بحور سے آزاد نکاح و طلاق

انتشار بکھر جانے کو کہتے ہیں۔ دباؤ برداشت کیا جاتا ہے۔

ذہن میں شک یا خلجان غیر مخلص کے ہوتا ہے۔

قرآن آپ نے پڑھا نہیں ابھی۔ گائے کے عنوان کی سورہ میں تمام شرعی احکام بیان کر دیے! قرآن ناطق معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ آپ سے بھی ایک سوال ہے کہ آج صبح کی فجر پڑھی ہے؟

انا اور حق پسندی میں فرق سیکھیں۔

آپ کو کیا پسند ہے حق پسند مخلص محقق یا منکسر المزاج باعلم مکار؟

یہ سب باتیں جو ہم کر رہیں ہیں وہ سب کی سب قرآن کے ظاہر کی باتیں ہیں یعنی پرواز ابھی شروع ہی نہیں ہوئی اور سوچیں کہ اخلاص کے پر جلنے شروع ہوگئے ہیں۔

گفتگو میں اتار چڑھاؤ
سنت کا مطالعہ کریں۔ اطمینان سے بیٹھے رسول، صرف طلاق کے معاملے پر یکدم کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ نکاح و طلاق کوئی اصلاح سخن کے لیے گفتگو میں تضاد کا کھیل نہیں!

محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: ”میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎“، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔ سنن نسائي 3430

کیا ضروری تھا رسول ص جو کامل اخلاق رکھتے تھے، سب سے زیادہ مسکراتے تھے کہ اسقدر چڑھاؤ کریں کہ کھڑے ہی ہو جائیں اور لفظ کھلواڑ استعمال کر لیں۔ بیٹھے بیٹھے کہہ دیتے کہ بھئی دیکھو ایسا نہ کرو، یہ اللہ کا حکم نہیں۔

بعض لوگ رات دن بے حیائی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، وقت پر نماز پڑھتے نہیں، اس سیاہی میں راحت پا چکتے ہوتے ہیں۔ سو وہ چاہتے ہیں کہ سب ایسے ہی اطمینان پا جائیں۔

کس گھر میں نہیں۔

اس کیفیت میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پھر کسی ایسے موضوع کا انتخاب کرتا ہے ۔
المیہ کوئی بھی ہو، کیفیت کا تعین اللہ سے تعلق اور اخلاص کرتا ہے۔

اپنے اندر کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کو کم کرسکے۔ ا
مایوس وہ ہوتا ہے جو اللہ سے مخلص نہیں۔ ہر کم عقل شغل کرتے مرد و عورت سے الجھن بلکہ الجھنیں ہی پیدا ہوتی ہیں۔

اس دوران اس کا رویہ بھی ماحول کے مطابق بدلتا رہتا ہے ۔
رویہ سنجیدہ بات کے دوران شغل کے مطابق بدلتا ہے۔ سنجیدہ بات کو مذاق میں ملا کر کرنے سے بدلتا ہے۔ عام قرآنی الفاظ میں اس کو استہزاء کہتے ہیں۔ دیکھ لیجیے گا کہ قرآن میں یہ کن لوگوں کا شغل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ کہہ دیا جائے کہ اب سنجیدہ باتیں تو اس لڑی میں ہو گئیں، کیا ہی مناسب ہو کہ ایک رومانوی نظم کہہ لی جائے اور کچھ مزاح وہاں کر لیا جائے۔

لوگ سختی برتنے لگیں تو نرم لہجہ اختیار کرکے معدافانہ رویہ اختیار کرلیتا ہے ۔
لوگ غلامی کی طرف جانے لگیں بلکہ مجبور کریں کہ تم بھی دوسرے انسانوں کے غلام بن جاؤ تو میری طرف سے سختی ظاہر ہوگی۔ لوگ قرآن کی بات سمجھنے کے لیے محض میرے اخلاق کے طالب ہوں تو نرمی ظاہر ہو گی۔

