ایم اے راجا

محفلین
'خیال' کو ضرور دیکھیئے گا۔

'تری' اور 'مرے' بلافصل مجھے اچھے نہیں لگ رہے، اور 'کون' یا 'ایک' کو 'کوئی' بھی کر کے دیکھیں:

بزم میں تیری پھر مرے ساقی
کوئی غم سے نڈھال آیا ہے

وارث بھائی بہت شکریہ،
واہ کیا بات ہے، میں نے رات چار بجے اس مصرع کو بالکل اسی طرح سوچا تھا، واہ، واہ، کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے:)
وارث بھائی خیال بروزن فاع تو ابھی نہیں ملا، ہاں بروزن فعول ملا ہے۔

نثار اکبرآبادی نے اپنی کتاب شعر اور فنِ شعر کے صفحہ نمبر 119 پر منیر نیازی کے مندرجہ ذیل شعر کی تقطیع یوں کی ہے،

شعر:- اک خیالِ خام میں مسحور رکھا ہے مجھے
خود پرستی نے جہاں سے دور رکھا ہے مجھے


رکن:- فاعلاتن ۔ فاعلاتن ۔ فاعلاتن ۔ فاعلن

سو اگر میری غزل کے مطلع کو یوں کردوں تو کیسا رہے گا؟

آج کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در، ملال آیا ہے


یا

پھر یہ کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در، ملال آیا ہے


وارث بھائی براہِ کرم ذرا مطلع منتخب کریں کہ کون سا بہتر رہے گا میرا خیال ہیکہ دوسرا اچھا لگے گا، کیوں کہ خیال یہ ہیکہ محبوب کا خیال پہلی دفعہ نہیں آیا ہے بلکہ پہلے بھی آتا تھا سو کافی دنوں بعد اب پھر آیا ہے، سو آج کے بجائے پھر کیسا رہے گا؟
 

ایم اے راجا

محفلین
بعد از غیر ماہرانہ پلاسٹک سرجری غزل کی شکل کچھ ایسی نکلی ہے:) وارث بھائی ذرا ملاحظہ کریں، اور استادِ محترم کے پر شفا اور ماہرانہ دست کا انتظار کرتے ہیں:)

پھر یہ کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در ، ملال آیا ہے

کون اترا ہے دِل میں چپکے سے
جو لہو میں اُبال آیا ہے

اس دِلِ مضطرب میں غم تیرا
زندگی کی مثال آیا ہے

اتنے ظلم و ستم پہ بھی جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے

پیار متروک ہو گیا، اب کے
دہر میں کیا زوال آیا ہے

بزم تیری میں پھر مرے ساقی
کوئی غم سے نڈھال آیا ہے

اس کے آنے کے بعد ہی یارو
عشق کو کچھ کمال آیا ہے

سانس چلنے لگی ہے پھرمیری
کون وقتِ وصال آیا ہے

بستی بستی ہے روشنی راجا
کون یہ خوش جمال آیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
لو ہو گیا اس کا کام بھی
پھر یہ کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در ، ملال آیا ہے

///پہلا مصرع اب درست ہے، ۔لیکن دوسرا مصرع؟؟ کیا مطلب یہ ہے کہ ’سوچ میں ملال در آیا ہے‘۔ لیکن ’در ملال‘ ان معنوں میں اچھا نہیں لگ رہا۔
اس صورت میں ’ملال‘ قافیہ بھی فٹ نہیں ہوتا۔ یوں کیا جائے تو کیسا رہے:
لو پھراُس کا خیال آیا ہے
بوئےگل کی مثال آیا ہے

کون اترا ہے دِل میں چپکے سے
جو لہو میں اُبال آیا ہے

///یوں تو شعر اچھا ہے، اصلاح کی ضرورت نہیں، لیکن میں شاید اسے یوں کہتا:
کون/کوئی چپ چاپ دل میں اترا ہے
کیوں لہو میں ابال آیا ہے


اس دِلِ مضطرب میں غم تیرا
زندگی کی مثال آیا ہے

///درست ہے، لیکن مطلب واضح نہیں۔ دل میں زندگی کیسے آتی ہے، معلوم نہیں!!

