الف عین

لائبریرین
استادِ محترم و جان سے پیارے ساتھیو السلام علیکم،
کافی دن پریشانیوں میں گھرا رہا کہ اہلیہ کی طبیعت کافی خراب تھی اللہ اللہ کر کے 29 اگست کو ایک پیچیدہ آپریشن کے بعد اللہ نے خاص کرم کرتے ہوئے بیٹے کی نعمت سے نوازا اور اہلیہ کو بھی اچھا بھلا کر دیا۔ آج محفل پر حاضر ہوا ہوں، پچھلی غزل میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، سو دوبارہ حاضرِ خدمت ہے،

کب میں تیرے خمارسے نکلا
عشق کے اس حصار سے نکلا

آگیا جو بھی کوچے میں تیرے
وہ نہ پھر اس دیار سے نکلا

اتنے دھوکے ہیں راہ میں بکھرے
اب یقیں اعتبار سے نکلا

لغزشِ آنکھ نے بہت چا ہا
میں مگر نہ مدار سے نکل
ا

رات ڈھلتے ہی درد بھی تیرا
دل کے اجڑے مزار سے نکلا

تیری ہستی میں گم رہا ہوں میں
آگے نہ اس غبار سے نکلا

آخرِ شب میں، پھر سے رویا ہوں
کب خیالِ بہار سے نکلا

بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے وہ اتنے پیار سے نکلا​

پہلے تو مبارک باد قبول کرو راجا۔ ہمیں دادا بنانے کا شکریہ!!
اب اس غزل کو۔ اصل غزل پھر ڈھونڈنی پڑی۔ لیکن جہاں میں نت مفہوم واضح نہ ہونے کی بات کی تھی، وہ مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔
اوپر سرخ اشعار کو دیکھو۔
لغزشِ آنکھ نے بہت چا ہا
میں مگر نہ مدار سے نکلا
لغزشِ آنکھ؟؟؟ آنکھ ہندی ہے اور لغزش فارسی، ان کا اضافتی مرکب نہیں بن سکتا۔ لغزش چشم کر سکتے ہو اس کو۔ لیکن دوسرا مصرع۔ یہاں ’نہ‘ پھر بر وزن ’نا‘ آتا ہے جو مجھے گوارا نہیں۔ اس کو یوں کہو
میں نہ پھر بھی مدار سے نکلا۔
مطلب اگر چہ اب بھی واضح نہیں ہے، میں نے صرف زبان و بیان کی اصلاح کی ہے۔
اگلے شعر کے ،مرع
آگے نہ اس غبار سے نکلا
میں بھی وہی ’نا‘ والا سقم ہے۔ اس کو تو اس طرح مشورہ دیا تھا نا میں نے:
کب میں اس کے غبار سے نکلا
باقی تم نے میری اصلاحات قبول کر ہی لی ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم آپکو بھی مبارک ہو، بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے مجھے یہ مقام بخشا کہ میرے بیٹے سے دادا کا رشتہ قائم کیا، آپ کی دعاؤں کا طلبگار ہوں، بہت شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اب کافی بہتری آ رہی ہے خرم۔ مبارک۔۔ اس لئے اب تمہاری اس غزل کا اچار نہیں ڈال رہا کہ فرصت میں دیکھوں۔ ابھی سہی۔
پہلی بات۔۔۔ بحر و اوزان بالکل درست ہیں۔

جیت جانا بھی ہار جیسا ہے
شہرِ گل اب کے خار جیسا ہے
شہر گل پورا کا پورامحض ایک خار کی طرح کیسے ہو سکتا ہے۔ جب تشبیہ دیہ جاتی ہے تو دو اشیاء میں کچھ مماثلت تو ضروری ہے۔دوسرے مصرع کو یوں کر دو
شہرِ گل دشتِ خار جیسا ہے

اک طرف لوگ جل رہے ہیں اور
حاکمِ وقت نار جیسا ہے
یہاں بھی وہی مسئلہ۔ جیتا جاگتا آدمی اور نار؟؟؟ یوں بھی سارے ہندوستانی الفاظ میں یہ اجنبی لفظ لگ رہا ہے۔ شعر کیوں کہ خاص بھی نہیں۔ اس لئے اسے نکال ہی دو، اور کچھ اشعار اور کہو۔

