باجوہ ڈکٹرائین

جاسم محمد

محفلین
باجوہ ڈاکٹرائن مطلوبہ نتائج حاصل کر چکی ہے۔ اس ملک میں اب سرمایہ کار آتے ہیں، اور نہ ہی کرپشن ہوتی ہے۔ ہم باجوہ ڈاکٹرائن کی بھرپور تائید کا اعلان کرتے ہیں۔
باجوہ ڈاکٹرائن اور سیاسی و فوجی حکومتوں کا دس سالہ میوزیکل چیئر
قائد اعظم کا پاکستان اور ان کے بعد لیاقت علی خان کی حکومت بوٹ برادری کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی، اس لیے 1951 سے لے کر 1958 تک 7 سالوں میں 7 وزرائے اعظم ہٹائے گئے۔ اس سیاسی ابتری اور ملک دشمنی کے روح رواں جنرل ایوب خان اور ان کے دست راست اسکندر مرزا تھے۔
سیاسی حکومتوں کے 10 سال پورے ہوتے ہی ایوب خان نے ملک پر ناجائز قبضہ کر کے دس سالوں کے لیے فوجی حکومت قائم کر دی۔ ایوب نے وردی اتار دی تو بوٹ برادری کے لیے وہ ویسے ہی غیر اہم ہو گئے جیسے وردی اتارنے کے بعد مشرف ہو گئے تھے۔ مشرف کو ہٹانے کے لیے وکلاء تحریک اور ایوب کو ہٹانے کے لیے پیپلز پارٹی کی کٹھ پتلی استعمال کی گئی۔
ایوب اور یحیٰ کے 13 سالوں کے بعد پاکستان ایک بار پھر سیاسی حکومت کے حوالے کیا گیا، تاہم امریکیوں کی ناراضگی کے ڈر سے سیاسی حکومت کو محض 6 سال ملے۔ سیاست دانوں کے بعد میوزیکل چیئر پر جنرل ضیاء بیٹھ گئے اور 11 سال بیٹھے رہے۔
پھر 1988 سے 1999 تک سیاست دانوں کو بھی 11 سال مل گئے۔ مشرف آئے اور 2008 تک 9 سال کھا گئے۔ اس کے بعد زرداری اور نواز کو 2018 تک 10 سال مل گئے۔
ففتھ جنریشن آصف غفوری وار فیئر کے زمانے میں مارشل لاء لگا کر ڈائریکٹ حکمرانی مشکل کام ہے۔ اس لیے عقل مند لوگوں نے آسان کام چنا اور پپٹ یعنی کٹھ پتلی کے ذریعے حکومت کرنے کا سوچا۔
کٹھ پتلی کا نام عمران احمد خاں نیازی ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن اور آصف غفور کے چھوڑے ہوئے وائرس (سوشل میڈیا ٹیم) کے مطابق عمران نیازی 10 سال کے لیے آئے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے چوہدری پرویز الٰہی جنرل مشرف کو 3، 4 بار صدر بنوانا چاہتے تھے۔ تاہم آثار یہ بتا رہے ہیں کہ نیازی جی ایک نااہل اور نکمے انسان ہیں جن سے حکومت نہیں چل رہی۔ کراچی گٹر بغیچہ بن چکا ہے، پشاور کے بی آر ٹی کھنڈرات کا وہی حال ہے اور لاہور بھی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ نیازی جی کو ہٹا کر کوئی اور کٹھ پتلی مسلط کر دی جائے گی، لیکن سکہ باجوہ ڈاکٹرائن کا ہی چلے گا اور وہ بھی دس سال تک۔
ان دس سالوں میں پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کے بعد حکومت ایک بار پھر اپوزیشن کو سونپی جاسکتی ہے۔
میرے خیال میں اگر شراکت اقتدار ہی کرنی ہے تو سوڈان کی طرز پر سول اور فوجی مخلوط حکومت کیوں نہیں بنا لیتے؟ چوری چھپے، آئین پاکستان میں نقب لگانے سے بہتر ہے کہ بوٹ برادری مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست دانوں سے بات کرے، کھل کر سامنے آئے، آئین دوبارہ تحریر کروایا جائے۔ اور کوئی فارمولا بنا کر شراکت اقتدار کو سادگی اور ایمان داری کے ساتھ قانون کی شکل دے دی جائے۔ یوں آنٹیوں کی طرح سازشیں کر کے، آئی ایس آئی کو بی جمالو بنا کر کب تک اس ملک کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان دس سالوں میں پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کے بعد حکومت ایک بار پھر اپوزیشن کو سونپی جاسکتی ہے۔
جو اس ملک کا مزید بیڑا غرق کرے گی۔ عسکری تو کیا سول قیادت میں بھی ملک کو آگےلے جانے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتی۔
 

فرقان احمد

محفلین
کوئی بات نہیں جناب! دس سال مزید تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ ایوب، ضیاء، مشرف وقت لے سکتے ہیں تو باجوہ صاحب نے کیا قصور کیا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی بات نہیں جناب! دس سال مزید تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ ایوب، ضیاء، مشرف وقت لے سکتے ہیں تو باجوہ صاحب نے کیا قصور کیا ہے!
یہ خیر سے فوج کا آخری تجربہ ثابت ہوگا۔ اگر کامیاب رہا تو الحمدللہ۔ اگر فلاپ ہوا تو تجربہ گاہ میں انقلاب آجائے گا ۔ ویسے انقلاب کے آثار معاشی ڈھانچے میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں :)
EC0731GXYAAeSax.png