باوجودِ ستم بھی اے جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے

/// باوجودِ ستم اچھا نہیں لگتا۔
اتنے ظلم و ستم پہ بھی جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے

پیار متروک ہو گیا، اب کے
دہر میں کیا زوال آیا ہے

//پیار کا متروک ہونے سے کیا مراد ہے۔ یہ واضح تو نہیں لیکن شعر درست ہے۔

بزم تیری میں پھر مرے ساقی
کوئی غم سے نڈھال آیا ہے

// ہاں، یہ شعر اب ٹھیک ہے بس ذرا پہلا مصرع رواں نہیں۔ میں ’م‘ کی تکرار کے باوجود اس مصرع کو یوں پسند کرتا:
پھر تری بزم میں مرے ساقی
یا یہ سقم دور کیا جائے تو:
بزم میں پھر تری مرے ساقی


اس کے آنے کے بعد ہی یارو
عشق کو کچھ کمال آیا ہے

///اچھا شعر ہے اور درست۔

سانس چلنے لگی ہے پھرمیری
کون وقتِ وصال آیا ہے

واہ راجا، اچھا شعر نکالا۔ ’وصال‘ کی ذو معنویت لطف دے رہی ہے۔

بستی بستی ہے روشنی راجا
کون سا خوش جمال آیا ہے
یہ بھی درست ہے اور اچھا شعر ہے، مزید بہتر ہو سکتا ہے اگر دوسرے مصرع میں ’کون سا‘ کی بجائے ’کون یہ‘ کر دو تو۔۔
بستی بستی ہے روشنی راجا
کون یہ خوش جمال آیا ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ استادِ محترم، میں معافی چاہتا ہوں مگر مجبور ہو کہنے کے لیئے کہ مطلع میں میرا خیال کسی اور طرف کو ہے، جب اچانک بیٹھے بیٹھے کسی بچھڑنے والے کا خیال آتا ہے تو، سوچ میں ایک غم اور اس کے بچھڑنے کا ملا در آتا ہے، سو میرا اشارہ اس طرف ہے، ذرا غور کیجیئے گا مجھے مطلع بہت اچھا لگا ہے اور حقیقی خیال پر مبنی ہے۔
میں معافی چاہتا ہوں مگر استادِ محترم بس مطلع تبدیل کرنے کو جی نہیں چاہ رہا، ایک بار پھر معذرت امید ہیکہ ناراض نہیں ہوں گے بلکہ میرے خیال کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک مزید تازہ غزل عرض ہے،

یوں وہ دل کے حصار سے نکلا
جیسے اجڑے دیار سے نکلا

ایک تارہ نظر میں رہتا تھا
آج وہ بھی مدار سے نکلا

صد شکر ہے خدا کا، میں تیرے
درد کے اُس حصار سے نکلا

روح کس کا یہ آج پھر دل کے
اِک پرانے مزار سے نکلا

ایک پل کے لیئے نہ لوٹا وہ
یوں دلِ بے قرار سے نکلا

پھول جلنے لگے ہیں گلشن کے
بیر کس کا بہار سے نکلا

کب ملا ہے سکون پھر راجا
جب کبھی بزمِ یار سے نکلا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے بارے میں کچھ مزید سوچتا ہوں، لیکن ملال آیا ہے تو فٹ ہونا مشکل لگتا ہے۔
نئی گزل بھی بعد میں دیکھتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
خیر ہی خیر ہے ہماری حد تک۔ البتہ ہندوستان میں کل بنگلور میں 9 عد، اور آج شام احمد آباد میں 13 دھماکے ہوئے ہیں۔ 29 کی ہلاکت کی خبر ہے۔ اللہ سب کو اپنے امان میں رکھے۔
 