اور جہاں دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی باتوں سے مرعوب ہورہے ہیں تو وہاں وہ ان پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں اخلاص کے ساتھ جو جانتا ہوں بیان کر رہا ہوں۔ لوگ بھی ہوش سے رہیں۔

ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ایک محقیق اور طالب علم ہیں ۔ یہ بات بھی آپ کی دوسری باتوں سے چغلی کھاتی ہے ۔ کیونکہ ایک محقیق صرف اپنی تحقیق سامنے رکھتا ہے ۔
میں مخلص محقق ہوں کہ حق تک رسائی حاصل کر سکوں۔ یہ نہیں کہ سائنس یا اسلامیات یا عربی میں دنیا کو مرعوب کرنے کے لیے مقالہ لکھ رہا ہوں۔ غیب لامتناہی سمندر ہے، اسکا اندازہ کر رہا ہوں مختلف سمت سے کہ کہاں کیا ہوائیں ہیں، کیسا پانی ہے، کیسی روشنی ہے۔

اس پر بحث نہیں کرتا ۔
بحث جیسی حماقت میں غیر مخلص اور تنقید احمق کرتے ہیں۔ علم میں اختلاف ہوتا ہے اور طرفین حق کے ہی نمائندے رہتے ہیں۔

بلکہ صرف حوالے اور ثبوت فراہم کرتا ہے ۔
علم صرف نقل ہی نہیں عقل کا نور بھی ہے۔

رہی طالب علم کی بات تو طالب علم کی کیا مجال کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر اڑ جائے
رب زدنی علما رسول اللہ بھی پڑھا کرتے تھے۔ اسکا نوعیت کے طالب علم کا تذکرہ ہے۔ اڑ جانا اور دیگر منفی کیفیات آپ کے باطن کا پتہ دے رہیں ہیں۔

اس بات ہی حتمی اور آخری ہے ۔
آپ اس سے بہتر بات لائیں۔

آپ اپنی ہر بات کو آسمان سے اُتری ہوئی بات ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔
یہ آپ کی اپنی محسوسات ہیں۔ قرآن کی اگر کوئی بات کے جواب میں آپ اخلاص کے ساتھ بہتر بات قرآن سے نہ لا سکے تو ایسی ہی کیفیت بنتی ہے۔ آپ قرآن کا علم اخلاص کے ساتھ آل محمد ص سے حاصل کریں۔

دعوؤں سے بھی پرہیز نہیں کرتے ۔
ہر انسان دعوی کرتا ہے۔ میں مسلم ہوں، میں انسان ہوں وغیرہ وغیرہ۔ میری بعض باتیں بطور حکمت ہیں۔ اللہ نے کیا وجہ ہے کہ رسول ص سے بات پوچھنے کے لیے پہلے صدقہ دینے کی شرط عائد کی؟

مگر کیا اچھا ہی ہوتا کہ آپ اپنی کہی ہوئی بات کو تحقیق کے طور پر ہی پیش کرتے کہ یہ میں نے تحقیق کی ہے اور اسے اپنے فہم کے مطابق تشریح کرکے اس شکل میں پیش کیا ہے ۔
یہ درس نظامی کے بعد تخصص یا پی ایچ ڈی کا ریسرچ پیپر لکھنے کی سعی نہیں۔ غیب تک رسائی کا مختصر ترین راستہ جاننے کی سعی ہے۔

یہ میرا استدلال ہے ۔
دلیل ضروری نہیں کہ پورے اخلاص کے باوجود بھی آپکو سمجھ میں آ ہی جائے۔ کچھ صبر سے کام لیں۔ سوال سے علم آتا ہے لیکن ہر علم سوال سے نہیں آتا۔ آپ موسی اور حضر ع کے قصے کو خوب پڑھ لیں۔

اس میں آپ کی کیا رائے ہے ۔ ؟
مخلص بنیں۔ سنجیدہ کو شغل سے علحیدہ کر لیں۔ جب طبعیت سنجیدگی سے گھبرا جائے تو کچھ اور پڑھ لیں یا کسی رومانوی موضوع پر نظم کا تقاضہ کر دیں۔