ECvbLKmXoAEV9Gi.png
 

فرقان احمد

محفلین
یہ خیر سے فوج کا آخری تجربہ ثابت ہوگا۔ اگر کامیاب رہا تو الحمدللہ۔ اگر فلاپ ہوا تو تجربہ گاہ میں انقلاب آجائے گا ۔ ویسے انقلاب کے آثار معاشی ڈھانچے میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں :)
EC0731GXYAAeSax.png

ECvbLKmXoAEV9Gi.png
کوئی تجربہ آج تک آخری تجربہ ثابت نہ ہوا۔ دراصل، ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ اس میں بوٹ والوں کی غلطی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی تجربہ آج تک آخری تجربہ ثابت نہ ہوا۔ دراصل، ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ اس میں بوٹ والوں کی غلطی نہیں۔
کیا باجوہ ڈاکٹرائن ناکام ہوگیا ہے؟
30/11/2019 سید مجاہد علی


سپریم کورٹ کی طرف سے آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع پر اٹھنے والے سوالات میں سب سے اہم یہ ہونا چاہئے کہ اگر فوج ایک مضبوط ادارہ ہے جس کا اپنا ایک میکنزم موجود ہے اور جو چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتا ہے تو پھر بار بار ایک آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کا طریقہ کیوں اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق اس معاملہ پر قانون سازی کے دوران ، اس سوال کا جواب ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ اس سوال کو نظر انداز کرکے بنایا جانے والا کوئی بھی قانون موجودہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا نہیں کرسکے گا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کو باہمی تکرار سے گریز کرتے ہوئے ساری صورت حال کا جائزہ لے کر مناسب قانون وضع کرنا چاہئے۔ جو سیاسی لیڈر عسکری اداروں کے ساتھ وفاداری کے اظہار کے لئے اپنی سیاسی قوت اور عوامی نمائندگی کے استحقاق پر سودے بازی کرتے رہے ہیں ، انہیں بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ اب معاملہ اس حد تک تو پہنچ گیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں نے تین روز تک آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ پر مکالمہ کیا اور حکومت کی طرف سے بار بار پیش کئے جانے والے نوٹی فیکیشن مسترد کرتے ہوئے قانونی سقم کی نشاندہی کی۔ اٹارنی جنرل اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل فروغ نسیم تین روز کی کوشش کے باوجود سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکے۔ عدالت نے کسی بڑے بحران سے بچنے اور اداروں میں تصادم کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے کسی قانونی جواز کے بغیر موجودہ آرمی چیف کی مدت میں عارضی توسیع (جس کی مدت6 ماہ مقرر کی گئی ہے) قبول کی ہے اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے اس مدت میں مناسب قانون سازی کرے گی۔
حکومت کو یہ قانون بنانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مثبت ڈائیلاگ کرنے اور اس معاملہ کو صرف درپیش صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ اقدام کرتے ہوئے یہ بھی باور کرنا ہوگا کہ فوج کا وقار کسی ایک جنرل کے عہدے کی مدت میں توسیع سے نتھی نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ اس معاملہ کو حکومت کی عزت کا سوال بناکر اپوزیشن کے ساتھ مقابلہ اور ضد کی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کریں۔ اگرچہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کا مختصر حکم سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے یکے بعد دیگرے ٹوئٹ پیغامات میں یہی رویہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے پیغامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ بعض درپردہ ہاتھ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے تھے جنہیں اپوزیشن کی تائید بھی حاصل تھی تاکہ اس کے لیڈر اپنی کرپشن چھپا سکیں۔
وزیر اعظم کے اس بیان کو نرم ترین الفاظ میں بھی غلط بیانی اور عاقبت نااندیشی کہا جائے گا۔ آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ حکومت کی انتظامی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بن چکا ہے جس کی تین روزہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں نے بار بار نشاندہی کی۔ یہ درخواست اپوزیشن عدالت میں لے کر نہیں گئی تھی بلکہ ایک عام شہری نے یہ درخواست دائر کی تھی جو اسے واپس لینے پر اصرار کرتا رہا لیکن چیف جسٹس اس پر راضی نہیں ہوئے۔ اس لئے وزیر اعظم اداروں کے تصادم کی خواہش کرنے والے مافیا کو تلاش کرنے کی بجائے اگر اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں تو ان کی حکومت اور سیاسی شہرت کے لئے بہتر ہوگا۔
ماضی میں آئین کو نظر انداز کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے اپنے عہدے کی مدت میں خود ہی توسیع کی روایت قائم کی تھی۔ اب عدالت عظمی میں یہ راز بھی فاش ہوگیا کہ اس اقدام کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی لیکن آئین کو منسوخ یا معطل کرنے والے فوجی آمر وں کے نزدیک قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال مزید کام کرنے کا موقع دے کر پہلی بار کسی سول حکومت کی جانب سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی روایت قائم کی۔ اس توسیع کو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس دور میں موجود سیاسی صورت حال اور میمو گیٹ اسکینڈل کے پیش منظر میں دیکھنا ضروری ہوگا۔ پیپلز پارٹی نے فوج کے سربراہ کی توسیع کا فیصلہ جمہوری تسلسل کے لئے کیا تھا۔ طویل فوجی دور کے بعد جمہوری ادارے کمزور اور سول حکومت عدلیہ کے علاوہ دیگر ادارہ جاتی دباؤ کا شکار تھی۔
