برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سمندر سہارے کنارے کنارے
یہ کس کو پکارے کنارے کنارے

نشانی اگر چاہتے ہو تو دیکھو
ملے گے اشارے کنارے کنارے

نجانے یہ کتنے ہی سورج جگر میں
سمندر اتارے کنارے کنارے

یہاں ڈوبتے چاند دیکھے ہیں پھر بھی
ہیں کتنے ستارے کنارے کنارے

بہت حادثے بھی یہاں ہم نے دیکھے
مگر ہیں نظارے کنارے کنارے

سر جی بہت دنوں کے بعد کچھ لکھا ہے اس کی اصلاح بھی فرما دے بہت شکریہ ابھی ایک اور غزل بھی رمل میں لکھی ہیں وہ بھی ارسال کر تھا ہوں دوسرے دھاگے میں بہت شکریہ

سر جی نا تو کسی نے اس غزل کی طرف توجہ دی ہے اور نا ہی الف نظامی صاحب کے سوال کا جواب آیا ہے کچھ تو بولو :grin:
 

الف عین

لائبریرین
او ہو۔۔ یہ پیغامات کب آ گئے؟؟ کبھی کبھی انتر نیٹ لاگ ان کرنے کے بعد منقطع ہو جائے تو کچھ عرصے کے پیغامات رہ جاتے ہیں جدید مراسلات کی تلاش میں۔ پہلے نظامی کی بات کا جواب دے دوں
مجھے وارث کی طرح عروض تو نہیں آتی جو بحر کا مکمل نام بتا دوں۔ بہر ھال یہ نعت اس بحر میں ہے
فاعِلتن مُفاعلن، فاعلتن مفاعلن
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب اس بحر کا نام "رجز مثمن مطوی مخبون" ہے۔

وزن جیسا کہ اعجاز صاحب نے لکھا "فاعِلَتن مفاعلن فاعلتن مفاعلن" ہے، اسکا وزن "مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن" بھی ملتا ہے یا ہے۔

شماری نظام میں اسے یوں لکھیں
2112 2121 / 2112 2121

یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی اسکے بآسانی دو ٹکڑے ہوتے ہیں مفتعلن مفاعلن / مفتعلن مفاعلن، مقطع بحر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ عملِ تسبیغ جو کہ صرف مصرعے کے آخر میں جائز ہے، وہ ایک مقطع بحر میں ہر ٹکڑے میں بھی آسکتا ہے یعنی اسکا وزن

مفتعلن مفاعلان / مفتعلن مفاعلن یا
مفتعلن مفاعلان / مفتعلن مفاعلان یا
مفتعلن مفاعلن / مفتعلن مفاعلان

وغیرہ وغیرہ بھی جائز ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
سمندر سہارے کنارے کنارے
یہ کس کو پکارے کنارے کنارے
کیا مطلب؟ یہ بالکل واضح نہیں، یوں سننے میں اچھا لگ رہا ہے لیکن۔

نشانی اگر چاہتے ہو تو دیکھو
ملے گے اشارے کنارے کنارے
بھئ یہ تم غنہ کیوں کھا جاتے ہو۔ دوسرے مصرعے کا مطلب یہی ہے نا: ملیں گے اشارے کنارے کنارے۔ یہاں بھی ردیف بے معنی ہے۔
بلکہ اس غزل کے ہر شعر میں ردیف کنارے کنارے کا تعلق باقی الفاظ سے نہیں ہو رہا۔ یہ پوری غزل سننے میں اچھی لگے، لیکن مفہوم کے اعتبار سے تقریباً بے معنی ہے۔۔ اس لئے ہر شعر پر اظہارِ خیال نہیں کر رہا۔
 

مغزل

محفلین
میرے خیال میں مفاعلات فعولن مفاعلن فعلن کی بحر ہے ۔۔ صحیح تو وارث صاحب اور الف عین صاحب ہی بتائیں گے ۔۔ میں اس معاملے میں کچا ہوں۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین

نظامی صاحب یہ نعت:

نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھا
حضورِ خاکِ مدینہ خمیدہ ہونا تھا

بحر 'مُجتَث مثمن مخبون محذوف مقطوع' میں ہے اور اسکا وزن

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن

ہے، شماری طریقے میں اسے یوں لکھیں گے:

2121 2211 2121 22

تقطیع دیکھتے ہیں:

نہ آسما - مفاعلن
ن کُ یو سر - فَعِلاتن
کشیدَ ہو - مفاعلن
نا تھا - فعلن

حضور خا - مفاعلن
ک مدینہ - فعلاتن
خمیدَ ہو - معاعلن
نا تھا - فعلن

اس بحر کے عروض و ضروب (آخری اراکین) میں مختلف اوزان آ سکتے ہیں جیسے، فعلن کی جگہ فَعِلن یا فعلان یا فعِلان وغیرہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ محمد وارث صاحب۔
اس بحر کو 'مُجتَث مثمن مخبون محذوف مقطوع' کیوں کہتے ہیں؟

