سید رافع
معطل
انتشار بکھر جانے کو کہتے ہیں۔ دباؤ برداشت کیا جاتا ہے۔ذہنی انتشار
ذہن میں شک یا خلجان غیر مخلص کے ہوتا ہے۔ذہنی خلجان
قرآن آپ نے پڑھا نہیں ابھی۔ گائے کے عنوان کی سورہ میں تمام شرعی احکام بیان کر دیے! قرآن ناطق معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ آپ سے بھی ایک سوال ہے کہ آج صبح کی فجر پڑھی ہے؟باتیں بے رب
انا اور حق پسندی میں فرق سیکھیں۔طبعیت میں انانیت
آپ کو کیا پسند ہے حق پسند مخلص محقق یا منکسر المزاج باعلم مکار؟خود پسندی
یہ سب باتیں جو ہم کر رہیں ہیں وہ سب کی سب قرآن کے ظاہر کی باتیں ہیں یعنی پرواز ابھی شروع ہی نہیں ہوئی اور سوچیں کہ اخلاص کے پر جلنے شروع ہوگئے ہیں۔
سنت کا مطالعہ کریں۔ اطمینان سے بیٹھے رسول، صرف طلاق کے معاملے پر یکدم کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ نکاح و طلاق کوئی اصلاح سخن کے لیے گفتگو میں تضاد کا کھیل نہیں!گفتگو میں اتار چڑھاؤ
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: ”میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎“، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔ سنن نسائي 3430
کیا ضروری تھا رسول ص جو کامل اخلاق رکھتے تھے، سب سے زیادہ مسکراتے تھے کہ اسقدر چڑھاؤ کریں کہ کھڑے ہی ہو جائیں اور لفظ کھلواڑ استعمال کر لیں۔ بیٹھے بیٹھے کہہ دیتے کہ بھئی دیکھو ایسا نہ کرو، یہ اللہ کا حکم نہیں۔
بعض لوگ رات دن بے حیائی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، وقت پر نماز پڑھتے نہیں، اس سیاہی میں راحت پا چکتے ہوتے ہیں۔ سو وہ چاہتے ہیں کہ سب ایسے ہی اطمینان پا جائیں۔
کس گھر میں نہیں۔ازداوجی بحران
المیہ کوئی بھی ہو، کیفیت کا تعین اللہ سے تعلق اور اخلاص کرتا ہے۔اس کیفیت میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پھر کسی ایسے موضوع کا انتخاب کرتا ہے ۔
مایوس وہ ہوتا ہے جو اللہ سے مخلص نہیں۔ ہر کم عقل شغل کرتے مرد و عورت سے الجھن بلکہ الجھنیں ہی پیدا ہوتی ہیں۔اپنے اندر کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کو کم کرسکے۔ ا
رویہ سنجیدہ بات کے دوران شغل کے مطابق بدلتا ہے۔ سنجیدہ بات کو مذاق میں ملا کر کرنے سے بدلتا ہے۔ عام قرآنی الفاظ میں اس کو استہزاء کہتے ہیں۔ دیکھ لیجیے گا کہ قرآن میں یہ کن لوگوں کا شغل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ کہہ دیا جائے کہ اب سنجیدہ باتیں تو اس لڑی میں ہو گئیں، کیا ہی مناسب ہو کہ ایک رومانوی نظم کہہ لی جائے اور کچھ مزاح وہاں کر لیا جائے۔اس دوران اس کا رویہ بھی ماحول کے مطابق بدلتا رہتا ہے ۔
لوگ غلامی کی طرف جانے لگیں بلکہ مجبور کریں کہ تم بھی دوسرے انسانوں کے غلام بن جاؤ تو میری طرف سے سختی ظاہر ہوگی۔ لوگ قرآن کی بات سمجھنے کے لیے محض میرے اخلاق کے طالب ہوں تو نرمی ظاہر ہو گی۔لوگ سختی برتنے لگیں تو نرم لہجہ اختیار کرکے معدافانہ رویہ اختیار کرلیتا ہے ۔
میں اخلاص کے ساتھ جو جانتا ہوں بیان کر رہا ہوں۔ لوگ بھی ہوش سے رہیں۔اور جہاں دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی باتوں سے مرعوب ہورہے ہیں تو وہاں وہ ان پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں مخلص محقق ہوں کہ حق تک رسائی حاصل کر سکوں۔ یہ نہیں کہ سائنس یا اسلامیات یا عربی میں دنیا کو مرعوب کرنے کے لیے مقالہ لکھ رہا ہوں۔ غیب لامتناہی سمندر ہے، اسکا اندازہ کر رہا ہوں مختلف سمت سے کہ کہاں کیا ہوائیں ہیں، کیسا پانی ہے، کیسی روشنی ہے۔ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ایک محقیق اور طالب علم ہیں ۔ یہ بات بھی آپ کی دوسری باتوں سے چغلی کھاتی ہے ۔ کیونکہ ایک محقیق صرف اپنی تحقیق سامنے رکھتا ہے ۔
بحث جیسی حماقت میں غیر مخلص اور تنقید احمق کرتے ہیں۔ علم میں اختلاف ہوتا ہے اور طرفین حق کے ہی نمائندے رہتے ہیں۔اس پر بحث نہیں کرتا ۔
علم صرف نقل ہی نہیں عقل کا نور بھی ہے۔بلکہ صرف حوالے اور ثبوت فراہم کرتا ہے ۔
رب زدنی علما رسول اللہ بھی پڑھا کرتے تھے۔ اسکا نوعیت کے طالب علم کا تذکرہ ہے۔ اڑ جانا اور دیگر منفی کیفیات آپ کے باطن کا پتہ دے رہیں ہیں۔رہی طالب علم کی بات تو طالب علم کی کیا مجال کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر اڑ جائے
آپ اس سے بہتر بات لائیں۔اس بات ہی حتمی اور آخری ہے ۔
یہ آپ کی اپنی محسوسات ہیں۔ قرآن کی اگر کوئی بات کے جواب میں آپ اخلاص کے ساتھ بہتر بات قرآن سے نہ لا سکے تو ایسی ہی کیفیت بنتی ہے۔ آپ قرآن کا علم اخلاص کے ساتھ آل محمد ص سے حاصل کریں۔آپ اپنی ہر بات کو آسمان سے اُتری ہوئی بات ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔
ہر انسان دعوی کرتا ہے۔ میں مسلم ہوں، میں انسان ہوں وغیرہ وغیرہ۔ میری بعض باتیں بطور حکمت ہیں۔ اللہ نے کیا وجہ ہے کہ رسول ص سے بات پوچھنے کے لیے پہلے صدقہ دینے کی شرط عائد کی؟دعوؤں سے بھی پرہیز نہیں کرتے ۔
یہ درس نظامی کے بعد تخصص یا پی ایچ ڈی کا ریسرچ پیپر لکھنے کی سعی نہیں۔ غیب تک رسائی کا مختصر ترین راستہ جاننے کی سعی ہے۔مگر کیا اچھا ہی ہوتا کہ آپ اپنی کہی ہوئی بات کو تحقیق کے طور پر ہی پیش کرتے کہ یہ میں نے تحقیق کی ہے اور اسے اپنے فہم کے مطابق تشریح کرکے اس شکل میں پیش کیا ہے ۔
دلیل ضروری نہیں کہ پورے اخلاص کے باوجود بھی آپکو سمجھ میں آ ہی جائے۔ کچھ صبر سے کام لیں۔ سوال سے علم آتا ہے لیکن ہر علم سوال سے نہیں آتا۔ آپ موسی اور حضر ع کے قصے کو خوب پڑھ لیں۔یہ میرا استدلال ہے ۔
مخلص بنیں۔ سنجیدہ کو شغل سے علحیدہ کر لیں۔ جب طبعیت سنجیدگی سے گھبرا جائے تو کچھ اور پڑھ لیں یا کسی رومانوی موضوع پر نظم کا تقاضہ کر دیں۔اس میں آپ کی کیا رائے ہے ۔ ؟
تاکہ اندازہ ہو جائے کہ بندے کی غلامی کس قدر مکروہ فعل ہے۔ اس وقت مکرا کبارا پھیلا ہوا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ دجل کا دور ہے۔ آپ سب سے بات کرنا آسان نہیں۔ مجھے اپنی روزگار کی فکر ہو جاتی ہے اور میں اس طرف مشغول ہونا چاہتا ہوں۔بلکہ اپنی ہر کہی ہوئی بات کو حرفِ آخر جانا اور زبردستی لوگوں پر ٹھوسنے کی کوشش کی ۔
یہ نہیں کہا۔ یہ کہا کہ کم عقلی کی بات نہ کریں۔ شغل نہ کریں۔ سنجیدہ کو شغل کے ساتھ ملا نہ دیں۔ کجی اور ٹیڑھ کو سیدھی بات کے ساتھ جوڑ نہ دیں۔لوگوں سے یہ مت کہیں کہ آپ سب غلط ہو ۔ میں صحیح بات لایا ہوں ۔ کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا ۔
مخلص بہادر بنیں۔ لوگوں کی بھلائی کے لیے بات کریں۔ ایسے جیسے کہ باپ کرتا ہے۔ اگر ناخلف اولاد چڑھ دوڑے تو مزہ چکھا دیں۔ جنگ سے نہ ڈریں۔بلکہ اس مخالفت اور انتشار کو ہوا ملے گی ۔ جو کہ ملی بھی ہے ۔