برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، کیا ہم بحرِ متقارب یا کسی اور بحر میں ایک رکن یا ایک لفظ کا اضافہ کر سکتے ہیں، پہلے رکن میں درمیان میں یا آخر میں، جیسے فعولن فعولن فعولن فعولن، فعلان فعولن فعولن فعولن، یا فعولن فعولن فعولن نعلان، یا فعولن فعولن فعلان فعولن، یا فعولن فعلان فعولن فعولن، اس طرح اضافہ کر سکتے ہیں؟

کر سکتے ہیں لیکن اسطرح نہیں جس طرح آپ نے لکھا ہے۔ اس کام کیلیئے عروض میں مہارتِ تامہ چاہیئے۔ مختصراً، یہ زخافات کا عمل ہے اور انتہائی پچیدہ و طویل ہے۔ مثلاً

ہم بحر متقارب مثمن سالم پر بحث کر رہے ہیں، اور صرف اس بحر کی انیس ذیلی شکلیں یا بحریں 'بحر الفصاحت' میں مولوی نجم الغنی رامپوری نے بیان کی ہیں، اسطرح زحافات کے عمل سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں اور ہزاروں بنائی جا سکتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ عملی طور پر اردو کی دو تین سو سالہ شاعری میں، ایک مطالعہ کے مطابق، فقط 37 بحریں استعمال ہوئی ہیں یا ہوتی ہیں۔ اسی طرح غالب کے دیوان میں تقریباً 19 بحریں استعمال ہوئی ہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی زحاف کا عمل کرتے ہیں جس سے رکن کی شکل بدل جاتی ہے تو وہ ایک "نیا" وزن اور "نئی" بحر بن جاتی ہے۔ مثلاً اگر متقارب سالم کے آخری رکن میں تسبیغ زحاف کا عمل کریں تو وہ وزن "فعولن فعولن فعولن فعولان" ایک نیا وزن ہوگا اور ایک نئی بحر بن جائے گی جسکا نام "بحر متقارب مثمن مسبغ" ہے۔

اسی طرح اس بحر میں ایک زحاف استعمال ہوتا ہے "ثَلم" (ثَل، م) اس میں یہ ہوتا ہے کہ "فعولن" میں سے پہلا حرف یعنی "ف" گرا دیتے ہیں اور باقی "عولن" 2 2 بچتا ہے جس کو "فعلن" 2 2 سے بدل لیتے ہیں اور وزن ہو جاتا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن" اور اس بحر کا نام بحر متقارب مثمن اثلم ہے۔

یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ ایک وزن کو دوسرے وزن کے ساتھ استعمال نہیں کر سکتے اور جہاں کر سکتے ہیں وہاں اس کی اجازت دی گئی ہے اور پہلے سے ہی بتا دیا گیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے مثلاً

بحر متقارب مثمن سالم - فعولن فعولن فعولن فعولن

کے ساتھ

بحر متقارب مثمن مسبغ - فعولن فعولن فعولن فعولان

کو تو اکٹھا کر سکتے ہیں اور ایک غزل میں اپنی مرضی جہاں چاہیں دونوں وزن لا سکتے ہیں لیکن

بحر متقارب مثمن اثلم - فعلن فعلن فعلن فعلن

کو سالم کے ساتھ نہیں باندھ سکتے اور اگر ایک مصرع "ثالم" میں اور دوسرا "اثلم" میں باندھیں گے تو یہ غلط ہوگا۔

اسی طرح ہر بحر کے وزن کے ساتھ جس وزن کو اکھٹا کیا جا سکتا ہے اسکیلیئے انتہائی زیادہ مطالعے اور مشق کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک مضمون لکھا تھا "بحر خفیف" پر (یہ بحر مجھے بہت پسند ہے) اور اس بحر میں جن جن اوزان کو اکھٹا کیا جا سکتا ہے ان پر بھی بحث کی ہے اور مشہور شعرا کی اس بحر میں کہی ہوئی غزلیات بھی جمع کرنے کی کوشش کی ہے، ربط دیکھیئے گا:

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=9642

ایک مشورہ آپ کیلیئے یہ کہ ابھی زحافات کی فکر میں مت پڑیں بلکہ ایک ایک بحر کو دیکھیں اس پر مہارت ہو جائے تو اگلی بحر کی طرف جائیں۔