اب تحریک انصاف کی حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ’علاقائی سیکورٹی کی صورتحال ‘ کا عذر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں کمان سنبھالنے کے بعد علاقائی امن و سلامتی، قومی سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کا ایک خاص ویژن پیش کیا جسے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ سال جنوری میں باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا تھا۔ فروری 2018 میں جنرل باجوہ نے ملک کے چیدہ چیدہ اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ ایک طویل غیر رسمی (آف دی ریکارڈ) ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی کوئی باقاعدہ رپورٹنگ نہیں ہوئی لیکن جو معلومات سامنے آئیں ان کی روشنی میں ملکی نظام اور معاملات پر جنرل باجوہ کی تشویش اور اصلاح احوال کے لئے ان کے نقطہ نظر کا ایک خاکہ سامنے آیا۔ اس طرح باجوہ ڈاکٹرائن کا تصور واضح بھی ہؤا اور راسخ بھی ہوگیا۔
جولائی 2018 کے انتخابات اور ان کے نتیجے میں تحریک انصاف کے اقتدار تک پہنچنے کےعمل کو بھی باجوہ ڈاکٹرائن سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ایک طرح سے ملک کے آلودہ سیاسی ماحول کو شفاف بنانے کے لئے دیانت داری کی شہرت رکھنے والے ایک مقبول لیڈر کو اقتدار تک پہنچنے میں سہولت فراہم کرنا اس تصور کا ہی حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا طعنہ سننا پڑتا ہے اور اسی لئے موجودہ حکومت کے فیصلوں میں فوج کی مرضی کو شامل سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان نے کبھی اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ عسکری ادارے اور سول حکومت کے درمیان قریبی اشتراک موجود ہے۔
یہ تعاون اس وقت تک تو مستحسن اور قابل قبول ہوسکتا ہے اگر فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ بن کر کام کرے اور منتخب حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلے کرنے کے اصول پر گامزن ہو۔ اس کے برعکس تحریک انصاف نے پہلے دن سے پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا اور اہم امور میں جنرل باجوہ کی سرپرستی اور رہنمائی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ اسی حکمت عملی کے نتیجہ میں اس سال کے شروع میں قومی ترقیاتی کونسل کے نام سے ایک نیا قومی ادارہ قائم کیا گیا جس میں وفاقی وزرا کے علاوہ آرمی چیف کو خاص طور سے شامل کیا گیا۔ جنرل باجوہ بیرونی دوروں میں وزیر اعظم کے ہم رکاب رہتے ہیں۔ یہ باتیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جو خصوصی مختصر المدت مالی پیکجز حاصل کئے تھے، ان میں آرمی چیف نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لئے فوج کا سربراہ بنانے کے اقدام کو اس پس منظر میں دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ اسی حوالے سے علاقائی اور قومی معاملات میں رونما ہونے والے حالات کو باجوہ ڈاکٹرائن کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اس نظریہ، تصور یا ویژن کا جائزہ لینا بھی اہم ہوگا۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت علاقائی امن کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ کرتار پور راہداری کا منصوبہ بھی جنرل باجوہ کی اسی خواہش کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کا کوئی اقدام بھارت کو مذاکرات اور امن پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے، اسے عملی طور سے بھارت کا حصہ بنا کر نئی دہلی نے پاکستان کے ہر امن منصوبے کو ناکام بنایا ہے۔ اس طرح کشمیر کے سوال پر پاکستان کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
خارجہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان بدستور سعودی عرب اور ایران کی چپقلش میں پھنسا ہؤا ہے اور اپنی کوئی غیر جانبدارانہ یا خود مختار حکمت عملی سامنے نہیں لاسکا۔ افغان طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات میں کامیابی خارجہ پالیسی میں اہم پیش رفت تھی لیکن اس میں پیدا ہونے والی رکاوٹ کی وجہ سے پاکستان کو بدستور امریکی دباؤ اور کابل کے الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ گزشتہ پانچ برس سے سی پیک کو پاکستانی معیشت کے لئے گیم چینجر کی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ایک طرف چین کے ساتھ پہلے جیسی گرمجوشی مفقود ہے تو دوسری طرف امریکہ سی پیک پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ پاکستان اس امریکی مؤقف پر تردیدی بیان جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکا۔
تاہم باجوہ ڈاکٹرائن کا اہم ترین منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت کا قیام اور اس کی کارکردگی کو کہا جاسکتا۔ اس حکومت نے آرمی چیف کی توسیع کے نوٹی فیکیشن کے حوالے سے جس اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے ، اسی سے حکومت کی انتظامی اور حکمرانی کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی کیفیت پر اب ہر ادارہ اور اس ملک کا ہر طبقہ حیران و پریشان ہے۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ باجوہ ڈاکٹرائن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ حکومت اگر جنرل باجوہ کو صرف اس لئے مزید تین برس تک اس عہدہ پر برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے روڈ میپ کے مطابق معاملات چلانے میں حکومت سے تعاون کرتے رہیں تاکہ ملک کی تقدیر تبدیل کی جاسکے تو یہ غلط حکمت عملی ہوگی۔ جنرل باجوہ کا کوئی منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
پارلیمنٹ میں آرمی چیف کے عہدہ کی مدت کا تعین کرتے ہوئے اور اس کی توسیع کے لئے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے گزشتہ چند برس میں سامنے آنے والے حالات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ ملک کے سیاست دانوں کو اس وقت ایک ایسے ادارے کی قیادت کے بارے میں ٹھوس اصول طے کرنے کا نادر موقع ملا ہے جو کسی نہ کسی طرح ملکی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرتا رہا ہے۔ واضح اصولوں اور میرٹ کی بنیاد پر بننے والا قانون ہی، اس ملک میں فوج کے وقار اور جمہوری نظام کے استحکام میں کردار ادا کرسکے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
کیا باجوہ ڈاکٹرائن ناکام ہوگیا ہے؟
30/11/2019 سید مجاہد علی


سپریم کورٹ کی طرف سے آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع پر اٹھنے والے سوالات میں سب سے اہم یہ ہونا چاہئے کہ اگر فوج ایک مضبوط ادارہ ہے جس کا اپنا ایک میکنزم موجود ہے اور جو چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتا ہے تو پھر بار بار ایک آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کا طریقہ کیوں اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق اس معاملہ پر قانون سازی کے دوران ، اس سوال کا جواب ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ اس سوال کو نظر انداز کرکے بنایا جانے والا کوئی بھی قانون موجودہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا نہیں کرسکے گا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کو باہمی تکرار سے گریز کرتے ہوئے ساری صورت حال کا جائزہ لے کر مناسب قانون وضع کرنا چاہئے۔ جو سیاسی لیڈر عسکری اداروں کے ساتھ وفاداری کے اظہار کے لئے اپنی سیاسی قوت اور عوامی نمائندگی کے استحقاق پر سودے بازی کرتے رہے ہیں ، انہیں بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ اب معاملہ اس حد تک تو پہنچ گیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں نے تین روز تک آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ پر مکالمہ کیا اور حکومت کی طرف سے بار بار پیش کئے جانے والے نوٹی فیکیشن مسترد کرتے ہوئے قانونی سقم کی نشاندہی کی۔ اٹارنی جنرل اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل فروغ نسیم تین روز کی کوشش کے باوجود سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکے۔ عدالت نے کسی بڑے بحران سے بچنے اور اداروں میں تصادم کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے کسی قانونی جواز کے بغیر موجودہ آرمی چیف کی مدت میں عارضی توسیع (جس کی مدت6 ماہ مقرر کی گئی ہے) قبول کی ہے اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے اس مدت میں مناسب قانون سازی کرے گی۔
حکومت کو یہ قانون بنانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مثبت ڈائیلاگ کرنے اور اس معاملہ کو صرف درپیش صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ اقدام کرتے ہوئے یہ بھی باور کرنا ہوگا کہ فوج کا وقار کسی ایک جنرل کے عہدے کی مدت میں توسیع سے نتھی نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ اس معاملہ کو حکومت کی عزت کا سوال بناکر اپوزیشن کے ساتھ مقابلہ اور ضد کی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کریں۔ اگرچہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کا مختصر حکم سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے یکے بعد دیگرے ٹوئٹ پیغامات میں یہی رویہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے پیغامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ بعض درپردہ ہاتھ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے تھے جنہیں اپوزیشن کی تائید بھی حاصل تھی تاکہ اس کے لیڈر اپنی کرپشن چھپا سکیں۔
وزیر اعظم کے اس بیان کو نرم ترین الفاظ میں بھی غلط بیانی اور عاقبت نااندیشی کہا جائے گا۔ آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ حکومت کی انتظامی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بن چکا ہے جس کی تین روزہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں نے بار بار نشاندہی کی۔ یہ درخواست اپوزیشن عدالت میں لے کر نہیں گئی تھی بلکہ ایک عام شہری نے یہ درخواست دائر کی تھی جو اسے واپس لینے پر اصرار کرتا رہا لیکن چیف جسٹس اس پر راضی نہیں ہوئے۔ اس لئے وزیر اعظم اداروں کے تصادم کی خواہش کرنے والے مافیا کو تلاش کرنے کی بجائے اگر اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں تو ان کی حکومت اور سیاسی شہرت کے لئے بہتر ہوگا۔
ماضی میں آئین کو نظر انداز کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے اپنے عہدے کی مدت میں خود ہی توسیع کی روایت قائم کی تھی۔ اب عدالت عظمی میں یہ راز بھی فاش ہوگیا کہ اس اقدام کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی لیکن آئین کو منسوخ یا معطل کرنے والے فوجی آمر وں کے نزدیک قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال مزید کام کرنے کا موقع دے کر پہلی بار کسی سول حکومت کی جانب سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی روایت قائم کی۔ اس توسیع کو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس دور میں موجود سیاسی صورت حال اور میمو گیٹ اسکینڈل کے پیش منظر میں دیکھنا ضروری ہوگا۔ پیپلز پارٹی نے فوج کے سربراہ کی توسیع کا فیصلہ جمہوری تسلسل کے لئے کیا تھا۔ طویل فوجی دور کے بعد جمہوری ادارے کمزور اور سول حکومت عدلیہ کے علاوہ دیگر ادارہ جاتی دباؤ کا شکار تھی۔
اب تحریک انصاف کی حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ’علاقائی سیکورٹی کی صورتحال ‘ کا عذر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2016 میں کمان سنبھالنے کے بعد علاقائی امن و سلامتی، قومی سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کا ایک خاص ویژن پیش کیا جسے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ سال جنوری میں باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا تھا۔ فروری 2018 میں جنرل باجوہ نے ملک کے چیدہ چیدہ اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ ایک طویل غیر رسمی (آف دی ریکارڈ) ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی کوئی باقاعدہ رپورٹنگ نہیں ہوئی لیکن جو معلومات سامنے آئیں ان کی روشنی میں ملکی نظام اور معاملات پر جنرل باجوہ کی تشویش اور اصلاح احوال کے لئے ان کے نقطہ نظر کا ایک خاکہ سامنے آیا۔ اس طرح باجوہ ڈاکٹرائن کا تصور واضح بھی ہؤا اور راسخ بھی ہوگیا۔
جولائی 2018 کے انتخابات اور ان کے نتیجے میں تحریک انصاف کے اقتدار تک پہنچنے کےعمل کو بھی باجوہ ڈاکٹرائن سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ایک طرح سے ملک کے آلودہ سیاسی ماحول کو شفاف بنانے کے لئے دیانت داری کی شہرت رکھنے والے ایک مقبول لیڈر کو اقتدار تک پہنچنے میں سہولت فراہم کرنا اس تصور کا ہی حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا طعنہ سننا پڑتا ہے اور اسی لئے موجودہ حکومت کے فیصلوں میں فوج کی مرضی کو شامل سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان نے کبھی اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ عسکری ادارے اور سول حکومت کے درمیان قریبی اشتراک موجود ہے۔
