امان زرگر
محفلین
کچھ مزید گفتگو فرما دیں ان پہ تو بندہ محنت کا صلہ سمجھے۔۔۔۔۔قابلِ فہم ہیں اب تمام اشعار۔
کچھ مزید گفتگو فرما دیں ان پہ تو بندہ محنت کا صلہ سمجھے۔۔۔۔۔قابلِ فہم ہیں اب تمام اشعار۔
نظیری کا شعر ہے:جشنِ عشرت میں یاد غم آئے
اشکِ خونیں بہ چشمِ نم آئے
غزالِ جنوں تیر پیوست ہونے کے بعد زمیں بوس نہیں ہوتا۔ تیر اس کے لیے رمیدگی افزا ثابت ہوتا ہے۔تیر پیوست ہو جگر میں جب
تب غزالِ جنوں پہ رم آئے
حرم تک ان کا آنا کیوں اس قدر اشتیاق کا باعث ہے یہ واضح نہیں۔ساری نظریں اسی طرف ہیں، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے!
ہم چونکہ ستاروں کے ہم قدم بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے کبھی نہ کبھی ہم تیرہ شبی سے وابستہ ہوں جائیں گے۔ہوں گے تیرہ شبی سے وابستہ
ہم ستاروں کے ہم قدم آئے
وقت کے خامے کا آتش افشاں ہونا اس کا لمحۂ مرگ تلک پہنچنا اور صفحۂ زیست پر عدم آنا استعارۂ مرگ ہے۔آتش افشاں ہو وقت کا خامہ
صفحۂِ زیست پر عدم آئے
غالباً حرم کے اندر سے دروازے تک آنا مراد ہے، اور اشتیاق دیدار کا ہے۔حرم تک ان کا آنا کیوں اس قدر اشتیاق کا باعث ہے یہ واضح نہیں۔
تا بہ دروازۂ عدم میں تعقیدِ معنوی پائی جائے گی اس صورت میں۔غالباً حرم کے اندر سے دروازے تک آنا مراد ہے، اور اشتیاق دیدار کا ہے۔
قربان جائیں آپ کے حسنِ فہم کے، آپ کے معانی نے تو ان اشعار کو ایک زندگی عطا کر دی۔۔۔حاضر ہیں وہ معانی جو میں نے ان سے اخذ کیے:
نظیری کا شعر ہے:
گل آمد و ک لعلم ز دلِ سنگ برآورد
اشکم ز تماشائے چمن رنگ برآورد
گل آیا اور میری سنگی دل کو لعل میں بدل گیا، چمن کے تماشے سے میرے اشک بھی رنگین ہو گئے۔
غزالِ جنوں تیر پیوست ہونے کے بعد زمیں بوس نہیں ہوتا۔ تیر اس کے لیے رمیدگی افزا ثابت ہوتا ہے۔
حرم تک ان کا آنا کیوں اس قدر اشتیاق کا باعث ہے یہ واضح نہیں۔
ہم چونکہ ستاروں کے ہم قدم بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے کبھی نہ کبھی ہم تیرہ شبی سے وابستہ ہوں جائیں گے۔
وقت کے خامے کا آتش افشاں ہونا اس کا لمحۂ مرگ تلک پہنچنا اور صفحۂ زیست پر عدم آنا استعارۂ مرگ ہے۔
کچھ اس اصطلاح '' تعقیدِ معنوی '' کی وضاحت فرما دیں۔تا بہ دروازۂ عدم میں تعقیدِ معنوی پائی جائے گی اس صورت میں۔
تا بہ دروازۂ حرم میں تعقیدِ معنوی پائی جائے گی اس صورت میں۔
الفاظ کا ایسا الجھاؤ جو معنی بدل دے۔کچھ اس اصطلاح '' تعقیدِ معنوی '' کی وضاحت فرما دیں۔
مزا نہیں آیا
اس کے بارے میں کہا۔۔۔
منتظر ہے فصیلِ باہر ، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے
جیاس کے بارے میں کہا
اس متبادل سے تو پہلا بہتر ہے۔کیونکہ ریحان بھائی دوسرے مصرع سے اندر کا مفہوم نہیں لینے دے رہے تو باہر کا مفہوم لے لیا۔۔
غالباً حرم کے اندر سے دروازے تک آنا مراد ہے، اور اشتیاق دیدار کا ہے۔
اس متبادل سے تو پہلا بہتر ہے۔
واقعی غور کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اول الذکر حالت میں شعر اتنا برا بھی نہیں تھا۔
یہی سب سے بہتر صورت ہے۔۔۔۔
بے حجابانہ دیکھنے ان کو
تا بہ دروازۂِ حرم آئے
سر محمد ریحان قریشی
سر محمد تابش صدیقی
سر الف عین
فاعل مخفی رکھا ہے تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