ایم اے راجا

محفلین
کب تلک اس سے سلسلہ رکھوں
ساری بستی سے فاصلہ رکھوں

بے وفا ہے مگر اسے کیسے
بھول جانے کا حوصلہ رکھوں

میرا اپنا قبیلہ دشمن ہے
سامنے کسکے اب گلہ رکھوں

کس کی خاطر میں ان منڈیروں پر
پھر چراغوں کو اب جلا رکھوں

کیوں نہ میں اسکو پھوڑ دوں راجا
دل میں کب تک یہ آبلہ رکھوں


ایک غزل حاضر ہے برائے جراحت:)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کب تلک اس سے سلسلہ رکھوں
ہر خوشی سے میں فاصلہ رکھوں

بے وفا ہے مگر کیسے اس کو
بھولنے کا میں حوصلہ رکھوں

یہ قبیلہ مرا تو، قاتل ہے
سامنے کس کے اب گلہ رکھوں

کس کی خاطر میں ان منڈیروں پر
پھر چراغوں کو اب جلا رکھوں

پھوڑ ڈالوں اسے میں اب راجا
دل پہ کب تک یہ آبلہ رکھوں


ایک غزل حاضر ہے برائے جراحت:)


راجا بھائی بہت اچھی غزل ہے لیکن اس کو ابھی بہتری کی ضرورت ہے جو لفظ میں نے سرخ کیے ہیں ان میں مسئلہ ہے آپ خود غور سے دیکھے
”بے وفا ہے مگر کیسے اس کو“ اس کی اگر تقطع کی جائے تو ایسے ہو گا
فاعلاتن بے وفا ہے
مفا مگر
علن کیسے نہیں آ سکتا کیوں کہ یہاں ی ساکن ہے اگر آخری ے گیرا بھی دی جائے تو بھی میرے خیال میں وزن پر نہیں آئے گا باقی وارث صاحب اور اعجاز صاحب کی رائے دیکھتے ہیں

اور اسی طرح ”کس کی خاطر میں ان منڈیروں پر“ کی تقطع کی جائے تو
فاعلاتن کس ک خا طر
مفا م ان
علن منڈ یہاں بھی وہی حساب ہے یہاں “ن“ ساکن ہے اس طرح من ڈی رو ہمارے پاس تین سبب بنتے ہیں باقی وارث صاحب اور اعجاز صاحب کی اصلاح کا انتظار رہے گا یہ میرے اپنی رائے ہیں غلط ہے یا ٹھیک یہ فیصلہ اساتذہ اکرام کرے گے شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔ اصلاح تو بعد میں تفصیل سے
منڈیروں درست ہے
لیکن ’کیسے‘ میں دوسری ی یعنی بڑی ے گرے ےو ممکن ہے لیکن یہاں درمیانی ی۔ کاف اور سین کے درمیان گر رہی ہے جو جائز نہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
راجا۔ اصلاح تو بعد میں تفصیل سے
منڈیروں درست ہے
لیکن ’کیسے‘ میں دوسری ی یعنی بڑی ے گرے ےو ممکن ہے لیکن یہاں درمیانی ی۔ کاف اور سین کے درمیان گر رہی ہے جو جائز نہیں۔

بہت شکریہ اعجاز صاحب، اور خرم بھائی۔
میں نے مذکورہ مصرعہ تبدیل کر دیا ہے،
اعجاز صاحب اب آپکی اصلاح کا انتظار رہے گا، اس بحر میں یہ میری پہلی کوشش ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
نہیں وارث۔۔ میں تو محض اٹکل پچو سے کچھ بھیئ کہہ دیتا ہوں، محض وجدان اور یادداشت سے۔۔ تم ذرا دلائل کے ساتھ بات کرتے ہو تو اس میں وزن ہوتا ہے۔۔اس لیئ تم بھی ضرور کچھ رائے دیا کرو۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سر میں نے بھی اس پر بہت سی غزلیں لکھ لی ہیں آپ اصلاح کا کام شروع کرے تو ہم کچھ نا کچھ ارسال کرتا رہوں اسی بحر میں میری 2 غزلیں ابھی بھی اصلاح کی لیے بے قرار ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
خرم اگر اب تم نے ہجے میں اتنی غلطیاں کی تو ماروں گا:) بے قرار کو بے کار لکھ دیتے ہو ایک گھنٹہ بعد سمجھ آیا کہ کیا لکھنا چاہ رہے تھے:)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم اگر اب تم نے ہجے میں اتنی غلطیاں کی تو ماروں گا:) بے قرار کو بے کار لکھ دیتے ہو ایک گھنٹہ بعد سمجھ آیا کہ کیا لکھنا چاہ رہے تھے:)



ہی ہی ہی ٹھیک کر دیا ہے کیا کرے نالائق جو ہوں ایک تو املا بھی ٹھیک نہیں اور اوپر سے جلدی بھی ہوتی ہے :grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک اور غزل میری طرف سے



کوئی آہٹ کہاں سنائی دے
تیری صورت اگر دکھائی دے

تیری آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
گر خدا مجھ کو بھی خدائی دے

ہم اگر مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نا پھر جدائی دے

عقل والے کو عقل دے مولا
عشق والوں کو وہ رہائی دے

جس کی صورت نظر نہیں آتی
اس کی صورت ہمیں دکھائی دے

بات بے بات یوں لگے خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک اور غزل