یہ تعاون اس وقت تک تو مستحسن اور قابل قبول ہوسکتا ہے اگر فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ بن کر کام کرے اور منتخب حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلے کرنے کے اصول پر گامزن ہو۔ اس کے برعکس تحریک انصاف نے پہلے دن سے پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا اور اہم امور میں جنرل باجوہ کی سرپرستی اور رہنمائی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ اسی حکمت عملی کے نتیجہ میں اس سال کے شروع میں قومی ترقیاتی کونسل کے نام سے ایک نیا قومی ادارہ قائم کیا گیا جس میں وفاقی وزرا کے علاوہ آرمی چیف کو خاص طور سے شامل کیا گیا۔ جنرل باجوہ بیرونی دوروں میں وزیر اعظم کے ہم رکاب رہتے ہیں۔ یہ باتیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جو خصوصی مختصر المدت مالی پیکجز حاصل کئے تھے، ان میں آرمی چیف نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لئے فوج کا سربراہ بنانے کے اقدام کو اس پس منظر میں دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ اسی حوالے سے علاقائی اور قومی معاملات میں رونما ہونے والے حالات کو باجوہ ڈاکٹرائن کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اس نظریہ، تصور یا ویژن کا جائزہ لینا بھی اہم ہوگا۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت علاقائی امن کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ کرتار پور راہداری کا منصوبہ بھی جنرل باجوہ کی اسی خواہش کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کا کوئی اقدام بھارت کو مذاکرات اور امن پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے، اسے عملی طور سے بھارت کا حصہ بنا کر نئی دہلی نے پاکستان کے ہر امن منصوبے کو ناکام بنایا ہے۔ اس طرح کشمیر کے سوال پر پاکستان کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
خارجہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان بدستور سعودی عرب اور ایران کی چپقلش میں پھنسا ہؤا ہے اور اپنی کوئی غیر جانبدارانہ یا خود مختار حکمت عملی سامنے نہیں لاسکا۔ افغان طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات میں کامیابی خارجہ پالیسی میں اہم پیش رفت تھی لیکن اس میں پیدا ہونے والی رکاوٹ کی وجہ سے پاکستان کو بدستور امریکی دباؤ اور کابل کے الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ گزشتہ پانچ برس سے سی پیک کو پاکستانی معیشت کے لئے گیم چینجر کی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ایک طرف چین کے ساتھ پہلے جیسی گرمجوشی مفقود ہے تو دوسری طرف امریکہ سی پیک پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ پاکستان اس امریکی مؤقف پر تردیدی بیان جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکا۔
تاہم باجوہ ڈاکٹرائن کا اہم ترین منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت کا قیام اور اس کی کارکردگی کو کہا جاسکتا۔ اس حکومت نے آرمی چیف کی توسیع کے نوٹی فیکیشن کے حوالے سے جس اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے ، اسی سے حکومت کی انتظامی اور حکمرانی کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی کیفیت پر اب ہر ادارہ اور اس ملک کا ہر طبقہ حیران و پریشان ہے۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ باجوہ ڈاکٹرائن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ حکومت اگر جنرل باجوہ کو صرف اس لئے مزید تین برس تک اس عہدہ پر برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے روڈ میپ کے مطابق معاملات چلانے میں حکومت سے تعاون کرتے رہیں تاکہ ملک کی تقدیر تبدیل کی جاسکے تو یہ غلط حکمت عملی ہوگی۔ جنرل باجوہ کا کوئی منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
پارلیمنٹ میں آرمی چیف کے عہدہ کی مدت کا تعین کرتے ہوئے اور اس کی توسیع کے لئے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے گزشتہ چند برس میں سامنے آنے والے حالات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ ملک کے سیاست دانوں کو اس وقت ایک ایسے ادارے کی قیادت کے بارے میں ٹھوس اصول طے کرنے کا نادر موقع ملا ہے جو کسی نہ کسی طرح ملکی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرتا رہا ہے۔ واضح اصولوں اور میرٹ کی بنیاد پر بننے والا قانون ہی، اس ملک میں فوج کے وقار اور جمہوری نظام کے استحکام میں کردار ادا کرسکے گا۔
دراصل پاکستان حکمرانی کے لیے ایک مشکل ملک ہے۔ یہاں لسانی، جغرافیائی اور مذہبی تقسیم در تقسیم ہے اور اس باعث وفاق کو استحکام کے حوالے سے خدشات لاحق رہتے ہیں۔ وفاق کی اکائیوں کو یکجا رکھنا ایسا آسان کام نہیں۔ فوج منظم ادارہ ہے اور اسے سیاسی معاملات میں اس حد تک دخیل کر لیا گیا ہے کہ یہ ادارہ بھی متنازع ہو چلا ہے اور یہ وفاق کے لیے بالآخر سنگین ترین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ فوج کو ہر صورت غیر سیاسی ہونا چاہیے اور اگر یہاں باجوہ ڈاکٹرائن کی ناکامی ہوتی ہے تو یہ دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی تصور ہو گی۔ بہتر ہو گاکہ کسی عسکری شخصیت کے نام سے کسی نظریے اور ڈاکٹرائن کو فروغ نہ دیا جائے اور اس طرح کے جملہ نظریات کو سویلین چھتری فراہم کی جائے جو کہ ایک حد تک فراہم کی بھی گئی ہے تاہم باجوہ ڈاکٹرائن کا چہار سو غل خطرناک پیش رفت ہے۔ ویسے، یہاں ہر دوسرا تیسرا رہنما یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس ملک کے مسائل کو چٹکی بجا کر حل کر سکتا ہے؛ دراصل یہ قریب قریب ناممکن ہے۔ بہتر ہو گا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ خود کو ملک کے سیاسی و معاشی معاملات سے الگ تھلگ رکھے اور سیاسی پارٹیوں کو پنپنے دے۔ شروع میں مفاہمت وغیرہ کے معاملات ہوتے ہیں؛ کہیں کہیں کمپرومائزز بھی کرنے ہوں گےتاہم میڈیا کی آزادی اور عامۃ الناس میں شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ معاملات از خود بہتر ہونے لگ جائیں گے۔ یہ جو کئی شعبوں میں بہتریاں آئی ہیں، اس کی وجہ حکومت یا باجوہ ڈاکٹرائن کم اور وقت کا جبر زیادہ ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں روایتی طرز پر حکومت پر کنٹرول رکھنا اور ریاست کو انیس سو اسی، انیس سو نوے کی دہائی کے پیٹرن پر چلانا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی فاش غلطی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شروع میں مفاہمت وغیرہ کے معاملات ہوتے ہیں؛ کہیں کہیں کمپرومائزز بھی کرنے ہوں گےتاہم میڈیا کی آزادی اور عامۃ الناس میں شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ معاملات از خود بہتر ہونے لگ جائیں گے۔
بار بار مفاہمت (این آر او) کی پالیسی کی وجہ سے ہی ملک اس حال تک پہنچا ہے :)
 