کیا مندرجہ ذیل شعر بحر مقتجب کے مطابق درست ہے ؟

کب تک تیرے بس میں رہوں
غم کی دسترس میں رہوں

میرے ناقص علم کے مطابق یہ شعر بحر متقارب کے کسی بھی وزن (سالم یا مزاحف، مثمن یا مسدس) میں نہیں ہے لیکن لایا جا سکتا ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے بحر متقارب مثمن سالم میں لانے کی کوشش کریں جس پر ہم بحث کر رہے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اس شور کے آخر میں رہوں کا ن غنہ تو ویسے ہی گر جائے گا کیا ہم اسکا ہ بھی گر سکتے ہیں یعنی اسے ہم رہو کے بجائے رو یا رہُ یعنی ہ پر پیش لگا کر وزن پورا کر سکتے ہیں، اگر پہلے مصرعہ کی تقطیع یو کی جائے تو کیا درست ہو گی۔

کب تک مے تے رے بس مے رو یا رہُ
2 2 2 2 2 2 2 2 ، 2

اب مصرعہ اس طرح ہے -
کب تک میں تیرے بس میں رہوں

یعنی ایک میں کا اضافہ کیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ساگر۔ پہلا مصرعہ تو یوں بھی بحر میں درست ہی تھا، میں کے اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔
کب تک۔ فعلن
تیرے۔ فعلن
بس مِر۔ فعلن
ہوں۔ فعل
یعنی یہاںبس میں کے میں کا ی اور ں گر رہا ہے، جو جائز ہے
دوسرے متبادل مصرعے میں میں کے اضافے کے ساتھ تقطیع یوں ہوگی:
کب تک
مترے
بس مر
ہوں
یعنی یہاں مکمل ’تیرے‘ نہیں ’ترے‘ کرنا پڑے گا۔
مسئلہ کر رہا ہے دوسرا مصرعہ۔ جس میں دسترس۔ فاعلن ہے، جو فعلن میں فٹ نہیں ہوتا۔ ’دس تا رس‘ ہوتا تو بات بن سکتی تھی۔ میں نے بھی اور وارث نے بھی اس دوسرے مصرعے کا لکھا تھا۔ معلوم نہیں وارث اس سلسلے میں کیا مشورہ ذہن میں رکھتے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ الف عین صاحب۔
لیکن اس تقطیع میں ہوں کی نون غنہ کو بطور وزن لیا جا رہا ہے، کیا ہم بوقتِ ضرورت نون غنہ کا وزن بھی شامل کر سکتے ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق نون غنہ کا وزن جائز نہیں۔


کب تک تیرے بس میں رہوں
میں غم کے اس رس میں رہوں

اگر یہ درست ہے تو برائے کرم مندرجہ بالا شعر طالبِ توجہ ہے۔
وارث صاحب آپ بھی برائے کرم توجہ فرمائیے گا۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس شور کے آخر میں رہوں کا ن غنہ تو ویسے ہی گر جائے گا کیا ہم اسکا ہ بھی گر سکتے ہیں یعنی اسے ہم رہو کے بجائے رو یا رہُ یعنی ہ پر پیش لگا کر وزن پورا کر سکتے ہیں، اگر پہلے مصرعہ کی تقطیع یو کی جائے تو کیا درست ہو گی۔

کب تک مے تے رے بس مے رو یا رہُ
2 2 2 2 2 2 2 2 ، 2

اب مصرعہ اس طرح ہے -
کب تک میں تیرے بس میں رہوں

یعنی ایک میں کا اضافہ کیا ہے۔


ساگر صاحب میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس شعر کو بجائے بحر متقارب کی مزاحف صورتوں کے، متقارب سالم میں موزوں کریں وگرنہ لفظی رد و بدل کر کے آپ کا شعر کسی بھی بحر میں موزوں کیا جا سکتا ہے لیکن اسکا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، آپ کیلیئے (ابھی) بہتر یہ ہے کہ جس بحر پر ابھی تک بحث کی ہے اسی کو سامنے رکھیں۔ یعنی

فعولن فعولن فعولن فعولن
فعولن فعولن فعولن فعولن

یا

221 221 221 221
221 221 221 221
 

الف نظامی

لائبریرین
محمد وارث صاحب میرے بھی چند سوالات ہیں:
کسی شعر کی تقطیع کرنے کے لیے اس میں سے چند حروف حذف کیے جاتے ہیں ، براہ کرم ان حروف کے بارے میں بتا دیں۔
کیا کسی شعر کی تقطیع کرنے کے بعد پہلے مصرع اور دوسرے مصرع کے حروف کی تعداد برابر ہوتی ہے؟
سب سے طویل بحر اور سب سے چھوٹی بحر کون سی ہے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اصلی پوسٹ بذریعہ فوٹو ٹیک81
اصلی پوسٹ بذریعہ ایم اے ساگر
کیا مندرجہ ذیل شعر بحر مقتجب کے مطابق درست ہے ؟