بلکہ اپنی ہر کہی ہوئی بات کو حرفِ آخر جانا اور زبردستی لوگوں پر ٹھوسنے کی کوشش کی ۔
تاکہ اندازہ ہو جائے کہ بندے کی غلامی کس قدر مکروہ فعل ہے۔ اس وقت مکرا کبارا پھیلا ہوا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ دجل کا دور ہے۔ آپ سب سے بات کرنا آسان نہیں۔ مجھے اپنی روزگار کی فکر ہو جاتی ہے اور میں اس طرف مشغول ہونا چاہتا ہوں۔

لوگوں سے یہ مت کہیں کہ آپ سب غلط ہو ۔ میں صحیح بات لایا ہوں ۔ کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا ۔
یہ نہیں کہا۔ یہ کہا کہ کم عقلی کی بات نہ کریں۔ شغل نہ کریں۔ سنجیدہ کو شغل کے ساتھ ملا نہ دیں۔ کجی اور ٹیڑھ کو سیدھی بات کے ساتھ جوڑ نہ دیں۔

بلکہ اس مخالفت اور انتشار کو ہوا ملے گی ۔ جو کہ ملی بھی ہے ۔
مخلص بہادر بنیں۔ لوگوں کی بھلائی کے لیے بات کریں۔ ایسے جیسے کہ باپ کرتا ہے۔ اگر ناخلف اولاد چڑھ دوڑے تو مزہ چکھا دیں۔ جنگ سے نہ ڈریں۔
 

ظفری

لائبریرین
نہیں بھئی ۔۔۔ بندہ نہیں سدھرنے کا ۔۔۔ کوئی بات کہو تو اس کی بھی تاویلیں نکالنا شروع کردیتا ہے ۔ دے ہوئے مخلصانہ مشوروں کو بھی ایک ایک کوٹ کرکے کہتا ہے ۔ کہ تم کیا شے ہو ۔ تمہاری بات بھی کوئی بات ہے ۔ باتیں تو میں کرتا ہوں ۔ تم تو ہمہ شمہ ہو۔
یہ میرا آخری رئیپلائی اس بندے کو ۔ اللہ معاف کرے ۔ منتظمین نے بھی شاید کسی مقصد کے تحت اتنی شکایتوں کے باوجود اس پر پابندی نہیں لگائی ہے ۔
 
جناب سید رافع صاحب !
نکاح کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر پر جو معاشرہ قائم ہوگا اس کے قاضی کے پاس دو مقدمات آتے ہیں ۔ ان کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟
1- ایک عورت ایک مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے (زنا کیا ہے) جبکہ ملزم کا بیان ہے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا ہے
2- ایک امیر کبیر شخص فوت ہو گیا ہے۔ چار عورتیں قاضی کے پاس جاتی ہیں کہ ہم مرحوم کی بیوائیں ہیں اور اس کی وراثت کی حقدار ہیں۔
 
جناب سید رافع صاحب !
نکاح کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر پر جو معاشرہ قائم ہوگا اس کے قاضی کے پاس دو مقدمات آتے ہیں ۔ ان کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟
1- ایک عورت ایک مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے (زنا کیا ہے) جبکہ ملزم کا بیان ہے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا ہے
2- ایک امیر کبیر شخص فوت ہو گیا ہے۔ چار عورتیں قاضی کے پاس جاتی ہیں کہ ہم مرحوم کی بیوائیں ہیں اور اس کی وراثت کی حقدار ہیں۔

1- ایک عورت ایک مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے (زنا کیا ہے) جبکہ ملزم کا بیان ہے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا ہے۔ جج کہتا ہے کہ شادی کے دو گواہ لاؤ۔ شادی کا سرٹیفیکٹ لاؤ۔ ملزم عدالت کے باہر سے دو گواہ خریدتا ہے اور ایک نکلاح نامہ بنوا لیتا ہے۔ یعنی جرم سے فرار اور عدالت کو دھوکہ ہر طریقہ کار میں ممکن ہے۔ البتہ اللہ کے قانون کو ہرگز نہیں بدلنا چاہیے۔