روشنی میں بھی اب نہیں روشن
میرا چہرہ غبار جیسا ہے
واہ۔۔ جیو خرم۔ خوب کہا۔

کس کے ہاتھوں میں ہے ہُنر لوگو؟
کون اب تک بہار جیسا ہے؟
کیا بہار کا کام ہنر مندی کا ہے؟ یا شاید یہ مطلب ہے کہ محبوب بہار جیسا ہے (اب تک۔۔۔ کیا نڑھاپا آ چکا محبوب پر؟؟؟( اور اس کے حسن کا یہ جلوہ خدا تعالیٰ کی ہنر مندی کی مثال ہے؟؟ اگر واقعی یہی مطلب ہے تو شعر واضح نہیں۔ کچھ سوچو اس سلسلے میں۔

اپنا حق مانگتے ہوئے خرم
تیرا لہجہ تو زار جیسا ہے
Czar?
لیکن زار بطور حاکم عالمی تاریخ سے واقف تو سمجھ سکتا ہے، عام ہندوستانی پاکستانی شاید نہیں۔ شعراچھا ہے ویسے۔ چلنے دو۔

جیت جانا بھی ہار جیسا ہے
شہرِ گل دشتِ خار جیسا ہے

روشنی میں بھی اب نہیں روشن
میرا چہرہ غبار جیسا ہے


ہر طرف چھا گئی خزا لیکن
وہ تو اب بھی بہار جیسا ہے


اپنا حق مانگتے ہوئے خرم
تیرا لہجہ تو زار جیسا ہے



اب کیا کہتے ہیں آپ سر جی
 

آصف شفیع

محفلین
غزل وزن میں ہے، بہت خوب۔

دل میں لازم ہے نور کا ہونا
راستہ روشنی سے ملتا ہے

یہ شعر بہت اچھا ہے، دوسرے اشعار کے مقابلے میں بہت رواں ہے۔

دیگر اشعار بہتری چاہتے ہیں۔ مفصل پوسٹ مارٹم کیلیئے اعجاز صاحب سے درخواست ہے۔

وارث صاحب، آپ نے اس بحر کے مختلف اوزان سے روشناس کروایا، بہت شکریہ۔ اس سے نئے لکھنے والوں کی تربیت کا عمل جاری رہتا ہے۔ خرم کے غزل کے اشعار کے دوسرے مصرعے بہت رواں ہیں لیکن آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ اس بحر کے ان آٹھوں اوزان کی فردا فردا اشعار کے ساتھ مثالیں دے دیں تو یہ اوزان سمجھنے میں اور آسانی ہو جائے گی۔شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب، آپ نے اس بحر کے مختلف اوزان سے روشناس کروایا، بہت شکریہ۔ اس سے نئے لکھنے والوں کی تربیت کا عمل جاری رہتا ہے۔ خرم کے غزل کے اشعار کے دوسرے مصرعے بہت رواں ہیں لیکن آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ اس بحر کے ان آٹھوں اوزان کی فردا فردا اشعار کے ساتھ مثالیں دے دیں تو یہ اوزان سمجھنے میں اور آسانی ہو جائے گی۔شکریہ


شکریہ آصف صاحب۔

اس بحر میں جو آٹھ اوزان جمع ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

1- فاعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)

2- فَعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)

3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)

4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)

5- فاعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

6- فَعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)


امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)

شعر فیض

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے


دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند

دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4


شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5

شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔


شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔


شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

یوں آٹھوں اوزان کی امثال ہمیں مل گئیں۔

ان اشعار کی تقطیع میں نے چھوڑ دی ہے، یقیناً آپ سمجھ جائیں گے، ہاں اگر دیگر احباب ان اشعار کی تقطیع جاننا چاہیں تو انشاءاللہ وہ بھی لکھ دونگا۔

والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکریہ آصف صاحب۔

اس بحر میں جو آٹھ اوزان جمع ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

1- فاعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)

2- فَعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)

3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)

4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)

5- فاعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

6- فَعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)

8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)


امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)

شعر فیض

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فاعلاتن آ ءکچ اب مفاعلن رکچ شرا علن ب ا ئے
فاعلاتن اس ک بع آ مفاعلن ءجو عذا فعلن ب ا ئے


دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
فعِلاتن ن گئی تے مفاعلن ر غم ک سر فعلن داری
فاعلاتن دل م یو رو مفاعلن زان قلا فعلن ب ا ئے


اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

فاعلاتن جل اٹے بز مفاعلن م غی ر فعلان رر و بام
فاعلاتن جب ب ہم خا مفاعلن نما خرا فعلن ب ا ئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند
فعلاتن ن ت مے لع مفاعلن ل یا رکے فعلان مانند


دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4


شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے


پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5

شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔


شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔


شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

یوں آٹھوں اوزان کی امثال ہمیں مل گئیں۔

ان اشعار کی تقطیع میں نے چھوڑ دی ہے، یقیناً آپ سمجھ جائیں گے، ہاں اگر دیگر احباب ان اشعار کی تقطیع جاننا چاہیں تو انشاءاللہ وہ بھی لکھ دونگا۔

والسلام

شعر فیض

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فاعلاتن آ ءکچ اب مفاعلن رکچ شرا علن ب ا ئے
فاعلاتن اس ک بع آ مفاعلن ءجو عذا فعلن ب ا ئے


دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
فعِلاتن ن گئی تے مفاعلن ر غم ک سر فعلن داری
فاعلاتن دل م یو رو مفاعلن زان قلا فعلن ب ا ئے


اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

فاعلاتن جل اٹے بز مفاعلن م غی ر فعلان رر و بام
فاعلاتن جب ب ہم خا مفاعلن نما خرا فعلن ب ا ئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند
فعلاتن ن ت مے لع مفاعلن ل یا رکے فعلان مانند


دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4


شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے


پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5

شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔


شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔


شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

یوں آٹھوں اوزان کی امثال ہمیں مل گئیں۔

ان اشعار کی تقطیع میں نے چھوڑ دی ہے، یقیناً آپ سمجھ جائیں گے، ہاں اگر دیگر احباب ان اشعار کی تقطیع جاننا چاہیں تو انشاءاللہ وہ بھی لکھ دونگا۔

والسلام


کچھ سمجھ آئی ہے اور کچھ سمجھ نہیں آئی میں نے کچھ کی تقطع کر دی ہے غلط ہے یا ٹھیک یہ بتا دے باقی پرنٹ نکال لیا ہے گھر جا کر اس کو بھی دیکھ لوں گا آفس میں وقت نہیں ملتا آج کل
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب میں تقطیع لکھ دیتا ہوں، آپ نے جو اشعار کی تقطیع کی ہے اسکے ساتھ اسکا موازنہ کریں، میں کچھ وضاحت بھی لکھتا ہوں۔

شعر فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)

آ ء کچ اب - فاعلاتن
ر کچ شرا - مفاعلن
با ئے - فعلن (یہاں الفِ وصل کا استعمال ہوا ہے، مطلع اور اس غزل کے دیگر تمام اشعار کی ردیف میں الفِ وصل استعمال ہوا ہے۔ 'آ' میں دو الف ہوتے ہیں سو شراب کی 'ب' کو 'آ' کا ایک لفظ ساقط کر کے ('ب آئے' جو اس بحر کے وزن سے باہر ہے کو) 'با ئے' بنا لیا اور یوں وزن پورا ہو گیا۔

اس کِ بع دا - فاعلاتن (الفِ وصل نوٹ کریں)
ء جو عذا - مفاعلن
بائے - فعلن


شعرِ فیض
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

تقطیع
نہ گئی تے - فعلاتن
رِ غم کِ سر - مفاعلن
داری - فعلن

دل مِ یو رو - فاعلاتن
ز انقلا - مفاعلن
بائے - فعلن


شعرِ فیض
جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔

جل اٹھے بز - فاعلاتن
م غیر کے - مفاعلن
در بام - فعلان (نوٹ کریں کہ اضافت 'و' کو وزن میں محسوب کرنا یا نہ کرنا شاعر کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ 'در و بام' کو 'دَ رو بام' یعنی مفاعیل بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن وہ اس بحر کے وزن سے باہر ہوتا سو یہاں فیض نے 'و' کو محسوب نہیں کیا اور 'در و بام' کو 'در بام' یعنی فعلان بنایا اور وزن پورا ہو گیا۔

جب بِ ہم خا - فاعلاتن
نما خرا - مفاعلن
بائے - فعلن


شعر مصحفی
نہ تو مے لعلِ یار کے مانند
نہ گل اس کے عذار کے مانند

دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4

نہ تُ مے لع - فعلاتن
ل یار کے - مفاعلن
مانند (ما نن د) - فعلان

نہ گُ لس کے - فعلاتن (الفِ وصل کی خوبصورتی دیکھیں، 'گل اس' وزن سے باہر ہے لیکن الف ساقط کر کے 'گُ لُس' سے وزن پورا ہو گیا۔)
عذار کے - مفاعلن (عِذَار عربی لفظ ہے مطلب رخسار/گال ہے)
مانند - فعلان