کب تک تیرے بس میں رہوں
غم کی دسترس میں رہوں


السلام علیکم سر کیا حال ہے آپ کا کیسے ہیں سر میں نے ساغر صاحب کے شعر کو کچھ اس طرح کیا ہے آپ دیکھ یہ ٹھیک ہے کہ نہیں اگر کچھ حد تک ٹھیک ہو تو پھر میں اس کو اسی دھاگے میں ارسال کروں اور آپ کو جواب کا اسی دھاگے میں انتظار کرئے شکریہ





اور کب تلک تیرے بس مین رہوں میں
ارے غم کی ہی دسترس میں رہوں میں

مجھے آپ انتظار رہے گا شکریہ



محمد وارث صاحب
وعلیکم السلام خرم صاحب، آپ نے صحیح کر دیا شعر لیکن اور کسی طرح بحر میں نہیں آتا یہاں چاہے اسے وتد سمجھیں یا سبب یعنی 'اور' 2 1 یا 'ار' 2 کیونکہ یہاں 1 2 یعنی وتد مجموع چاہیئے نا کہ وتدِ مقرون۔ اور کی جگہ بھلا کر دیں تو شعر بحر میں ہے۔ 'ارے غم' صحیح ہے لیکن 'کہ یوں' سے بھی بحر میں ہی رہے گا۔

بھلا کب تلک تیرے بس میں رہوں میں
کہ یوں غم کی ہی دسترس میں رہوں میں

وغیرہ وغیرہ

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ الف عین صاحب۔
لیکن اس تقطیع میں ہوں کی نون غنہ کو بطور وزن لیا جا رہا ہے، کیا ہم بوقتِ ضرورت نون غنہ کا وزن بھی شامل کر سکتے ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق نون غنہ کا وزن جائز نہیں۔


کب تک تیرے بس میں رہوں
میں غم کے اس رس میں رہوں

اگر یہ درست ہے تو برائے کرم مندرجہ بالا شعر طالبِ توجہ ہے۔
وارث صاحب آپ بھی برائے کرم توجہ فرمائیے گا۔ شکریہ۔
میری غلطی ہے یہ۔ اگرچہ اختتام ’فعل‘ پر جائز ہے یہاں، لیکن اس مصرعے میں ’ہوں‘ محض ’فع‘ تقطیع کرنی چاہئے تھی۔ یعنی ’ہو‘۔ ہاں اگر ’ہوں‘ کی جگہ ’اور‘، یار۔ ہوتا تو بھی وزن درست تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث صاحب میرے بھی چند سوالات ہیں:
کسی شعر کی تقطیع کرنے کے لیے اس میں سے چند حروف حذف کیے جاتے ہیں ، براہ کرم ان حروف کے بارے میں بتا دیں۔

شکریہ نظامی صاحب۔

جو حروف حذف کیے جاتے ہیں انکی دو اقسام یا صورتیں ہیں۔ اول تو وہ جن کے بارے میں طے ہے کہ انکا کوئی وزن نہیں ہے اور یہ ہر صورت میں حذف ہو جاتے ہیں، جیسے

