ بنک تقسیم کرنے لیے نہیں بنائی جائے گی۔ جیش اور لشکر بھلے کسی بھی ملک کے خلاف اگر بنے ہیں تو ختم ہو جائیں گے۔

یہ سب کچھ بہت جلد کرنا ہے۔ دنیا کے 38 ملک (ایف اے ٹی ایف) ہم پر نظر جما کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ نا جائے ماندن۔۔نا پائے رفتن۔۔8707 مشکوک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال بھی سامنے ہے۔

مسلم ممالک میں سوائے ترکی کے کسی نے حقِ دوستی ادا نہیں کیا۔ چین بھی اب شاید ہمارے لیے کسی ویٹو کا حق استعمال نہ کر سکے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھارت کے لیے بازو وا کیے ہوئے ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کا بوجھ اب مزید دباؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گویا کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

باجوہ ڈاکٹرائن کام کرے یا عمرانی نظریہ اب گھر کو صاف کرنے کا فیصلہ ہو چکا جسے اٹل ہونا چاہیے تاکہ دنیا کو صفائیاں دینے کا سلسلہ بند ہو۔

عبدالقیوم چوہدری
 

فرحت کیانی

لائبریرین
باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا
عاصمہ شیرازی صحافی
  • 5 مار چ 2019
_105892586_29fee207-3f84-4c6f-bc4c-38fe21a4e5b1.jpg

سول اور فوجی قیادت کالعدم تنظیموں سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نظر آرہی ہے

اہم فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔ مجھ جیسے خوش گمانوں نے ایک بار پھر امید باندھ لی ہے۔ ریاست جاگ چکی ہے، اپنا گھر اِن آرڈر کرنا ہے۔ ہم ہر وقت غلط نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر وقت دنیا کی نظروں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہے اور ’نیا پاکستان‘ اسی کا نام ہے۔

یہ وہ جملے ہیں جو پہلی بار ریاست کے تمام اداروں سے سننے کو مل رہے ہیں۔

ہم بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگ کو ہم ایسے ہی لیتے ہیں جیسے پاک بھارت کرکٹ میچ۔ اس کا عملی مظاہرہ جنگی طیاروں کی لڑائی کے دوران دیکھنے کو آیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھسے، ہم نے دن کی روشنی میں مار گرایا۔ فخر اور تحسین کی بازگشت میں قوم سارا دن صرف فضائی میچ کا سکور ہی پوچھتی نظر آئی۔

محض ایک دن قبل بھارت کے بالاکوٹ حملے کے بعد قوم کا دل پی ایس ایل میں بھی نہیں لگا۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ قلندر جیت رہے ہیں یا کوئٹہ کے شیر پچھاڑے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان نے دو طیارے گرا نہیں لیے اور ابھینندن کو پنڈی کی چائے نہیں پلوا لی پاکستانیوں کو بےکلی ہی رہی۔

پھر تو جذبات کا یہ عالم تھا کہ مٹھائیوں کی دکانوں پر رش اور بازاروں میں گہما گہمی، ہر شخص کی باچھیں کچھ زیادہ ہی کھلی ہوئی تھیں۔ سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کرنے والے بھی ’ہماری فوج‘ کہتے نہیں تھک رہے اور کیوں نہ کریں فوج اب وہی کام کر رہی ہے جو اُس کو کرنا چاہیے تھا اور کرنا چاہیے ہے۔

یہ کس قدر اہم ہے کہ نہ تو ہم اقوام متحدہ میں کسی مسعود اظہر کے لیے دوستوں کو آزمائش میں ڈالیں گے اور نہ ہی اب ان کالعدم تنظیموں پر کارروائی سے کوئی روک سکے گا۔ اہم تو یہ بھی ہے کہ اب پہلی بار سول اور فوجی قیادت ان ’کالعدم‘ سے جان چھڑانے کے لیے ایک صفحے پر نہ صرف نظر آرہی ہے بلکہ تحریر بھی ایک ہی ہے۔
_105880844_mediaitem105880840.jpg

نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
یہ بھی اہم ہے کہ اب دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کر رہیں۔۔۔ مگر کیا یہ سب اُس وقت ہو رہا ہے جب عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے اور ہمیں بین الاقوامی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

’ادارے‘ نے سیاسی قیادت کے ساتھ کچھ فیصلے 2014 میں کر لیے تھے۔ اُن میں طیاروں جیسی تیزی بالاکوٹ کے بعد ہی آئی ہے۔

پاکستان کی صحافت میں باجوہ ڈاکٹرائن کا ذکر رہا ہے لیکن ایک بات ضرور ماننا پڑے گی کہ 22 فروری 2017 کو جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے ذریعے آپریشن ردالفساد کا اعلان کیا گیا جس کا اہم مقصد نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل درآمد ٹھہرا۔

اب نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کو نہ صرف غیر مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ اگلے مرحلے میں ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں بھی شامل کیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تناظر میں جیشوں، لشکروں اور جماعتوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔۔ دیر آید درست آید۔
_105816962_197b2d8a-b111-490f-b4f6-4b7a960319b5.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAFP
پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی تھی
جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہاں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب کوئی ’ملی‘۔۔۔ مسلم لیگ کا نام بدنام نہیں کرے گی اور سیاست میں اداروں کی مداخلت اپنے انجام کو پہنچے گی۔ کوئی ’لبیک‘ کسی سیاسی جماعت کا ووٹ بنک تقسیم کرنے لیے نہیں بنائی جائے گی۔ جیش اور لشکر بھلے کسی بھی ملک کے خلاف اگر بنے ہیں تو ختم ہو جائیں گے۔

یہ سب کچھ بہت جلد کرنا ہے۔ دنیا کے 38 ملک (ایف اے ٹی ایف) ہم پر نظر جما کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ نا جائے ماندن۔۔نا پائے رفتن۔۔8707 مشکوک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال بھی سامنے ہے۔

مسلم ممالک میں سوائے ترکی کے کسی نے حقِ دوستی ادا نہیں کیا۔ چین بھی اب شاید ہمارے لیے کسی ویٹو کا حق استعمال نہ کر سکے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھارت کے لیے بازو وا کیے ہوئے ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کا بوجھ اب مزید دباؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گویا کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

باجوہ ڈاکٹرائن کام کرے یا عمرانی نظریہ اب گھر کو صاف کرنے کا فیصلہ ہو چکا جسے اٹل ہونا چاہیے تاکہ دنیا کو صفائیاں دینے کا سلسلہ بند ہو۔

عبدالقیوم چوہدری
کیا ایسی ہی بات نواز شریف نے نہیں کی تھی؟ یہ جو کل سے ڈان لیکس معتبر ہو گئی ہیں، اس کی روشنی میں اس بارے میں مبینہ ڈاکٹرائن کی تعریف کیسے کی جائے گی؟
 
Top