دل خوش کر دیا نظامی صاحب اس سوال اور اسکے انداز نے، واہ واہ واہ

دیکھیئے اس میں عروض کی اصطلاحات استعمال کرنا میری مجبوری ہے۔

مُجتَث کا مطلب ہوتا ہے جڑ سے اکھاڑنا، اس بحر کی مسدس شکل بحرِ خفیف سے نکلی ہے سو کہتے ہیں "بحرِ مجتث بحر خفیف ہے کہ جڑ سے اکھاڑی ہوئی ہے"۔ (بحر الفصاحت)

مثمن کا مطلب آٹھ، یعنی ہماری مذکورہ بحر کے ایک مصرعے میں چار رکن ہیں اور شعر میں آٹھ۔

اگلے الفاظ سمجھنے سے پہلے اس بحر کا سالم وزن دیکھتے ہیں:

مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن

مخبون، خَبن زحاف Modifier کو استعمال کرنے کا نام ہے، ایک زحاف کسی رکن میں کچھ کمی بیشی کر کے اس کی شکل تبدیل کر دیتا ہے۔

خبن میں پہلے سببِ خفیف کے حرفِ ساکن کو گرا دیتے ہیں یعنی مستفعلن میں مُس کا 'س' گرا دیا تو وہ مُتَفعِلُن رہا جسے معروف نام مفاعلن سے بدل دیا۔

یعنی ہمیں خبن سے مفاعلن ملا، جو ہماری بحر کا پہلا رکن ہے۔

اب دوسرے رکن 'فاعِلاتن' پر خبن استعمال کیا تو 'فا' کا الف گرا اور رکن فَعِلاتن رہا جو کہ ہماری بحر کا دوسرا رکن ہے۔

اگلا رکن 'مفاعلن' ہے جو پہلے رکن کی طرح عمل سے گزر کر ہماری بحر کا تیسرا رکن بنا۔

چوتھا رکن 'فعلن' (عین ساکن کے ساتھ) ہے، اس پر دو زحاف اکھٹے استعمال ہوتے ہیں، خذف اور قطع:

حذف : آخری سببِ خفیف گرانا یعنی فاعلاتن سے تن گر کر فاعلا رہا۔
قطع: وتدِ مجموع کا آخری ساکن گرانا اور باقی متحرک بچنے والے حرف کو ساکن کرنا، یعنی 'فاعلا' سے آخری الف گرا تو 'فاعِلَ'، ساکن کیا تو 'فاعل' رہا جسے فعلن معروف سے بدل لیا۔

سمری:

سالم بحر (مجتث مثمن سالم): مُستَفعِلُن فاعِلاتُن مُستَفعِلُن فاعِلاتُن

زیرِ نظر بحر (مجتث مثمن مخبون مخذوف مقطوع): مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

حاصل ہوئی:

مُستَفعِلُن => خبن => مُتَفعِلن = مفاعِلن

فاعِلاتُن => خبن => فَعِلاتُن

مُستَفعِلُن => خبن => مُتَفعِلن = مفاعِلن

فاعلاتن => خذف => فاعلا => قطع => فاعل = فعلن

میں نے اسے مجملاً بیان کرنے کی کوشش کی ہے، یہ ایک وسیع علم ہے اور ریاضی کے اصولوں پر مبنی (موسیقی کی طرح)۔ صرف اس بحر پر ایک پورا باب لکھا جا سکتا ہے لیکن افسوس، ہزاروں خواہشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں مرزا کو) :)
 

ایم اے راجا

محفلین
واہ واہ وارث بھائی کیا محنت فرمائی اور کیا لاجواب جواب دیا ہے، واہ واہ اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور ہمیں ہمیشہ آپ کے علم سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا ہو۔ آمین۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایسی خوبصورت تشریح کا بہت شکریہ محمد وارث صاحب۔
ریاضی و موسیقی و عروض اول تو سمجھ ہی نہیں آتی اور جسے سمجھ آتی ہے اس کا جی ان کی جمالیت سے کبھی نہیں بھرتا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
نظامی صاحب بہت درست فرمایا آپ نے، بے شک، پر جہاں وارث اور اعجاز صاحب جیسے اساتذہ ہوں تو وہ بہت ہی نالائق شاگرد ہوں گے جو نہ سمجھیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نظامی صاحب بہت شکریہ آپ کی وجہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے ورنہ ہم تو صرف ایک ہی بحر کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اب جب ان بحروں کی باری آئے گی تو ہمیں آسانی سے سمجھ آ جائے گی
وارث صاحب بہت شکریہ آپ کی محبت اور محنت ہے کہ آج ہم کچھ نا کچھ لکھ سکتے ہیں پہلے تو میں اور امیں بے بحرے تھے بہت شکریہ
وارث صاحب اور اعجاز صاحب اگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بحر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جائے تو کیسا ہو گا
 
Top