- نون غنہ (کوئی وزن نہیں رکھتا)
- نونِ مخلوط، یہ نون ہندی / اردو الفاظ میں ہوتا ہے اور کوئی وزن نہیں رکھتا جیسے اندھیر، اندھیرا، اندھیری وغیرہ اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ میں۔
- واؤ معدولہ جیسے خواب (خاب)، خود (خد)، خواہش (خاہش) وغیرہ۔
- دو چشمی ھ، ہندی الفاظ میں جیسے ابھی، مجھے وغیرہ۔
- یائے مخلوط ہندی / اردو الفاظ میں جیسے پیار (تقطیع میں یہ پار گنا جاتا ہے)، پیارے (پارے)، کیوں (کوں)، کیا (کا) وغیرہ۔
- ت، صرف ان فارسی الاصل الفاظ میں جن میں پے در پے تین ساکن حروف آ جائیں اور سب سے آخر میں ت ساکن ہو، جیسے دوست، گوشت، پوست، کیست، نیست، چیست، برداشت، پرداخت وغیرہ ان سب الفاظ کی آخری ت کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ت صرف وہاں حذف ہوتی ہے جہاں یہ خود بھی ساکن ہو اس سے پہلے کم از کم دو حروف ساکن ہوں۔ موت، دست یا است وغیرہ میں آخری ت حذف نہیں ہو سکتی، اسطرح دوستاں میں ت متحرک ہو گئی ہے سو یہاں بھی حذف نہیں ہو سکتی۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شاعر اپنی مرضی سے کسی لفظ کو گرا دے، یہ گرنے والے حروف عموماً حرفِ علت (الف، واؤ، یا) ہوتے ہیں اور الفاظ کے آخر میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر ہندی / اردو الفاظ میں ہوتے ہیں۔ جیسے کا، کو، کے، تھا، تھے، تھی وغیرہ۔ اسی طرح ہائے ہوز (ہ) کو بھی بلا تکلف گرایا جاتا ہے۔ اس صورت میں پڑھنے والے یا تقطیع کرنے والے خود ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں شاعر نے کوئی لفظ گرایا ہے یا اسے سالم رکھا ہے۔



کیا کسی شعر کی تقطیع کرنے کے بعد پہلے مصرع اور دوسرے مصرع کے حروف کی تعداد برابر ہوتی ہے؟

جی بالکل ہوتی ہے لیکن یہ بات اہم ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں کے الفاظ یا حروف کی تعداد بھی برابر ہو لیکن جب اس شعر کی تقطیع کر کے اسکا عروضی متن لکھا جاتا ہے تو پھر تعداد برابر ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ تقطیع کا مقصد ہی یہی ہے کہ شعر کے الفاظ کو بحر کے الفاظ پر منطبق کیا جائے اور چونکہ ایک بحر کے دونوں مصرعوں میں ہو بہو ایک جیسے الفاظ اور حروف ہوتے ہیں سو جب شعر کی تقطیع کر کے اور اس میں سے حروف گرا کر یا بڑھا کر (اخفا یا اشباع) کا عمل کر کے اسکا عروضی متن لکھا جائے گا تو وہ ہو بہو بحر کے مطابق ہوگا سو تعداد بھی برابر ہوگی۔ بصورتِ دیگر وہ شعر بحر سے خارج اور ساقط الوزن سمجھا جائے گا۔



سب سے طویل بحر اور سب سے چھوٹی بحر کون سی ہے؟

یوں تو نظامی صاحب ایک بحر کا نام بھی بحرِ طویل ہے، لیکن اسکا کوئی معیار نہیں ہے اور یہ کوئی خاص بحور نہیں ہیں۔ اسکا سارا دارومدار ایک بحر میں پائے جانے والے ارکان پر ہے، جیسے ایک بحر میں اگر آٹھ ارکان ہیں تو اسے مثمن کہتے ہیں اسی طرح اگر ایک بحر میں چار ارکان ہوں تو اسے مربع کہیں گے اور یہ چھوٹی سی بحر بن جائے گی۔ اسی طرح اگر مثمن بجر کو دوچند کردیں (جسے عروض میں مضاعف کہتے ہیں) تو اس بحر میں سولہ ارکان ہو جائیں گے اور یہ ایک اچھی خاصی بڑی بحر بن جائے گی۔

مثال کے طور پر ایک بحر ہے، بحر متدارک مثمن سالم، اسکا رکن فاعلن ہے اس کو مضاعف کر کے شعرا، شعر کہتے ہیں، عرفان صدیقی کی ایک غزل کا ایک شعر دیکھیئے اسی بحر میں۔

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

اس سے بھی طویل کی مثال بحر الفصاحت سے مولوی غلام امام شہید کے قصیدے کا یہ شعر (بحر رجز مثمن سالم مضاعف، ایک مصرعے میں مستفعلن آٹھ بار، شعر میں سولہ بار)

آئی بہار اب ہر چمن ہے بلبل و گل کا وطن، دیر و حرم سے نعرہ زن آتے ہیں شیخ و برہمن
زاہد سے کہہ دو یہ سخن ہے فصلِ گل توبہ شکن، گر چاہیئے عیشِ جان و تن میخواروں کا سیکھے چلن

چھوٹی بحروں میں سے ایک مثال ہزج مربع مقبوض از مولوی نجم الغنی مصنف بحر الفصاحت (وزن مفاعلن مفاعلن)

