یہ بہت پرانا اعترا ض ہے جو کیا جاتا ہے۔ آپ کی ذہنی تشفی کیلئے کچھ عرض کردیتا ہوں۔ ویسے دبئی میں علماء کی کمی نہیں، آپ وہاں بھی کسی مستند عالم سے یہ سوا ل کرسکتے تھے۔
اس بات پر آپ یقینا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دین کے معاملے میں نرمی نہیں برتتے تھے۔ ان کو اپنے رب کی طرف سے جو حکم ملتا ، وہ اسے کما حقہ بیان کرتے اور اس کو بجا لاتے تھے۔
اب آپ کے اعتراض کو اس بات پر تولتے ہیں۔اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے کسی چیز کے لکھنے کا اور نہ کسی حکم کو پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ضرور کرتے جس کا انہیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہوتا۔
امام نووی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کے لکھوانے میں مصلحت محسوس ہوئی یا انہیں وحی کی گئی ( تو ُآپ نے کاغذ منگوایا ) لیکن پھر انہیں اس کے ترک پر مصلحت معلوم ہوئی یا انہیں وحی کی گئی کہ نہ لکھوانا بہتر ہے (تو نہیں لکھوایا)۔ خود سوچیے کہ اگر کتابت کے حکم کیلئے وحی نازل ہوتی تو کیا اللہ کے رسول اس کو رہنے دیتے ؟؟ محدثین نے فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ان کا اجتہاد تھا اور وہ اس میں تنہا نہیں تھے اور اس اجتہاد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا ۔ اگر غلط ہوتا تو خود اللہ کے نبی لکھوانے کا اہتمام فرماتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور اسی فکرمندی کی وجہ سے آپ کو کچھ لکھوانے کا خیال پیش آیا۔
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اگر یہ واجب اور امر مِن اللہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی بات پر بھی نظر ِ التفات نہ فرماتے بلکہ ضرور لکھواتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت نہیں فرمائی تو یہ امر واجب نہیں تھا اور نہ یہ دین میں سے تھا کہ اس وقت اس کا لکھوانا واجب ہوتا ۔ جبکہ اس واقعے کے بعد بھی دو روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ہی تشریف فرما تھے (اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع میں متفق ہے) ، اگر لکھوانا اہم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں بھی لکھوا دیتے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لکھوانے نہیں دیا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس طرح تو الزم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتا ہے (معاذ اللہ) کہ انہوں نے رسالت کی تکمیل نہیں کی جبکہ تکمیل دین کی آیت پہلے نازل ہوچکی تھی :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا }
پتہ نہیں اس سے آپ کیا باور کروانا چاہتے ہیں۔ صحیح بخاری کو قرآن کے بعد امت نے صحیح ترین کتاب مانا ہے ۔وہ قرآن کا درجہ میں بہرحال نہیں ہے ۔ اہمیت صحیح بخاری کی احادیث کی ہے جو کہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں ہے اور اس سے احکام شریعت میں دلیل پکڑی گئی ہے ۔ اسی لیے قرآن کے بعد صحیح حدیث دین کی اساس ہے۔
اس الزام پر یہ ربط ملاحظہ فرمائیں ۔یہ عربی میں ہے
http://islamqa.info/ar/ref/154865