2- ایک امیر کبیر شخص فوت ہو گیا ہے۔ چار عورتیں قاضی کے پاس جاتی ہیں کہ ہم مرحوم کی بیوائیں ہیں اور اس کی وراثت کی حقدار ہیں۔ جج کہتا ہے کہ شادی کے دو گواہ لاؤ۔ شادی کا سرٹیفیکٹ لاؤ۔ عورتیں عدالت کے باہر سے دو دو گواہ خریدتیں ہے اور ایک ایک نکلاح نامہ بنوا لیتی ہیں۔ ظاہر ہے امیر شخص اگر شادی ہی کو چھپا لیتا ہے تو ہر سسٹم میں چھپا سکتا ہے اور ظلم کر سکتا ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ جیسے حج صرف ایک قدم عرفات میں ایک لمحہ کر رکھ کر بھی ہو جاتا ہے، اسی طرح نکاح کا معاہدہ عورت کی رضامندی اور مرد کے دل سے قبول کرنے سے ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی کلمہ پڑھ لے اور کہے کہ میں مسلم ہوں تو یہ اقرار کافی ہے۔ عدالتوں سے لوگ ہر روز آگ کے ٹکڑے لے کر ہر دور اور ہر زمانے میں جاتے ہی رہے ہیں۔ ہمارے قلب میں نکاح کااصل عدل مصتحضر رہے تاکہ کسی پر زنا کاالزام نہ لگائیں۔ کسی محلے اور گھرانے میں جب کوئی مرد و عورت کہہ رہیں کہ وہ نکاح سے ہیں تو اسے مان لیا جائے۔
 
1- ایک عورت ایک مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے (زنا کیا ہے) جبکہ ملزم کا بیان ہے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا ہے۔ جج کہتا ہے کہ شادی کے دو گواہ لاؤ۔ شادی کا سرٹیفیکٹ لاؤ۔ ملزم عدالت کے باہر سے دو گواہ خریدتا ہے اور ایک نکلاح نامہ بنوا لیتا ہے۔ یعنی جرم سے فرار اور عدالت کو دھوکہ ہر طریقہ کار میں ممکن ہے۔ البتہ اللہ کے قانون کو ہرگز نہیں بدلنا چاہیے۔

2- ایک امیر کبیر شخص فوت ہو گیا ہے۔ چار عورتیں قاضی کے پاس جاتی ہیں کہ ہم مرحوم کی بیوائیں ہیں اور اس کی وراثت کی حقدار ہیں۔ جج کہتا ہے کہ شادی کے دو گواہ لاؤ۔ شادی کا سرٹیفیکٹ لاؤ۔ عورتیں عدالت کے باہر سے دو دو گواہ خریدتیں ہے اور ایک ایک نکلاح نامہ بنوا لیتی ہیں۔ ظاہر ہے امیر شخص اگر شادی ہی کو چھپا لیتا ہے تو ہر سسٹم میں چھپا سکتا ہے اور ظلم کر سکتا ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ جیسے حج صرف ایک قدم عرفات میں ایک لمحہ کر رکھ کر بھی ہو جاتا ہے، اسی طرح نکاح کا معاہدہ عورت کی رضامندی اور مرد کے دل سے قبول کرنے سے ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی کلمہ پڑھ لے اور کہے کہ میں مسلم ہوں تو یہ اقرار کافی ہے۔ عدالتوں سے لوگ ہر روز آگ کے ٹکڑے لے کر ہر دور اور ہر زمانے میں جاتے ہی رہے ہیں۔ ہمارے قلب میں نکاح کااصل عدل مصتحضر رہے تاکہ کسی پر زنا کاالزام نہ لگائیں۔ کسی محلے اور گھرانے میں جب کوئی مرد و عورت کہہ رہیں کہ وہ نکاح سے ہیں تو اسے مان لیا جائے۔
آپ فرض کریں کہ یہ دونوں مقدمات اسلام کے اس دور میں قاضی کے سامنے پیش ہوئے جب اجتماعی طور پر سسٹم صحیح تھا ۔
آپ سسٹم کی خرابی کے پیچھے نہ چھپیں۔سوال بھی اسی مقصد کے تحت تھا کہ اگر صالح معاشرہ ہے تو تب فیصلہ کیسے ہوگا۔
کیونکہ سو فیصد لوگ کبھی صالح نہیں ہو سکتے ابتدا ہی سے شیطان کا وجود رہا ہے۔
اللہ کا قانون گواہوں کے ہونے سے کیسے بدل جاتا ہے۔ اللہ نے کہا کہ نکاح کرو۔ نکاح تو ہورہا ہے۔ باقی خرابیوں سے بچنے کے لیے گواہ بنانے میں کہاں اللہ کا قانون بدل گیا۔
 
