محترم المقام
کفایت ہاشمی !
آپ نے فتویٰ دیا ہے ۔۔۔۔
آپ مجھے تو گستاخ اور راندہ درگاہ قرار دے سکتے ہیں ۔۔۔
حضرت والا۔ آپ کی ہر تحریر میں جلدبازی اور قلت فہم نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ اور آپ کے ہمنوا ہر بات کو الٹ تناظر میں دیکھتے ہیں اور پھر اعتراض جڑنے کی سعی فرماتے ہیں۔آپ خاص کر غزنوی صاحب کو ہر باٹ ملا کا فتویٰ نظر آتی ہے۔ ہائے افسوس کہ دوسروں کو اپنی عقل ناقص کا شعور نہیں ہوتا اور بے دھڑک ہر بات اپنی عقل کی کسوٹی پر کستے ہیں۔
حاشا کہ ہم آپ پر فتویٰ صادر کریں یا آپ کو گستاخ قرار دیں یا آپ کو راندہ درگاہ قرار دیں۔ یہ کام پیٹ بھرو اور فرقہ باز ملاؤں اور علاماؤں کے ہوسکتے ہیں جن کا کام ہی اپنے مسلک کی پوجا اور اسے صحیح اور باقیوں کو گمراہ قرار دینے کا شغل رچانا ہوتا ہے۔ ہم طالب علموں کے یہ شغل نہیں ہیں لہذا ہمارے بارے میں آپ اپنا ذہن اس طرح کے کسی بھی خیال سے پاک کر لیجئے۔
شکریہ کہ آپ کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ صحابہ کرام کبھی آقا کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کو تکلیف پہنچانے کا تصور بھی کرسکتے ہیں ۔ مگر حیرت ہے کہ آپ کے ذہن نے یہ الفاظ لکھنے پر کیسے آمادگی ظاہر کی ؟؟
سے پسندیدگی کا تاثر ملتا ہے یا ناگواری کا ۔۔۔ ۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت میں اضافہ ثابت ہو رہا ہے یا آرام و سکون ملنا۔؟
اور تو اور آپ کو حدیث قرطاس میں اپنے اس ایمان و یقین سے الٹ ہوتا محسوس کیونکر محسوس ہوا۔
اب آپ ہی بتائیں کہ:
بیک وقت دو متضاد باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں۔
ہم پھرکہے دیتے ہیں کہ ہم نے آپ پر (بلکہ کسی پر بھی) ہرگز ہرگز کوئی فتویٰ نہیں لگایا۔ ہاں ! ہم بے ادبی کو بے ادبی ہی کہتے ہیں۔ ادب نہیں کہتے چاہے الفاظ کا کیسا ہی حسین لبادہ اوڑھادیں۔
یہاں پر کسی کو ناموس رسالت کی پروا ہے اور نہ ہی ناموس فاروق اعظم کا احساس ۔۔ سارے کا سارا زور بخاری کی روایت کو درست ثابت کرنے پر صرف ہورہا ہے کہ کہیں یہ ثابت نہ ہو جائے کہ بخاری بھی تو ایک انسان تھے اور بہ تقاضائے بشری خطا ان سے بھی خطا کا صدور ممکن ہے۔س لیے میرے سوالوں کا جواب دینا ان کی ذمہ داری ہے جو بخاری کی اس روایت کو درست بھی تسلیم کرتے ہیں اور صحابہ کی جانب سے رسول خدا کو تکلیف پہنچانا بھی نہیں مانتے۔ اب انکا یہ فض بنتا ہے کہ میرے سوال کا جواب دیں اور بتائیں کہ بیک وقت دو متضاد باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں۔