دل و جگر کو چھین کر
وہ بے وفا گیا کدھر

ہمارے حالِ زار سے
اسے ذرا نہیں خبر

لیکن اسی طرح کی شاعری اساتذہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلیے یا بطور مثال کے کرتے تھے/ہیں، ورنہ مروج بحریں لگ بھگ وہیں ہیں جو مثال کے طور پر دیوانِ غالب یا اقبال کے کلیات میں پائی جاتی ہیں اور وہ چھوٹی بڑی ضرور ہیں لیکن مناسب حد تک نہ کے مولوی شہید کے قصیدے کی طرح کی :)
 

ایم اے راجا

محفلین
الف عین، استادِ محترم وارث صاحب اور خرم بھائ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ میری رہنمائی کر رہے ہیں، میں آپ لوگوں کی رہنمائی کی روشنی میں اس شعر کو بحرِ متقارب مثمن سالم میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ امید ہیکہ اسی طرح آپکی رہنمائی سے مستفید ہوتا رہوں گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم وارث صاحب، کیا ہم ضرورتِ شعری کی وجہ سے سے ھ، ہ، یا مندرجہ بالا ت کا وزن باندھ بھی سکتے ہیں، اور کیا کبھی سخت ضررت کے وقت ں کا وزن باندھنا جائز ہے ؟
جیسے ہم اگر پیار کی تقطیع یو کر دیں پ یا ر یعنی 121 یا پیارے کی تقطیع یوں کر دیں پ یا رے یعنی 221 خواب کی تقطیع خ وا ب اور خواہش کی خ وا ہش کیا یہ جائز ہے یا کسی طور بھی جائیز نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استادِ محترم وارث صاحب، کیا ہم ضرورتِ شعری کی وجہ سے سے ھ، ہ، یا مندرجہ بالا ت کا وزن باندھ بھی سکتے ہیں، اور کیا کبھی سخت ضررت کے وقت ں کا وزن باندھنا جائز ہے ؟
جیسے ہم اگر پیار کی تقطیع یو کر دیں پ یا ر یعنی 121 یا پیارے کی تقطیع یوں کر دیں پ یا رے یعنی 221 خواب کی تقطیع خ وا ب اور خواہش کی خ وا ہش کیا یہ جائز ہے یا کسی طور بھی جائیز نہیں۔

ایک استدعا یہ ساگر صاحب کہ مجھے استاد مت لکھیں حضور، میں اس لفظ کا اسکے ہر معنی میں سزاوار نہیں ہوں :) کہ خود اس علم کا طالب علم ہوں، امید ہے خیال رکھیں گے، شکریہ۔ مجھے آپ بلا تکلف 'وارث' لکھ اور کہہ سکتے ہیں۔

دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں ہے، اسی طرح اس مخصوص ت کا جس پر بات اوپر ہوئی ہے اور جسے بعض اساتذہ تائے فارسی بھی کہتے ہیں کوئی وزن نہیں سو انکا وزن شمار کرنا غلط ہے۔

نون غنہ کا بھی کوئی وزن نہیں ہے سو اسکا وزن شمار کرنا غلط ہے، انتہائی ضرورت میں نون غنہ کی بجائے نون معلنہ (جس نون کا لفظ میں اعلان کیا جائے یا آواز نکالی جائے) وہ استعمال کریں جیسے آسماں کی جگہ آسمان اور بصورتِ دیگر آسمان کی جگہ آسماں۔ لیکن "میں" کو آپ کسی بھی صورت "مین" نہیں باندھ سکتے یہاں نون غنہ ہر صورت میں گرے گا۔

الفاظ کے آخر میں آنی والی ہائے ہوز (ہ) کا وزن رکھنا یا نہ رکھنا شاعر کی مرضی ہے۔ جیسے شہنشاہ کو ش ہن شا ہ یا 1 2 2 1 یا مفاعیل سمجھیں یا ش ہن شا 1 2 2 یا فعولن سمجھیں۔ اسی طرح کہ دیگر الفاظ۔

واؤ معدولہ کسی بھی صورت وزن میں نہیں آئے گی۔ خواب کو خ وا ب یا 1 2 1 یا فعول باندھنا سراسر غلط ہے یہ ہمیشہ خاب یا 2 1 یا فعل ہوگا۔ اسی طرح دوسرے الفاظ ہیں۔

