الف عین

لائبریرین
باقی تو ٹھیک ہے راجا لیکن اس شعر کا میں نے پہلے بھی لکھا تھا:
ایک پل کے لیئے نہ لوٹا وہ
یوں دلِ بے قرار سے نکلا
کون؟؟ شعر کی تفہیم نہیں ہو رہی جو کچھ سوچا جائے
 

الف عین

لائبریرین
تمہارے ذہن میں مطلب کیا تھا، یہ سمجھ میں آئے تو کچھ سوچوں اصلاح کا۔
کون دلِ بے قرار سے نکلا جو پھر لوٹ نہیں سکا؟
 

ایم اے راجا

محفلین
شاعر کا خیال ہیکہ میرا محبوب میرے بے قرار دل سے یو ں نکلا کہ پھر ایک پل کے لیئے بھی لوٹ کر نہیں آیا، " وہ " اشارہ محبوب کی طرف ہے ، اگر نام لے لیا تو جوتے ہی جوتے:)
 

الف عین

لائبریرین
تو پھر اچھا ہی ہے نا۔ خس کم جہاں پاک۔ خواہ مخواہ محبوب دل میں جما بیٹھا تھا اور شاعر کو بے قرار کر رہا تھا۔ اب نکلا تو دل کو قرار آ جانا چاہیے نا!!
مزاق بر طرف۔ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب محبوب دل سے نکل گیا تو شاعر کو اس سے محبت اب کیوں رہے گی۔ اور پھر وہ پلٹ کر بھی کیوں آئے گا؟ شعر اس لحاظ سے عجیب سا نہیں؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جی سر میں بھی حاصر ہوں ایک غزل لے کر

گو غزل بھی خیال ہے تیرا
اس میں شامل جمال ہے تیرا

میرے ہاتھو مین کچھ نہیں لیکن
شعر مین تو کمال ہے تیرا

ہر غزل حسن پر ترے کہہ دی
حُسن پھر بھی بحال ہے تیرا

ہم تیری گفتگو نہیں کرتے
ہم پہ لازم خیال ہے تیرا

دل سے خرم امیر لگتے ہو
اور فقیروں سا حال ہے تیرا
 

الف عین

لائبریرین
یہ بھی دیکھ لو آپریشن کے بعد:

گو غزل بھی خیال ہے تیرا
اس میں شامل جمال ہے تیرا
درست
میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں لیکن
شعر میں تو کمال ہے تیرا
درست
ہر غزل حسن پر ترے کہہ دی
حُسن پھر بھی بحال ہے تیرا
سمجھ میں نہیں آیا۔ کیا غزل کہنے میں حسن پر جھاڑو پھر جانی چاہیے تھی؟
ہم تری گفتگو نہیں کرتے
ہم پہ لازم خیال ہے تیرا
تیری نہیں، ’تری‘ کا محل ہے

دل سے خرم امیر لگتا ہے
اور فقیروں سا حال ہے تیرا
’تیرا‘ کے ساتھ ’لگتے ہو‘ صیغہ کی گڑبڑ ہے، اسے ’لگتا ہے‘ کر دیا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سر جی بہت دنوں کے بعد ایک غزل پیش کرتا ہوں



جیت جانا بھی ہار جیسا ہے
شہرِ گل اب کے خار جیسا ہے

اک طرف لوگ جل رہے ہیں اور
حاکمِ وقت نار جیسا ہے

روشنی میں بھی اب نہیں روشن
میرا چہرہ غبار جیسا ہے

کس کے ہاتھوں میں ہے ہُنر لوگو؟
کون اب تک بہار جیسا ہے؟

اپنا حق مانگتے ہوئے خرم
تیرا لہجہ تو زار جیسا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اب کافی بہتری آ رہی ہے خرم۔ مبارک۔۔ اس لئے اب تمہاری اس غزل کا اچار نہیں ڈال رہا کہ فرصت میں دیکھوں۔ ابھی سہی۔
پہلی بات۔۔۔ بحر و اوزان بالکل درست ہیں۔

جیت جانا بھی ہار جیسا ہے
شہرِ گل اب کے خار جیسا ہے
شہر گل پورا کا پورامحض ایک خار کی طرح کیسے ہو سکتا ہے۔ جب تشبیہ دیہ جاتی ہے تو دو اشیاء میں کچھ مماثلت تو ضروری ہے۔دوسرے مصرع کو یوں کر دو
شہرِ گل دشتِ خار جیسا ہے

اک طرف لوگ جل رہے ہیں اور
حاکمِ وقت نار جیسا ہے
یہاں بھی وہی مسئلہ۔ جیتا جاگتا آدمی اور نار؟؟؟ یوں بھی سارے ہندوستانی الفاظ میں یہ اجنبی لفظ لگ رہا ہے۔ شعر کیوں کہ خاص بھی نہیں۔ اس لئے اسے نکال ہی دو، اور کچھ اشعار اور کہو۔

روشنی میں بھی اب نہیں روشن
میرا چہرہ غبار جیسا ہے
واہ۔۔ جیو خرم۔ خوب کہا۔

کس کے ہاتھوں میں ہے ہُنر لوگو؟
کون اب تک بہار جیسا ہے؟
کیا بہار کا کام ہنر مندی کا ہے؟ یا شاید یہ مطلب ہے کہ محبوب بہار جیسا ہے (اب تک۔۔۔ کیا نڑھاپا آ چکا محبوب پر؟؟؟( اور اس کے حسن کا یہ جلوہ خدا تعالیٰ کی ہنر مندی کی مثال ہے؟؟ اگر واقعی یہی مطلب ہے تو شعر واضح نہیں۔ کچھ سوچو اس سلسلے میں۔

اپنا حق مانگتے ہوئے خرم
تیرا لہجہ تو زار جیسا ہے
Czar?
لیکن زار بطور حاکم عالمی تاریخ سے واقف تو سمجھ سکتا ہے، عام ہندوستانی پاکستانی شاید نہیں۔ شعراچھا ہے ویسے۔ چلنے دو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم و جان سے پیارے ساتھیو السلام علیکم،
کافی دن پریشانیوں میں گھرا رہا کہ اہلیہ کی طبیعت کافی خراب تھی اللہ اللہ کر کے 29 اگست کو ایک پیچیدہ آپریشن کے بعد اللہ نے خاص کرم کرتے ہوئے بیٹے کی نعمت سے نوازا اور اہلیہ کو بھی اچھا بھلا کر دیا۔ آج محفل پر حاضر ہوا ہوں، پچھلی غزل میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، سو دوبارہ حاضرِ خدمت ہے،

کب میں تیرے خمارسے نکلا
عشق کے اس حصار سے نکلا

آگیا جو بھی کوچے میں تیرے
وہ نہ پھر اس دیار سے نکلا

اتنے دھوکے ہیں راہ میں بکھرے
اب یقیں اعتبار سے نکلا

لغزشِ آنکھ نے بہت چا ہا
میں مگر نہ مدار سے نکلا

رات ڈھلتے ہی درد بھی تیرا
دل کے اجڑے مزار سے نکلا

تیری ہستی میں گم رہا ہوں میں
آگے نہ اس غبار سے نکلا

آخرِ شب میں، پھر سے رویا ہوں
کب خیالِ بہار سے نکلا

بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے وہ اتنے پیار سے نکلا​
 
Top