مختصر بات یہ ہے کہ جیسے حج صرف ایک قدم عرفات میں ایک لمحہ کر رکھ کر بھی ہو جاتا ہے، اسی طرح نکاح کا معاہدہ عورت کی رضامندی اور مرد کے دل سے قبول کرنے سے ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی کلمہ پڑھ لے اور کہے کہ میں مسلم ہوں تو یہ اقرار کافی ہے۔ عدالتوں سے لوگ ہر روز آگ کے ٹکڑے لے کر ہر دور اور ہر زمانے میں جاتے ہی رہے ہیں۔ ہمارے قلب میں نکاح کااصل عدل مصتحضر رہے تاکہ کسی پر زنا کاالزام نہ لگائیں۔ کسی محلے اور گھرانے میں جب کوئی مرد و عورت کہہ رہیں کہ وہ نکاح سے ہیں تو اسے مان لیا جائے۔
جب ایک مرد اور ایک عورت لوگوں کے سامنے کہ رہے ہیں کہ وہ میاں بیو ی ہیں اسی وقت ایک اور مرد دعوے دار آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میری منکوحہ ہے تو پھر کیا ہوگا؟
 
آپ فرض کریں کہ یہ دونوں مقدمات اسلام کے اس دور میں قاضی کے سامنے پیش ہوئے جب اجتماعی طور پر سسٹم صحیح تھا ۔
آپ سسٹم کی خرابی کے پیچھے نہ چھپیں۔سوال بھی اسی مقصد کے تحت تھا کہ اگر صالح معاشرہ ہے تو تب فیصلہ کیسے ہوگا۔
کیونکہ سو فیصد لوگ کبھی صالح نہیں ہو سکتے ابتدا ہی سے شیطان کا وجود رہا ہے۔
اللہ کا قانون گواہوں کے ہونے سے کیسے بدل جاتا ہے۔ اللہ نے کہا کہ نکاح کرو۔ نکاح تو ہورہا ہے۔ باقی خرابیوں سے بچنے کے لیے گواہ بنانے میں کہاں اللہ کا قانون بدل گیا۔
اس ساری بحث کا مقصد؟

اس لڑی میں دو گواہوں کو لوگ اللہ کا قانون سمجھ رہے ہیں۔
 
جب ایک مرد اور ایک عورت لوگوں کے سامنے کہ رہے ہیں کہ وہ میاں بیو ی ہیں اسی وقت ایک اور مرد دعوے دار آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میری منکوحہ ہے تو پھر کیا ہوگا؟
آپ اپنی طہارت کی فکر کریں کہ کسی مرد و عورت جو اپنے آپ کو نکاح میں کہیں ہرگز انہیں زانی نہ کہیں۔ ہر ہر مفروضے کو حل کرنے کا ذمہ دار میں نہیں ہوں الا یہ کہ مجھے فکر معاش سے فرصت ہو۔ مجھے کسی سے بھی بحث سے دلچسپی نہیں ہے۔ شغل کے لیے ہوشیاریاں کریں اور جب کہ واضح ہے کہ نیت میں فتور ہے اور عقل کم ہے۔ عدالت کی طرف سے ایک سرٹیفکٹ میاں بیوی کو دے دیا جائے کہ یہ نکاح سے ہیں۔
 
