"وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں "
امجد اسلام امجد کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ میرے ذہن میں نہیں آرہا
کسی کو یاد ہو تو لکھ دے
ہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گمان میں
صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا
تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا