بہت شکریہ محمد وارث صاحب۔
اس بحر کو 'مُجتَث مثمن مخبون محذوف مقطوع' کیوں کہتے ہیں؟
دل خوش کر دیا نظامی صاحب اس سوال اور اسکے انداز نے، واہ واہ واہ
دیکھیئے اس میں عروض کی اصطلاحات استعمال کرنا میری مجبوری ہے۔
مُجتَث کا مطلب ہوتا ہے جڑ سے اکھاڑنا، اس بحر کی مسدس شکل بحرِ خفیف سے نکلی ہے سو کہتے ہیں "بحرِ مجتث بحر خفیف ہے کہ جڑ سے اکھاڑی ہوئی ہے"۔ (بحر الفصاحت)
مثمن کا مطلب آٹھ، یعنی ہماری مذکورہ بحر کے ایک مصرعے میں چار رکن ہیں اور شعر میں آٹھ۔
اگلے الفاظ سمجھنے سے پہلے اس بحر کا سالم وزن دیکھتے ہیں:
مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن
مخبون، خَبن زحاف Modifier کو استعمال کرنے کا نام ہے، ایک زحاف کسی رکن میں کچھ کمی بیشی کر کے اس کی شکل تبدیل کر دیتا ہے۔
خبن میں پہلے سببِ خفیف کے حرفِ ساکن کو گرا دیتے ہیں یعنی مستفعلن میں مُس کا 'س' گرا دیا تو وہ مُتَفعِلُن رہا جسے معروف نام مفاعلن سے بدل دیا۔
یعنی ہمیں خبن سے مفاعلن ملا، جو ہماری بحر کا پہلا رکن ہے۔
اب دوسرے رکن 'فاعِلاتن' پر خبن استعمال کیا تو 'فا' کا الف گرا اور رکن فَعِلاتن رہا جو کہ ہماری بحر کا دوسرا رکن ہے۔
اگلا رکن 'مفاعلن' ہے جو پہلے رکن کی طرح عمل سے گزر کر ہماری بحر کا تیسرا رکن بنا۔
چوتھا رکن 'فعلن' (عین ساکن کے ساتھ) ہے، اس پر دو زحاف اکھٹے استعمال ہوتے ہیں، خذف اور قطع:
حذف : آخری سببِ خفیف گرانا یعنی فاعلاتن سے تن گر کر فاعلا رہا۔
قطع: وتدِ مجموع کا آخری ساکن گرانا اور باقی متحرک بچنے والے حرف کو ساکن کرنا، یعنی 'فاعلا' سے آخری الف گرا تو 'فاعِلَ'، ساکن کیا تو 'فاعل' رہا جسے فعلن معروف سے بدل لیا۔
سمری:
سالم بحر (مجتث مثمن سالم): مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن
زیرِ نظر بحر (مجتث مثمن مخبون مخذوف مقطوع): مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
حاصل ہوئی:
مُستَفعِلُن => خبن => مُتَفعِلن = مفاعِلن
فاعِلاتُن => خبن => فَعِلاتُن
مُستَفعِلُن => خبن => مُتَفعِلن = مفاعِلن
فاعلاتن => خذف => فاعلا => قطع => فاعل = فعلن
میں نے اسے مجملاً بیان کرنے کی کوشش کی ہے، یہ ایک وسیع علم ہے اور ریاضی کے اصولوں پر مبنی (موسیقی کی طرح)۔ صرف اس بحر پر ایک پورا باب لکھا جا سکتا ہے لیکن افسوس، ہزاروں خواہشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں مرزا کو)