پیار اور پیارے کو بھی ی کے بغیر شمار کریں گے اور کم از کم آج تک میری نظر سے کوئی شعر ایسا نہیں گزرا جس میں شاعر نے پیار کو پ یا ر باندھا ہو (میر کے ایک شعر پر کبھی شک گزرا تھا لیکن افسوس اب وہ غزل اور شعر یاد نہیں)۔ لیکن اس وقت عروض پر جتنی بھی کتب میرے پاس ہیں ان میں یہی ہے کہ پیار اور پیارے وغیرہ میں ی کا شمار نہیں ہوگا اور یہ 'پار' اور 'پارے' ہی باندھا جائے گا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
حقیقت چُھپا کر خبر سے بغاوت
مرے من نے کی ہے نظر سے بغاوت

کبھی جو اُجالا ، اُجالا بنا تو
تو کرنی پڑی پھر سحر سے بغاوت

محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت


وارث بھائی اس پر نظر ڈالے میں نے تجربہ کیا ہے اس تجربے کو کامیاب کرے
 

محمد وارث

لائبریرین
حقیقت چُھپا کر خبر سے بغاوت
مرے من نے کی ہے نظر سے بغاوت

کبھی جو اُجالا ، اُجالا بنا تو
تو کرنی پڑی پھر سحر سے بغاوت

محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت


وارث بھائی اس پر نظر ڈالے میں نے تجربہ کیا ہے اس تجربے کو کامیاب کرے


خرم صاحب آپکے مندرجہ بالا اشعار وزن میں ہیں۔ بہت خوب۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی ترقی کر رہے ہیں خرم ماشاء اللہ۔ مبارک ہو۔۔۔بس پہلے شعر میں میرا مشورہ ہے کہ فارسی الفاظ کے درمیان ہندی کا ’من‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو ’دل‘ کرنے میں کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث صاحب آپ نہیں چاہتے کے میں آپ کو استاد کہوں تو کیا ہوا یہ تو کہنے والے کی مرضی ہے نا، ہاہاہاہا کیوں؟ بہر حال میں آپ کو آئیندہ وارث بھائی کہہ کر پکارا کروں گا حالانکہ میرا خیال ہیکہ شاید ہم دونوں ہم عمر ہیں لیکن مجھ پر آپ کا احترام لازم ہوچلا ہے نا۔

خرم بھائ آپ کو مبارک ہو، بہت زبردست اور حقیقت پر مبنی اشعار ہیں لیکن الف عین صاحب کی بات پر عمل کریں اور من کو دل لکھیں،
بھائی مجھے آخری مصرعہ سمجھ نہیں آیا اگر آپ اسکی تقطیع کر دیں تو مجھے سمجھ آجائے گا، جسکے لیئے مشکور رہوں گا،، اوہو بھول گیا پھر شکریہ ادا کر دیا، توبہ توبہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب آپ نہیں چاہتے کے میں آپ کو استاد کہوں تو کیا ہوا یہ تو کہنے والے کی مرضی ہے نا، ہاہاہاہا کیوں؟ بہر حال میں آپ کو آئیندہ وارث بھائی کہہ کر پکارا کروں گا حالانکہ میرا خیال ہیکہ شاید ہم دونوں ہم عمر ہیں لیکن مجھ پر آپ کا احترام لازم ہوچلا ہے نا۔

بہت شکریہ ساگر صاحب آپ کا اور احترام کیسا محترم یہ محفلِ دوستاں و بزمِ سخنوراں ہے یہاں سب روا ہے۔:)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
حقیقت چُھپا کر خبر سے بغاوت
مرے دل نے کی ہے نظر سے بغاوت

کبھی جو اُجالا ، اُجالا بنا تو
تو کرنی پڑی پھر سحر سے بغاوت

محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت

فعو
محب
لن
بت

فعو
نہی

لن
اب

فعو
عقع

لن
دت

فعو
نہی

لن
اب


فعو

ک یو

لن
کر

فعو
رہا

لن
ہو

فعو
جگر

لن
سے

فعو
بغا

لن
وت


میں نے تو ایسے کیا ہے ساگر بھائی اب کہاں سے سمجھ نہیں آ رہی ہے


وارث صاحب میں سوچ رہا ہوں اس بحر میں کم از کم 5 غزلیں لکھ لے اس کے بعد پھر دوسری بحر کی طرف جاتے ہیں کیا خیا ہے آپ کا
 
Top