آپ فرض کریں کہ یہ دونوں مقدمات اسلام کے اس دور میں قاضی کے سامنے پیش ہوئے جب اجتماعی طور پر سسٹم صحیح تھا ۔
آپ سسٹم کی خرابی کے پیچھے نہ چھپیں۔سوال بھی اسی مقصد کے تحت تھا کہ اگر صالح معاشرہ ہے تو تب فیصلہ کیسے ہوگا۔
کیونکہ سو فیصد لوگ کبھی صالح نہیں ہو سکتے ابتدا ہی سے شیطان کا وجود رہا ہے۔
اللہ کا قانون گواہوں کے ہونے سے کیسے بدل جاتا ہے۔ اللہ نے کہا کہ نکاح کرو۔ نکاح تو ہورہا ہے۔ باقی خرابیوں سے بچنے کے لیے گواہ بنانے میں کہاں اللہ کا قانون بدل گیا۔
آپ سے مزید بات نہیں ہو گی اب۔
 
اس ساری بحث کا مقصد؟

اس لڑی میں دو گواہوں کو لوگ اللہ کا قانون سمجھ رہے ہیں۔
ایک اسلامی معاشرے میں نکاح کا قانون نافذ کرنے میں جو مشکلات پیدا ہورہی ہیں ان کو دور کرنے کے لیے گواہی کو قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو اس سے اللہ کا قانون تو نہیں ٹوٹتا۔
لیکن اسلامی معاشرے میں یا کسی بھی معاشرے میں رائج قانون کو توڑا جائے گا تو خرابیاں پیدا ہوں گی اور قانون توڑنے والا سزا کا مستحق ہوگا۔
 
آپ اپنی طہارت کی فکر کریں کہ کسی مرد و عورت جو اپنے آپ کو نکاح میں کہیں ہرگز انہیں زانی نہ کہیں۔ ہر ہر مفروضے کو حل کرنے کا ذمہ دار میں نہیں ہوں
اگر مرد اور عورت میاں بیوی کا دعوٰی کررہے ہیں تو ان کو کون زانی کہ رہا ہے؟ کم از کم میں تو نہیں۔
لیکن اگر ایک عورت کے دس دعوے دار پیدا ہوجائیں تو مسئلہ تو ہوگا۔ اور اس کا حل بھی تو ہونا چاہیے۔ بے شک اس وقت یہ مفروضہ ہے لیکن حقیقی زندگی میں یہ ممکن ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دوستو!!!
بیمار لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے اُن سے بحث نہیں۔
یہ آدمی ذہنی بیمار ہے اس کا علاج ہمارے بس میں تو نہیں ہے بس دعائیں دے کر آگے بڑھ جائیں۔
میں نے پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ بندہ شدید ذہنی ٹراما کا شکار ہے۔ شاید شاک تھیراپی کچھ ان کے حق میں کار آمد ہو سکے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دوستو!!!
بیمار لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے اُن سے بحث نہیں۔
یہ آدمی ذہنی بیمار ہے اس کا علاج ہمارے بس میں تو نہیں ہے بس دعائیں دے کر آگے بڑھ جائیں۔
میں نے پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ بندہ شدید ذہنی ٹراما کا شکار ہے۔ شاید شاک تھیراپی کچھ ان کے حق میں کار آمد ہو سکے۔
آپ کی بات مناسب ہے!
میری بھی مخلصانہ رائے ہے اگنور کردیا جائے.
دعا کردی جائے کہ اللہ حال پر رحم فرمائے.کرم سے معاملات کو درست کردے ....آمین
 