جناب ۔ ہمیں تو ناموس مصطفیٰ علیہ الصلاۃ و السلام کی پرواہ ہے اور اس پر کوئی سودے بازی بھی گوارا نہیں ، اسی طرح فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی حرمت و ناموس کا ہی پاس ہے کہ یہاں کے عقلاء حضرات کے سامنے اپنی بات پیش کر رہے ہیں جو کہ اپنی عقلوں کے زور پر امت کا عظیم سرمایہ کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہماری توکیا کسی کی بھی یہ سوچ نہ ہوگی کہ امام بخاری سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ لیکن ذرا ٹھہریے ، کیا کوئی انجینئر یا مکینک یا لائبریرین ہمیں آکر یہ بتائے گا کہ امام بخاری نے کہاں ٍ غلطی کی ہے اور کہاں نہیں۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر آپ اپنے اس خیال کو رفع کرنا چاہتے ہیں تو خود اپنی لگن سے اس مبارک علم (علم حدیث) میں محنت کریں اور اس میں غوطہ زن ہوں ، آپ کو یہ بھی مل جائے گا کہ بعض علماء نے امام بخاری کی صحیح پر تنقید بھی کی ہے۔ لیکن پھر کہتا ہوں کہ یہ علماء کا ہی کام ہے۔ مجھ کم علم و جاہل کا یہ مقام نہیں۔
میرے دل کو تو محمود احمد غزنوی کی بات پسند آئی اور میں نے اسے تسلیم کر لیا۔ لیکن چونکہ اس سے "کچھ لوگوں" کے موقف پر حرف آتا تھا اس لیےانہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یہ ہماری عقلیں اتنی جری کیسے ہوگئیں کہ ہم حدیث کو رد کریں صرف اس لیے کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ’’درایتا“ رد کرنے کا "اختیار“ ہمارے پاس کہاں سے اور کیسے آگیا۔ میں تو کبھی یہ بول نہ بولوں۔ ورنہ بڑبولا کہلاؤں گا۔ کیا ہر شخص جس کو کوئی حدیث سمجھ نہ آئے وہ درایت کی آڑ (درحقیقت عقل کی آڑ ) لے کر رد کردے ؟؟
ہمیں تو اس حدیث پر اشکال ہی نہیں تو مؤقف پر حرف کیسا ؟؟؟
میرے ہر مراسلہ کو آپ نے اور ام نورالعین نے نفس مضمون کا مطالعہ کیے بغیر ہی نا پسند اور غیر متفق کا سرٹیفیکیٹ عطا کرنا شروع کر دیا۔
آپ کے مراسلے میں لائق پسندیدگی کا کوئی عنصر ہو تو فقیر اس کو پسند کرے نا !
ویسے یہ سوال آپ کو
محمود احمد غزنوی سے کرنا چاہیے جو کہ ہر اس بات پر نامتفق کا طغریٰ سجانے میں مزہ اور لطف محسوس کرتے ہیں جن میں ان کے اعتراضات کا رد موجود ہو۔ حتیٰ کہ قرآن و حدیث سے بھی استدلال کرو تو انہیں نامتفق یا ناپسندیدہ ہی لگتا ہے ۔دیکھ لیجئے گا ، اس مراسلے پر بھی نشان احمر لگا ہی لگا ۔
لیکن آپ کو پتہ نہیں کہ فتنہ انکار حدیث اسی واقعہ قرطاس و قلم کو بنیاد بنا کر شروع ہوا تھا۔ غلام احمد پرویز۔۔۔ ۔۔ نے انہی الفاظ کو اپنا موٹو بنایا ہے:
حسبنا کتاب اللہ
اور اسی جملہ سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ حدیث کی ضرورت نہیں قرآن ہی کافی ہے۔
یہی نعرہ تو یہاں بھی لگانے والے بیٹھے ہیں۔ قرآن کے نام پر قرآن کا انکار !!!
اگر ایک مسلمان سوال کرے تو اسے تو آپ یہ کہہ لیں گے کہ تمہاری متاع دین و دانش لٹ گئی، لیکن اگر یہ سوال کوئی غیر مسلم کرے تو آپ کے پاس کیا جواب ہے۔
میں نے تو کسی سوال کرنے والے کی متاع دین و دانش لٹ جانے کی بات نہیں کی۔ آپ شعروں کے اسرار و رموز نہ سمجھیں تو میرا تو کوئی قصور نہیں۔ اور ایک غیرمسلم متاع دین و دانش ہی لینے آتا ہے تو علماء اسے ( بفضل تعالیٰ اور جتنی وہ چاہتا ہے) یہ متاع مقدور حد تک دے دیتے ہیں۔