الف عین

لائبریرین
یوں وہ دل کے حصار سے نکلا
جیسے اجڑے دیار سے نکلا
ٹھیک ہے
ایک تارہ نظر میں رہتا تھا
آج وہ بھی مدار سے نکلا
اچھا ہے راجا
صد شکر ہے خدا کا، میں تیرے
درد کے اُس حصار سے نکلا
یہاں شکر میں کاف پر سکون نہیں، زبر کے ساتھ بحر میں آتا ہے جو غلط ہے۔ اسے یوں کر دو
رب کا صد شکر ہے کہ میں تیرے

روح کس کا یہ آج پھر دل کے
اِک پرانے مزار سے نکلا
روح تو مؤنث ہوتی ہے راجا۔ اس لحاظ سے یہاں قافیہ درست تبھی ہو سکتا ہے جب روح کی جگہ ’بھوت‘ہو!! جو ظاہر ہے مزاحیہ لگتا ہے۔ اس لئے اس شعر کو نکال ہی دو۔

ایک پل کے لیئے نہ لوٹا وہ
یوں دلِ بے قرار سے نکلا
کون؟؟ شعر کی تفہیم نہیں ہو رہی جو کچھ سوچا جائے

پھول جلنے لگے ہیں گلشن کے
بیر کس کا بہار سے نکلا
ٹھیک ہے۔

کب ملا ہے سکون پھر راجا
جب کبھی بزمِ یار سے نکلا
یہاں ’پھر‘ حشو و زائد ہے، اور اگر پھر کو درست مانا جائے تو دوسرے مصرعے کا ’کبھی‘ غلط ہو جاتا ہے۔ اگر راجا کو محض تخلص مانا جائے ، یعنی ’راجا جب کبھی بزمِ یار سے نکلا‘ تو سوال اٹھ سکتا ہے کہ سکون کس کو ملا۔۔ یار کو؟؟؟ بہتر تفہیم یوں ممکن ہے:
پھر سکوں مل سکا نہ راجا کو
جب بھی وہ بزمِ یار سے نکلا
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ، استادِ محترم، میں اس کو درست کرتا ہوں، مگر اسی قافیہ اور ردیف میں ایک اور غزل عرض ہے۔

کب میں تیرے خمار سے نکلا
درد و غم کے حصار سے نکلا

آگیا جو بھی شہر میں تیرے
پھر نہ وہ اس دیار سے نکلا

بکھرے ہیں دھوکے اتنے راہوں میں
اب یقیں اعتبار سے نکلا

آنکھ کی لغزشوں نے مارا ہے
ضبط کے کب مدار سے نکلا

شام ڈھلتے ہی درد بھی تیرا
رات کے پھر مزار سے نکلا

ذات تیری میں گم رہتا ہوں میں
آگے کب اس غبار سے نکلا

رات کے پچھلے پہر رویا ہوں
کب فراقِ بہار سے نکلا

بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے اتنے وہ پیار سے نکلا
 

الف عین

لائبریرین
کب میں تیرے خمار سے نکلا
درد و غم کے حصار سے نکلا

///دونوں مصرعوں میں ربط نظر نہیں آتا۔ شعر درست نہیں۔

آگیا جو بھی شہر میں تیرے
پھر نہ وہ اس دیار سے نکلا

///دیار اور شہر ہم معنی نہیں ہو سکتے۔ مطلب یہ کہ اگر مطلب یہ ہے کہ محبوب کے دیار سے نہ نکل سکا تو ضروری نہیں کہ جو بھی شہر میں داخل ہو، وہ محبوب کے گھر میں بھی داخل ہو۔ شہر کی جگہ کوچہ کر دیں تو یہ مکاں کا مسئلہ درست ہو سکتا ہے، یعنی اس طرح پہلا مصرع ہو
آ گیا جو بھی تیرے کوچے میں

اور ’پھر نہ وہ‘ کہ بہ نسبت مجھے روانی اس مصرع میں لگ رہی ہے:
وہ نہ پھر اس دیار سے نکلا

