الف عین
لائبریرین
استادِ محترم و جان سے پیارے ساتھیو السلام علیکم،
کافی دن پریشانیوں میں گھرا رہا کہ اہلیہ کی طبیعت کافی خراب تھی اللہ اللہ کر کے 29 اگست کو ایک پیچیدہ آپریشن کے بعد اللہ نے خاص کرم کرتے ہوئے بیٹے کی نعمت سے نوازا اور اہلیہ کو بھی اچھا بھلا کر دیا۔ آج محفل پر حاضر ہوا ہوں، پچھلی غزل میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، سو دوبارہ حاضرِ خدمت ہے،
کب میں تیرے خمارسے نکلا
عشق کے اس حصار سے نکلا
آگیا جو بھی کوچے میں تیرے
وہ نہ پھر اس دیار سے نکلا
اتنے دھوکے ہیں راہ میں بکھرے
اب یقیں اعتبار سے نکلا
لغزشِ آنکھ نے بہت چا ہا
میں مگر نہ مدار سے نکلا
رات ڈھلتے ہی درد بھی تیرا
دل کے اجڑے مزار سے نکلا
تیری ہستی میں گم رہا ہوں میں
آگے نہ اس غبار سے نکلا
آخرِ شب میں، پھر سے رویا ہوں
کب خیالِ بہار سے نکلا
بھول پایا نہیں اسے راجا
دل سے وہ اتنے پیار سے نکلا
پہلے تو مبارک باد قبول کرو راجا۔ ہمیں دادا بنانے کا شکریہ!!
اب اس غزل کو۔ اصل غزل پھر ڈھونڈنی پڑی۔ لیکن جہاں میں نت مفہوم واضح نہ ہونے کی بات کی تھی، وہ مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔
اوپر سرخ اشعار کو دیکھو۔
لغزشِ آنکھ نے بہت چا ہا
میں مگر نہ مدار سے نکلا
لغزشِ آنکھ؟؟؟ آنکھ ہندی ہے اور لغزش فارسی، ان کا اضافتی مرکب نہیں بن سکتا۔ لغزش چشم کر سکتے ہو اس کو۔ لیکن دوسرا مصرع۔ یہاں ’نہ‘ پھر بر وزن ’نا‘ آتا ہے جو مجھے گوارا نہیں۔ اس کو یوں کہو
میں نہ پھر بھی مدار سے نکلا۔
مطلب اگر چہ اب بھی واضح نہیں ہے، میں نے صرف زبان و بیان کی اصلاح کی ہے۔
اگلے شعر کے ،مرع
آگے نہ اس غبار سے نکلا
میں بھی وہی ’نا‘ والا سقم ہے۔ اس کو تو اس طرح مشورہ دیا تھا نا میں نے:
کب میں اس کے غبار سے نکلا
باقی تم نے میری اصلاحات قبول کر ہی لی ہیں۔