جان

محفلین
بھیا کب تلک ایسی باتیں کر کے اپنا دل بہلاتے رہو گے، زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ 'اسلام خطرے میں ہے' کا نعرہ 47 سے پہلے مسلم لیگ نے خوب بیچا تھا اور یقیناً اس میں کامیاب ہوئی، ملک بن گیا اور اس کے بعد پھر سے مسلم لیگ نے وہی نعرہ بیچنے کی کوشش کی لیکن نتائج اس کے برعکس تھے کیونکہ اب وہ حالات نہ رہے تھے۔ بالکل اسی طرح آپ کا کرپشن کا نعرہ خوب بکا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آپ جواب دہ ہیں آپ کے ہاتھ میں کمان ہے اب وہی نعرہ نہیں بیچا جا سکتا اور نہ ہی بکے گا آپ چاہے جتنا مرضی خود کو بیوقوف بنا لیں لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ ان خوش فہمیوں سے باہر نکلنے کا اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا، نعرے صرف اقتدار میں آنے تک بکتے ہیں اقتدار میں آ کر دعووں پر کام کیا جاتا ہے۔ جن جن وعدوں پہ علی الاعلان اللہ کو گواہ بنا کر پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا ان پر توجہ دیں، پولیس کا نظام، صحت کا نظام، معاشی نظام، میرٹ کا نظام ان سب پہ فوکس کریں۔ محض کرپشن کے نعرے سے قوم ڈسٹرکٹ نہیں ہو رہی بلکہ آپ خوش فہمی کے خول میں خود کو بند کیے ہوئے ہیں، اس سے باہر نکلیے۔ ہمیں یہ نہیں سننا کہ فلاں ذمہ دار ہے یہ سب ہم الیکشن سے پہلے بہت سن چکے آپ کا دعویٰ تھا اقتدار میں آ کر ان کو ٹھیک کرنے کا، سو ہم ان پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ صبح شام گالم گلوچ طعنہ زنی یا لفافہ لفافہ کھیلنے سے ملک کے مسائل حل نہیں ہو جاتے اور اگر اور کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں تو پارٹی کی اخلاقی تربیت ہی کر دیں یہی بہت ہے، صبح شام بونگیاں، چولیں، بچگانہ باتیں اور ایک ہی گھسی پٹی داستان سن کر سیاست ایک گندی گالی بن کر رہ گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بھیا کب تلک ایسی باتیں کر کے اپنا دل بہلاتے رہو گے، زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ 'اسلام خطرے میں ہے' کا نعرہ 47 سے پہلے مسلم لیگ نے خوب بیچا تھا اور یقیناً اس میں کامیاب ہوئی، ملک بن گیا اور اس کے بعد پھر سے مسلم لیگ نے وہی نعرہ بیچنے کی کوشش کی لیکن نتائج اس کے برعکس تھے کیونکہ اب وہ حالات نہ رہے تھے۔ بالکل اسی طرح آپ کا کرپشن کا نعرہ خوب بکا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آپ جواب دہ ہیں آپ کے ہاتھ میں کمان ہے اب وہی نعرہ نہیں بیچا جا سکتا اور نہ ہی بکے گا آپ چاہے جتنا مرضی خود کو بیوقوف بنا لیں لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ ان خوش فہمیوں سے باہر نکلنے کا اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا۔ جن جن وعدوں پہ علی الاعلان اللہ کو گواہ بنا کر پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا ان پر توجہ دیں، پولیس کا نظام، صحت کا نظام، معاشی نظام، میرٹ کا نظام ان سب پہ فوکس کریں۔ محض کرپشن کے نعرے سے قوم ڈسٹرکٹ نہیں ہو رہی بلکہ آپ خوش فہمی کے خول میں خود کو بند کیے ہوئے ہیں، اس سے بہر حال نکلیے۔ ہمیں یہ نہیں سننا کہ فلاں ذمہ دار ہے یہ سب ہم الیکشن سے پہلے بہت سن چکے آپ کا دعویٰ تھا اقتدار میں آ کر ان کو ٹھیک کرنے کا، سو ہم ان پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ صبح شام گالم گلوچ طعنہ زنی یا لفافہ لفافہ کھیلنے سے ملک کے مسائل حل نہیں ہو جاتے اور اگر اور کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں تو پارٹی کی اخلاقی تربیت ہی کر دیں یہی بہت ہے، صبح شام بونگیاں، چولیں، بچگانہ باتیں اور ایک ہی گھسی پٹی داستان سن کر سیاست ایک گندی گالی بن کر رہ گئی ہے۔