<<<<<<********ایک غلط فہمی کا ازالہ******>>>>>
********************************************
ایک شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ: "میں نے بارہ سال تک فارسی زبان پڑھی ہے ۔ اگرچہ فارسی میری مادری زبان نہیں لیکن فارسی گرامر کی درجنوں کتابیں چاٹنے ، لغات کھنگالنے اور برسوں کے گہرے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیخ سعدی کا کلام اتنا مشہور ہونے کے باوجود آج تک صحیح طرح سے کسی کی سمجھ میں آہی نہیں سکا۔ شروع ہی سے لوگ کلامِ سعدی کو غلط طریقے سے سمجھتے آرہے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیخ سعدی کے کلام کی جتنی بھی شرحیں آج تک لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بالکل بھی درست نہیں ہیں۔ دراصل یہ لوگ شیخ سعدی کے کلام کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ نہ تو انہیں سعدی کے کسی شعر کے پس منظر کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے الفاظ کی اصل روح تک پہنچ سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام شارحین غور و فکر اور تجزیے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ مزید دکھ تو اس بات کا ہے کہ غیر فارسی دان تو ایک طرف خود فارسی اہل ِزبان میں سے بھی کوئی آج تک سعدی کے کلام کو سمجھ نہ سکا۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ سعدی کے معاصرین ، ان کے شاگرد اور حلقہ بردار اصحاب بھی ان کے کلام کومطلق نہ سمجھ سکے۔ بلکہ کلام کی تشریح میں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور غلط سلط باتیں کتابوں میں لکھ ڈالیں۔ خیر ، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ الحمدللہ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ یہ خاکسار کلامِ سعدی کے اصل مطالب تک پہنچ چکا ہے۔ صدیوں بعد بالآخر کلامِ سعدی کی روح کو دریافت کرنے کا سہرا اس عاجز ہی کے سر بندھا ہے۔ اللہ عز و جل نے اپنے کرم سے مجھے اپنی فارسی دانی اورعمیق غور و خوض کی بدولت کلام سعدی کی درست اور بالکل صحیح تشریح کرنے کا شرف بخشا ہے۔ روزِ اول سے کلام ِسعدی پرغلط فہمیوں اور غلط آرائیوں کی جو دھول جمی ہوئی تھی اسے صاف کرنے کا کام میں اپنی نوکِ قلم سے انجام دے رہا ہوں۔ الحمدللہ ، میں فارسی شعر فہمی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہوں کہ اب میں آپ کو سعدی کے شعر کا وہ اصل روپ اور چہرہ دکھا سکوں گا جو آج تک سارے زمانے سے پوشیدہ رہا ۔ اپنے تدبر اور تفکر کی بدولت میں نے سعدی کے اشعار سے ایسے ایسے نکتے برآمد کئے ہیں کہ جن تک شاید خود شیخ سعدی کی نظر بھی نہ پہنچ سکی ہو۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ صرف مجھ حقیر ناچیز ہی پر اس نے عقل و دانائی کے یہ روشن دروازے وا کئے اور شیخ سعدی کے باطن میں جھانکنے اور ان کے کلام کی اصل روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ مجھے امید ہے کہ یہ کار خیر میرے لئے رہتی دنیا تک ایک صدقۂ جاریہ اور آخرت میں باعثِ بخشش ثابت ہوگا ۔ وما توفیقی الا باللہ۔"