اس گلی اس مکان سے نکلا
میں بھی تیرے جہاں سے نکلا

اب ترے دل میں جی نہیں سکتا
دم لیا میں چٹان سے نکلا

اس سے آگے بھی سفر کرنا ہے
میں ابھی آسمان سے نکلا

اک پرندہ زمیں کو چھونے لگا
تیر جب ایک کمان سے نکلا

اس قدر مفلسی میں تھا خرم
وہ تو اپنے مکان سے نکلا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اور اس طرح ایک غزل اور آپ کی خدمت میں ہی ہی

بات تو با اصول لگتی ہے
ذات اپنی فصول لگتی ہے

میری آنکھوں سے تم اگر دیکھو
شکل تیری تو پھول لگتی ہے

تجھ سے ملنے کی ایک ساعت بھی
زندگی کا حصول لگتی ہے

میں کہاں اور یہ جمال کہاں
یہ ہماری تو بھول لگتی ہے

زندگی کی یہ رونکیں خرم
تیرے پاؤں کی دھول لگتی ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پہلی غزل

اس قدر بے بسی سے ملتا ہے
وہ بہت کم کسی سے ملتا ہے

یہاں ایطا ہے، دونوں قافیوں میں ’سی‘ مشترک ہو گیا ہے۔
پہلا مصرع یوں کر دو بلکہ اس کو دوسرا مصرع بنا دو تو بہتر لگ رہا ہے:
اتفاقاً کسی سے ملتا ہے
یوہ بہت بے دلی سے ملتا ہے

دل میں لازم ہے نور کا ہونا
راستہ روشنی سے ملتا ہے

میرے بوڑھے کوڑھ مغز میں گھس نہیں سکا کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو اس شعر میں۔ البتہ شعر زبان و بیان کے لحاظ سے بہت صاف ہے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیا مطلب یہ ہے کہ دل میں روشنی ہو تو وہاں تک کوئی راہ بنا ہی لے گا اور پہنچ جائے گا؟؟ شعر میں ابہام برائی نہیں ہے، اس لئے چلنے دو۔۔

اس کی دیکھی ہے میں نے جب صورت
وہ تو ہر آدمی سے ملتا ہے

عجیب ہے محبوب تمہارا، پھر کیا خاص بات ہے اس میں جو تم اس کے پیچھے پڑے ہو، چھوڑو اسے!! مذاق بر طرف۔ پہلا مصرع یوں زیادہ صاف ہو گا۔
جب بھی دیکھی ہے میں نے شکل اس کی
یا
اس کی جب شکل دیکھتا ہوں میں


اس میں تھی سادگی بہت پہلے
اب بھی وہ سادگی سے ملتا ہے

پہلا مصرع یوں بہتر ہے:
اس میں تھی سادگی تو پہلے بھی


ہے تو پیاری بہت مگر خرم
غم بھی تو زندگی سے ملتا ہے

دونوں مصرعوں میں الفاظ کی نشست کچھ جم نہیں رہی۔ ایک تو در اصل ’پیاری‘ زندگی کے لئے کہا گیا ہے مگر یہ لفظ دوسرے مصرعے میں چھ الفاظ کے بعد آیا ہے، اس لئے ابہام ہوتا ہے۔ قاری کو کیوں قلابازی کھلائی جائے!!
یوں تو پیاری ہے زندگی کتنی
غم بھی خرم اسی سے ملتا ہے

اتفاقاً کسی سے ملتا ہے
وہ بہت بے دلی سے ملتا ہے

دل میں لازم ہے نور کا ہونا
راستہ روشنی سے ملتا ہے


اس کی جب شکل دیکھتا ہوں میں
وہ تو ہر آدمی سے ملتا ہے

اس میں تھی سادگی تو پہلے بھی
اب بھی وہ سادگی سے ملتا ہے

یوں تو پیاری ہے زندگی کتنی
غم بھی خرم اسی سے ملتا ہے

سر جی اب ٹھیک ہے یہ
 

الف عین

لائبریرین
خرم۔۔۔ پہلے تمہارے سوال کا جواب۔۔۔ ’وہ بہت بے دلی سے ملتا ہے‘ لکھ رہا تھا۔ باقی غزلیں بعد میں۔
ابھی راجا کا نمبر لگا دیا تھا آج:

کب تلک اس سے سلسلہ رکھوں
شہر سارے سے فاصلہ رکھوں

شہر سارے کی جگہ:
ساری بستی سے فاصلہ رکھوں
کیسا رہے گا۔


بے وفا ہے مگر اسے کیسے
بھولنے کا میں حوصلہ رکھوں

بھولنے کی بجائے
بھول جانے کا حوصلہ رکھوں
بہتر لگ رہا ہے

یہ قبیلہ مرا تو، قاتل ہے
سامنے کس کے اب گلہ رکھوں

درست تو ہے لیکن "مرا تو‘ کھٹک رہا ہے، یوں بھی قاتل تو ایک شخص ہوتا ہے، قبیلہ
میرا اپنا قبیلہ دشمن ہے
کیسا رہے گا؟


کس کی خاطر میں ان منڈیروں پر
پھر چراغوں کو اب جلا رکھوں

ص۔ اچھٓا شعر ہے۔

پھوڑ ڈالوں اسے میں اب راجا
دل پہ کب تک یہ آبلہ رکھوں

پہلے مصرع سے یہ بہتر ہوگا۔

کیوں نہ میں اس کو پھوڑ دوں راجا
اور ’دل پہ‘ کی جگہ
دل میں کب تک یہ آبلہ رکھٓوں
 
Top