پنجاب میں گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے، وزیراعظم
ویب ڈیسک ہفتہ 30 نومبر 2019
1900249-imrankhan-1575108077-180-640x480.jpg

سرکاری افسران کسی سیاسی شخصیت کا کوئی بھی ناجائز کام ہرگز نہ کریں، وزیر اعظم فوٹو : فائل

لاہور: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب میں امن وامان اور گورننس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور سرکاری افسران کسی سیاسی شخصیت کا کوئی بھی ناجائز کام ہرگز نہ کریں۔

وزیراعظم عمران خان دورے پر لاہور پہنچے۔ ان کے ہمراہ زلفی بخاری، فردوس عاشق اعوان اور شہزاد اکبر بھی تھے۔ وزیر اعظم عمران خان سے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، نئے چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان، نئےآئی جی پنجاب شعیب دستگیر سمیت دیگر افسران نے ملاقات کی۔ بعدازاں وزیراعظم کی زیر صدارت پنجاب کی بیوروکریسی و پولیس افسران کا ہوا جس میں عمران خان نے نئی تعیناتیوں پر افسران کو مبارکباد دی۔

وزیر اعظم نے پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لئے سفارشات کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے، 1960 کی دہائی میں پاکستان کی گورننس، بیوروکریسی اور پالیسیوں کی مثالیں دی جاتی تھیں، ہم نے افسران کو ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے آزاد کیا ہے، اسی لیے بیوروکریسی اور دیگر عہدوں پر تعیناتیاں میرٹ پر کی ہیں، افسران کو کسی سیاسی شخصیت کا کوئی بھی ناجائز کام ہرگز نہیں کرنا بلکہ ان کا کام کمزور کو طاقتور کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمیں نئے پاکستان میں پرانی سوچ کو تبدیل کرنا ہے، نئے پاکستان میں اب پرانا نظام نہیں چل سکتا، پنجاب میں امن وامان اور گورننس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، افسران بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام پر خصوص توجہ دیں، ہم ان کی مدت ملازمت کو تحفظ فراہم کریں گے، غریب آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کوشش کریں گے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ معیشت کے استحکام پر معاشی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے جس کے لیے استحکام ضروری ہے، معاشی ترقی کے لیے قابل بیوروکریسی کا بہت اہم کردار ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
وزیراعظم نے مزید کہا کہ معیشت کے استحکام پر معاشی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں
اس خوشی میں معاشی ٹیم کو ہر بڑے شہر کے اتوار بازار کا ایک آدھ وزٹ کروائیں تاکہ عوام بھی ان کو براہ راست مبارک باد پیش کر سکیں۔ ارے بھئی، عوام کیوں اس خوشی سے محروم رہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
اس خوشی میں معاشی ٹیم کو ہر بڑے شہر کے اتوار بازار کا ایک آدھ وزٹ کروائیں تاکہ عوام بھی ان کو براہ راست مبارک باد پیش کر سکیں۔ ارے بھئی، عوام کیوں اس خوشی سے محروم رہیں!
معیشت کا خارجی سیکٹر مستحکم کرنے پر مبارک باد تو بنتی ہے۔ داخلی سیکٹر مستحکم کرنے میں ابھی کچھ سال لگیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
معیشت کا خارجی سیکٹر مستحکم کرنے پر مبارک باد تو بنتی ہے۔ داخلی سیکٹر مستحکم کرنے میں ابھی کچھ سال لگیں گے۔
جی ہاں! معیشت کا خارجی سیکٹر اس حد تک مستحکم ہے کہ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کو فنڈنگ کی جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کار لائنوں میں لگے ہیں؛ پاکستان آنے کو بے چین ہیں اور ایک ہمارے وزیراعظم ہیں کہ اُن کے پاس معاشی ٹیم کے لیے مبارکبادی کارڈ چھپوانے سے ہی فرصت نہیں۔ صاحب ذی وقار اپنی خوجیانہ قرولی اٹھائے این آر او نہ دیے جانے کی تکرار میں مصروف ہیں۔ عجب تماشا مچا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! معیشت کا خارجی سیکٹر اس حد تک مستحکم ہے کہ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کو فنڈنگ کی جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کار لائنوں میں لگے ہیں؛ پاکستان آنے کو بے چین ہیں اور ایک ہمارے وزیراعظم ہیں کہ اُن کے پاس معاشی ٹیم کے لیے مبارکبادی کارڈ چھپوانے سے ہی فرصت نہیں۔ صاحب ذی وقار اپنی خوجیانہ قرولی اٹھائے این آر او نہ دیے جانے کی تکرار میں مصروف ہیں۔ عجب تماشا مچا ہے!
کیا آپ کو معلوم ہے اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے؟ پاکستان کو ۱۲ ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا تھا اور جب خان صاحب کو حکومت ملی اس وقت قومی خزانہ میں صرف ۸ ارب ڈالر باقی تھے۔ کیا آپ اس طرح گھر کو چلا سکتے ہیں جیسے ن لیگی ملک کی معیشت چلا رہے تھے؟
Pakistan's debt policy has brought us to the brink. Another five years of the same is unsustainable - DAWN.COM
اب ۱۵ ماہ کی انتھک محنت کے بعد ملک کی خارجہ معیشت اسٹیبل ہے۔ روپے کی بے قدری کم ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ پچھلے ۴ ماہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں تیزی کا رجحان ہے۔ خسارے ریکارڈ کم ہو رہے ہیں۔ لیکن ناشکری عوام کی شکایتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
Pakistan Posts Current Account Surplus in October
 

فرقان احمد

محفلین
کیا آپ کو معلوم ہے اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے؟ پاکستان کو ۱۲ ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا تھا اور جب خان صاحب کو حکومت ملی اس وقت قومی خزانہ میں صرف ۸ ارب ڈالر باقی تھے۔ کیا آپ اس طرح گھر کو چلا سکتے ہیں جیسے ن لیگی ملک کی معیشت چلا رہے تھے؟
Pakistan's debt policy has brought us to the brink. Another five years of the same is unsustainable - DAWN.COM
اب ۱۵ ماہ کی انتھک محنت کے بعد ملک کی خارجہ معیشت اسٹیبل ہے۔ روپے کی بے قدری کم ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ پچھلے ۴ ماہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں تیزی کا رجحان ہے۔ خسارے ریکارڈ کم ہو رہے ہیں۔ لیکن ناشکری عوام کی شکایتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
Pakistan Posts Current Account Surplus in October
کیا آپ پاکستان کی بات کر رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا آپ پاکستان کی بات کر رہے ہیں؟
جی بالکل۔ تحریک انصاف حکومت نے اپنے پہلے سال پچھلی حکومتوں کا لیا گیا ریکارڈ ۱۲ ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا ہے۔


قوم کی جو پچھلے پانچ سال سستے ڈالر کے نشہ میں عیاشیاں ہو رہی تھیں اب ان کی واپسی کا وقت آگیا ہے۔ انجوائے کریں اور آئندہ ووٹ ایسی جماعتوں کو نہ دیں جو قوم کو سستے ڈالر کا نشہ دے کر پکڑے جانے پر ملک سے فرار ہو جاتی ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
جی بالکل۔ تحریک انصاف حکومت نے اپنے پہلے سال پچھلی حکومتوں کا لیا گیا ریکارڈ ۱۲ ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا ہے۔


قوم کی جو پچھلے پانچ سال سستے ڈالر کے نشہ میں عیاشیاں ہو رہی تھیں اب ان کی واپسی کا وقت آگیا ہے۔ انجوائے کریں :)
صاحب! یہ بارہ ارب ڈالر کا قرضہ کتنا قرضہ لے کر اتارا گیا ہے؟ یعنی کہ موجودہ حکومت نے مختلف حکومتوں اور تنظیموں وغیرہ سے پندرہ ماہ میں کتنا قرض لیا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
صاحب! یہ بارہ ارب ڈالر کا قرضہ کتنا قرضہ لے کر اتارا گیا ہے؟ یعنی کہ موجودہ حکومت نے مختلف حکومتوں اور تنظیموں وغیرہ سے پندرہ ماہ میں کتنا قرض لیا ہے؟
بہت اچھا سوال ہے۔ اس حکومت نے پچھلا قرضہ اتارنے کیلئے سعودی عرب، چین، امارات اور آئی ایم ایف سے ڈھیر سارا مزید قرضہ لیا ہے۔ لیکن اس کی واپسی کی شرائط پچھلی حکومت جیسی سخت نہیں۔ یعنی حکومت ان قرضوں کو واپس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اسکے لئے نہایت غیر مقبول لیکن ضروری معاشی ریفارمز بھی کر رہی ہے۔ جیسے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا۔ تیل، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ۔ ماضی کی مختلف سبسڈیوں کا خاتمہ۔ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ میں ریکارڈ کمی۔ ایکسپورٹس میں اضافہ وغیرہ
بیرونی قرضہ معیشت کو ہنگامی بنیادوں پر استحکام دینے کیلئے لیا جاتا ہے۔ ماضی کی حکومتیں اس ہنگامی قرضے کو قومی ریلیف یا اپنی لوٹ مار پر خرچ کر دیتی تھیں۔ جس کی وجہ سے کچھ سال بعد نئی حکومت کے وقت قومی خزانہ پھر سے خالی ہو جاتا۔ یہ پہلی حکومت ہے جو بیرونی قرضے عوامی ریلیف کیلئے نہیں لے رہی :)
 
Top