شعرِ فیض
عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5

عمر کے ہر - فاعلاتن
وَرَق پہ دل - مفاعلن
کُ نَظَر - فعِلن

تیرِ مہرو - فاعلاتن (یہاں پھر دیکھیں کہ اس دفعہ فیض نے اضافت 'و' کو محسوب کر کے 'مہر و وفا' کو 'مہ رو' بنایا اور وزن پورا ہوا۔
وفا کِ با - مفاعلن
بائے - فعلن


شعرِ غالب
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔

نَ ہِ دل میں - فعلاتن
مرے وُ قط - مفاعلن
رَ ء خو - فعِلن

جس سِ مژ گا - فاعلاتن
ہُ ئی نہ ہو - مفاعلن
گل باز - فعلان


شعرِ فیض
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔

کر رہا تھا - فاعلاتن
غَ مے جہا - مفاعلن
کَ حساب - فعِلان

آج تم یا - فاعلاتن
د بے حسا - مفاعلن
بائے - فعلن


شعرِ داغ
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق

دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔

غم اٹھانے - فاعلاتن
کِ ہیں ہزا - مفاعلن
ر طریق - فعِلان

کِ زمانے - فعِلاتن
کِ ہیں ہزا - مفاعلن
ر طریق - فعِلان

کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو ضرور مطلع کریں۔

والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم سر ایک غزل ارسال کر رہا ہوں





دور تک روشنی کا میلا تھا
اک طرف دل بہت اکیلا تھا

جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا

میرے دل کو سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا

موت کا انتظار کرتا ہے
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا

میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا
ہر طرف غم کا ہی جمھیلا تھا

خرم شہزاد خرم
 

نوید صادق

محفلین
دور تک روشنی کا میلا تھا
اک طرف دل بہت اکیلا تھا


خرم ! یہاں پہلے مصرعہ میں دور تک کی جگہ "اک طرف" لانا ہو گا۔

اک طرف روشنی کا میلا تھا
اک طرف دل بہت اکیلا تھا

آپ اپنے قاری کو دو الگ الگ منظر دکھا کر دل کی کم قسمتی دکھانا چاہتے ہیں۔

اگر دور لانا مقصود ہے تو یوں کرنا ہو گا

دور تک روشنی کا میلا تھا
اور اس میں یہ دل اکیلا تھا

بلکہ بات زیادہ احسن ہو جاتی ہے اگر
یوں کر لیں تو

ہر طرف روشنی کا میلا تھا
اور یہ دل بہت اکیلا تھا
وغیرہ وغیرہ

میرے خیال مین دونوں مصرعوں میں اک طرف لانا والی آپشن بیسٹ ہے ۔آگے جو مزاجِ یار میں آئے۔
 

نوید صادق

محفلین
میرے دل کو سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا


میرے دل کے سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا

عمدہ شعر ہے۔

میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا
ہر طرف غم کا ہی جمھیلا تھا


ماضی کھنگالنا تو پڑھا سنا تھا، ماضی نچوڑنا؟؟؟ کہاں ہیں اعجاز بھائی/وارث بھائی آپ؟؟؟ ذرا رائے دیجئے نا!!

یہ باتیں اپنی جگہ لیکن جیسا کہ اعجاز بھائی نے پچھلے دنوں کہا تھا خرم آپ واقعی ترقی کرتے جارہے ہیں۔ ماشاءاللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ نوید آپ کا بھی

دور تک روشنی کا میلا تھا
اک طرف دل بہت اکیلا تھا
///مزید بہتر ہو اگر اس کو یوں کہا جائے۔
اُس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا
کیسا رہے گا نوید اور وارث، ویسے نوید کی اصلاح بھی قابلِ قبول ہے۔

جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا
///اچھا شعر ہے۔۔ص

میرے دل کو سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا
///نوید کی اصلاح درست اور ضروری ہے، دو بار ’کو‘ درست نہیں۔
میرے دل کے سراب کرنے کو
لیکن کیا ’سراب‘ کا استعمال درست ہے یہں؟ مجھے شک ہے کہ تم ’سیراب‘ کہنا چاہ رہے ہو جس سے دسرا مصرع زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے۔ ویسے سراب کہنے سے ابہام رہتا ہے

موت کا انتظار کرتا ہے
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا
///ص

میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا
ہر طرف غم کا ہی جمھیلا تھا
بھائی نوید، یہاں خرم کا مطلب وہی ہے، ماضی نچوڑنا درست ہو سکتا ہے اگر دوسرے مصرع میں اس کی مناسبت سے کوئی بیان ہو، لیکن ’جھمیلا ‘ (’جمھیلا‘ نہیں) سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یہ سیدا سادہ بیانیہ مصرع ہے۔ ہاں اگر غم کے دریا کی بات ہوتی تو نچوڑنا درست ہی نہیں زیادہ بہتر ہوتا۔ جیسے دوسرا مصرع کچھ اس قسم کا ہوتا:
میل سے غم کے دریامیلا تھا
یہ اصلاح نہیں کر رہا ہوں، مثال ہے ورنہ میرا مجوزہ مصرع بھی رواں نہیں اور مجھے خود پسند نہیں آیا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اک طرف روشنی کا میلا تھا
اک طرف دل بہت اکیلا تھا

جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا

میرے دل کے سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا

موت کا انتظار کرتا ہے
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا

میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا
ہر طرف غم کا ہی جھمیلا تھا

اس آخری شعر کو پھر بہتر کرنی کی ضرورت ہے ابھی ہے نا نوید بھائی آپ ہی کچھ بتا دیں یا پھر وارث بھائی آپ قسم توڑ دیں ہی ہی
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب اب اساتذہ کی موجودگی میں یہ ہیچمدان کیا رائے دے۔ آپ کی غزل اصلاح کے بعد بہت بہتر ہو گئی ہے۔

آخری شعر میں قافیہ تبدیل کر دیں، جیسے

میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا
ہر طرف بس غموں کا میلا تھا

ویسے اس شعر میں 'نچوڑ' بہت 'ٹرکی' لفظ ہو گیا ہے اور صرف اسی طریقے پر جائز ہو سکتا ہے جب اسکے لوازمات پورے کیئے جائیں۔ ہو سکے تو دوبارہ سے کہہ لیں۔
 

نوید صادق

محفلین
شکریہ نوید آپ کا بھی

میرے دل کو سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا
///نوید کی اصلاح درست اور ضروری ہے، دو بار ’کو‘ درست نہیں۔
میرے دل کے سراب کرنے کو
لیکن کیا ’سراب‘ کا استعمال درست ہے یہں؟ مجھے شک ہے کہ تم ’سیراب‘ کہنا چاہ رہے ہو جس سے دسرا مصرع زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے۔ ویسے سراب کہنے سے ابہام رہتا ہے
اعجاز بھائی! شکریہ، میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ پنجابی ہوں نا!!
پیجابی میں سراب کرنا ہی بنتا ہے۔ لیکن یہاں بہرحال یہ غلط ہے۔ اصل لفظ سیراب ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں تو سراب ہی سمجھا تھا لیکن درست تفہیم نہیں ہو رہی تھی۔ اس لئے لکھا تھا کہ سراب کہنے سے ابہام بہت ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب خرم بھائی واہ واہ، بہت لاجواب غزل ہے مگر مطلع میرے ذہن میں یو آیا تھا
اس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا
بعد میں اعجاز صاحب کی پوسٹ دیکھی تو انہوں نے بھی یہی تجویز دی، یہ مطلع بہت خوب رہے گا۔

مقطع تبدیل کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے،

مینے ماضی بھی چھان کر دیکھا
ہر طرف بس غموں کا میلا تھا

یا پھر نچوڑ کا نچوڑ یوں کیا جائے تو؟

میں نے ماضی نچوڑا تو جانا
آبِ غم سے یہ کتنا گیلا تھا

کیونکہ نچوڑنے کے ساتھ ہی قاری کے ذہن میں پانی کا سوال ابھرتا ہے، سو میری ناقص رائے یہ ہیکہ نچوڑ کے ساتھ گیلا کا قافیہ بہتر رہے گا۔

اور مندرجہ بالا شعر ویسے بھی مقطع نہیں سو،

میرے دل کے سراب کرنے کو
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا

اگر اس شعر کو یو ں مقطع بنایا جائے

آنکھ سیراب کرنے کو خرم
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا

کیونکہ سراب کے بجائے یہاں سیراب آنا چاہئیے سو متذکرہ بالا شعر بحر سے کارج ہو جاتا ہے۔


صرف رائے ہے۔

ُُاستادِ محترم، نوید بھائی اور وارث بھائی آپ کی کیا رائے ہے میں اپنے علم میں اضافے کے لیئے جاننا چاہتا ہوں۔
 
Top