ایم اے راجا
محفلین
بہت شکریہ اعجاز صاحب آپ نے تو میری غزل کو چار بلکہ آٹھ چاند لگا دیئے ہیں، شکریہ۔
بہت شکریہ سر کیا بات ہے راجا بھائی اب اس غزل کو مکمل کر کے پھر ارسال کرو جلدی سے
کوئی آہٹ کہاں سنائی دےخرم۔۔ ایک غزل کا آپریشن ہو گیا ہے، ملاحظہ ہو:
کوئی آہٹ کہاں سنائی دے
تیری صورت اگر دکھائی دے
*** درست تو ہے، لیکن ’مگر‘ کی جگہ ’جب‘ کا محل ہے۔
جب بھی صورت تری دکھائی دے، اور کیوں کہ ت۔ت کی تکرار بھی عیب ہے، اس لئے مزید بہتر
جب بھی چہرہ ترا دکھائی دے
تیری آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
گر خدا مجھ کو بھی خدائی دے
*** اسلام کے منافی شعر مت کہا کرو خرم،
"اس کی آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
مجھ کو وہ اتنی تو رسائی دے " کیسا رہے گا۔
ہم اگر مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نا پھر جدائی دے
*** یہاں وزن میں بھی ’نہ‘ ہوتا ہے اور تقطیع میں بھی یہی آتا ہے، پھر ’نا‘ کیا محض املا کی غلطی ہے؟
اب جو ہم مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نہ پھر جدائی دے
زیادہ واضح مطلب دیتا ہے۔
عقل والے کو عقل دے مولا
عشق والوں کو وہ رہائی دے
*** بات واضح نہیں ہوئی کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔
جس کی صورت نظر نہیں آتی
اس کی صورت ہمیں دکھائی دے
*** کیا تصوف کی دنیا میں چل دئے خرم؟؟ شعر ویسے درست ہے۔ لیکن تصوف ذرا دشوار گزار راہ ہے میاں۔
بات بے بات یوں لگے خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
*** یہاں ’بات بے بات ‘خلاف محاورہ استعمال لگ رہا ہے۔ اصک مطلب ہوتا ہے کہ بلا مقصد، بغیر ضرورت، خواہ مخواہ۔۔۔ جیسے وہ بات بے بات پہ ناراض ہوتا ہے، یعنی کوئی بات ہو یا نہ ہو۔۔۔ یہاں اگر چہ کچھ حد تک مطلب وہی ہے، لیکن بات لفظ کے مطلب کی طرف بھی اگر قاری/سامع کا دھیان چلا جائے تو وہ سوچ میں پڑ سکتا ہے کہ ’بے بات‘ میں کیسے آواز آئے گی؟ اس صورت میں ایک متبادل شکل یوں ہو سکتی ہے:
بات کوئی کرے، ہمیں خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
یا چاہو تو اسی صورت میں چلنے دو۔۔ تمہاری مرضی پہ چھوڑتا ہوں۔
دوسری غزل بھی ابھی مکمل کر دی:
زندگی میں بہت عذاب آئے
مر چکے ہم تو پھر جناب آئے
*** جناب کون؟ منکر نکیر؟ ’تو پھر جناب آئے‘ سمجھ میں نہیں آ رہا۔
شام آئے مگر سکوں کب ہے
تب سکوں آئے جب شراب آئے
*** یہ بات بھی ہے؟؟؟، مذاق بر طرف، ’شام آئے‘ سے اظہار تمنائی لگتا ہے، لیکن دوسرے مصرع سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ماضی کی بات ہے کہ شام آ بھی گئی لیکن سکون نہیں ملا۔ یہ مفہوم، اگر ہے تمہارا، تو یوں کہو:
کوئ مصرع چن لو جو اچھا لگے:
شام آئی بھی تو سکوں نہ ملا
شام بھی کب سکوں بدوش آئی
شام کیا آئی جب سکوں نہ ملے
چین آیا نہ شام/ رات آتے ہی
چین آیا نہ، شام تو آئی
یاد آتے نہیں ہو تم لیکن
یاد آئے تو بے حساب آئے
*** مزے کا شعر ہے، صاف ستھرا
ہر زباں پر رہے تو بس اردو
ایک دن یوں بھی انقلاب آئے
پہلا مصرع ’صرف اردو ہر اک زباں پہ رہے ‘ کیسا رہے گا، یہاں بھی ’پر رہے‘ خوش گوار نہیں لگتا۔
اور ایک اور صورت:
ہر زباں پر زبانِ اردو ہو
اب تو کچے مکاں کہاں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے
*** یہاں بھی پہلے مصرع میں کہنا یہ چاہ رہے ہو کہ چناب کے سیلاب کی وجہ سے کچے مکان بہہ چکے ہیں، اب کہاں بچے ہیں، مگر اتنا قاری کی سمجھ کے لئے مت چھورو، واری میری طرح بیوقوف بھی ہو سکتا ہے۔
کچے گھر کس طرح بچیں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے
کچھ بہتر ہو سکتا ہے
استادِ محترم و احباب، السلام علیکم، کافی دنوں بعد ایک نا پختہ آمد ہوئی ہے عرض کرتا ہوں،
آج پھر کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در ، ملال آیا ہے
کون اترا ہے دِل میں چپکے سے
جو لہو میں اُبال آیا ہے
اس دِلِ مضطرب میں غم تیرا
زندگی کی مثال آیا ہے
باوجودِ ستم بھی اے جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے
پیار متروک ہو گیا، اب کے
بستی میں کیا زوال آیا ہے
بزم میں پھر تری ارے ساقی
کون غم سے نڈھال آیا ہے
اس کے آنے کے بعد ہی یارو
عشق کو کچھ کمال آیا ہے
سانس چلنے لگی ہے پھرمیری
کون وقتِ وصال آیا ہے
بستی بستی ہے روشنی راجا
کون سا خوش جمال آیا ہے