بکھرے ہیں دھوکے اتنے راہوں میں
اب یقیں اعتبار سے نکلا

/// ’دھوکےّ کی ’ے‘ کا گرنا درست تو ہے لیکن بھلا نہیں لگ رہا ہے خاص کر اس لیے کہ اس سے پہلے ’بکھرے‘ کی بھی ے گری ہے۔ اس کو محض یوں کر دو
اتنے دھوکے ہیں آج راہوں میں

آنکھ کی لغزشوں نے مارا ہے
ضبط کے کب مدار سے نکلا

/// ضبط کے مدار سے کیا نکلا؟ مطلب واضح نہیں۔ دوبارہ کہو۔

شام ڈھلتے ہی درد بھی تیرا
رات کے پھر مزار سے نکلا

/// وہی بات جو میں کہتا ہوں۔ الفاظ کی نشست کا خیال رکھا کرو۔ ویسے بھی اس شعر کا بھی مطلب واضح نہیں۔ رات کے مزار سے محبوب کے درد کا نکلنا۔۔ کیا منظر ہے یہ؟ رات کا مزار تو یوں بھی صبح سے متعلق ہونا چاہیے جب رات مر چکی ہو۔ یہ بھی پھر کہو۔

ذات تیری میں گم رہتا ہوں میں
آگے کب اس غبار سے نکلا

/// بحر سے کارج ہے، ’رہتا‘ کی جگہ محض ’رتا‘ وزن میں آ رہا ہے۔ اور ’ذات تیری میں‘ میں وہی الفاظ کی غلط نشست کا ثبوت ہے جس سے مصرع کی روانی مجروح ہوتی ہے۔ دوسرے مصرع میں ’آگے‘ تفہیم میں مزید مشکل کر رہا ہے۔ اگر غبار سے مراد محبوب کی ذات ہی ہے تو محض یوں کہو:
تیری ہستی میں گم رہا ہوں سدا
کب میں اس کے غبار سے نکلا

رات کے پچھلے پہر رویا ہوں
کب فراقِ بہار سے نکلا

///یہاں ’پہر‘ کا تلفظ غلط ہے۔ ’پِہِر‘ درست ہے۔
پھر میں رویا ہوں شب کے پچھلے پہر
کب فراقِ بہار سے نکلا

بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے اتنے وہ پیار سے نکلا

///مطلب تو اس کا بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لیکن زبان و بیان کے حساب سے اصلاح کر رہا ہوں:
بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے وہ اتنے پیار سے نکلا

اور ہاں پچھلی غزل کو بھی دوبارہ دیکھا تو لگا
ایک تارہ نظر میں رہتا تھا
آج وہ بھی مدار سے نکلا
/شعر درست، لیکن سائنس غلط۔ مدار سیاروں کا ہوتا ہے، ستاروں کا اپنا نظام ہوتا ہے، ہاں کچھ ستارے بھی متحرک رہتے ہیں لیکن ان کی گردش مدار پر نہیں ہوتی۔ محض ’سیر‘ ہوتی ہے۔ اس کے قطعِ نظر شعر اچھا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ استادِ محترم، پچھلی غزل کو درست کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ذرا ملاحظہ ہو،


یوں وہ دل کے حصار سے نکلا
جیسے اجڑے دیار سے نکلا

ایک تارہ نظر میں رہتا تھا
آج وہ بھی مدار سے نکلا

رب کا صد شکر ہے کہ میں تیرے
درد کے اُس حصار سے نکلا


ایک پل کے لیئے نہ لوٹا وہ
یوں دلِ بے قرار سے نکلا

ایسا اترا ہے دل میں غم تیرا
پھر نہ یہ اس مزار سے نکلا

پھول جلنے لگے ہیں گلشن کے
بیر کس کا بہار سے نکلا

کب ملا ہے سکون پھر راجا
جب بھی میں بزمِ یار سے نکلا
 
Top