********************************************************
>>>>>>>>>>>>>>>><<<<<<<<<<<<

"ایک غلط فہمی کا ازالہ" کے عنوان سے یہ جو دعویٰ ایک صاحب نے اوپر کیا ہے اس کی مضحکہ خیزی اور فضول پن روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ زبان دانی اور شعر فہمی کے یہ دعوے کرنا کہ کلامِ سعدی کو آج تک کوئی بھی کماحقہ نہیں سمجھ سکا اور اس کا صحیح مفہوم صرف ان پر ہی کھلا ہے کتنی کھوکھلی ، بیہودہ اور بیکارسی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کلامِ سعدی کے بارے میں اس طرح کی بات کرنا تو بیہودہ اور بیوقوفانہ ہے لیکن کلامِ الہی یعنی قرآن کے بارے میں ایسے دعوے کرنا اب علمی گفتگو کہلاتی ہے۔ آپ ذرا دیر کے لئے مندرجہ بالا تحریر میں کلامِ سعدی کی جگہ کلامِ الٰہی رکھ کر دیکھئے۔ تمام استعارے آپ کو معلوم ہوجائیں گے اور ان دعووں کی احمقانہ نوعیت واضح ہوجائے گی۔ قرآن فہمی کے لئے حدیث اور روایت کے سلسلوں کو نظرانداز کردینا اور محض لغات اور گرامر اور اپنے فہم کی رو سے کلامِ الٰہی کی تفہیم و تفسیر کرنا دراصل خودقرآن کے انکار کی طرف پہلا قدم ہے۔ یعنی اگر کسی اسلام کی عمارت کو علی الاعلان ڈھانا ممکن نہ ہو تو چپکے چپکے اس کی بنیاد کو تباہ کردینا چاہئے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں عمارت کا خود بخود ڈھے جانا لازم ہے۔ یعنی قرآن فہمی کے نام پر حدیث کا انکار کرکے دراصل قرآن اور اسلام کی عمارت ڈھانے کا چپکے چپکے اہتمام کیا جارہا ہے۔
کلامِ الٰہی کی تفسیر و تشریح کا انتظام خود صاحبِ کلام یعنی اللہ نے کیا۔ اس نے اپنے کلام کو تختیوں کی صورت میں نازل کرنے کے بجائے ایک چلتی پھرتی زندہ تفہیم و تفسیر کی صورت میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے۔ اس پیغمبر کے کردار کو درمیان سے نکال کر کلامِ الٰہی کو کس طرح سمجھا اور اپنایا جاسکتا ہے؟! اتنی سی بات تو ہر ناقص العقل کی سمجھ میں بھی آجاتی ہے۔ لیکن نہیں آتی تو ان علاموں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو عربی زبان کی چار کتابوں اور لغات اور اپنی سمجھ کی مدد سے قرآن فہمی کا منفرد اور سب سے الگ دعوی کررہے ہیں اور یہ راگ بھی الاپتے جاتے ہیں کہ آج تک کلامِ الٰہی کو جس طرح سمجھا گیا وہ سب غلط تھا۔چودہ سو سال کے بعد اب صرف ہم ہی اس کلام کو صحیح طور پر سمجھے ہیں۔ اب ان لوگوں کو کیا کہا جائے۔ اللہ ہمیں ایسے لوگوں سے بچائے۔
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہی
@@@@
(واٹس ایپ گروپ سے کاپی پیسٹ)
 
قرآن میں طلاق کے لیے دو گواہوں کا حکم ہے اس کے بغیر طلاق ہوتی ہی نہیں۔ اسکے برعکس نکاح کے لیے کسی گواہ کی ضرورت نہیں اور وہاں نکاح منعقد نہیں ہونے دیتے۔ احکام الٰہی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہی گھٹن انسانیت کے لیے کراہیت اور مسلمانوں کے لیے روحانی زوال کا باعث ہے۔

آج جو حکومتوں کو اس قدر قوت مل چکی ہے وہ انسانوں کے حقوق چھیننے کی چودہ سو سالہ سلسلے کی کڑی ہے جو مسلمانوں نے جاری کی۔ اللہ کے آخری رسول انسانیت کو ایک نفیس عدل کا پیغام دے کر گئے تھے۔

درباری علماء نے رقم اور منصب کے لیے ساری قوت انسانوں سے چھین کر صاحب حکومت مرد کے حوالے کر دی۔ اب وہ انہی مردوں کو رب سمجھتے ہیں چاہے وہ انکے حقوق میں لاکھ ڈاکا ڈالیں۔ انکی عورتوں کے ساتھ حلالہ کریں۔

زکوۃ کے حیلے پر پلنے والے میلے علماء اللہ کی معرفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ محبت میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔
 
Top