سیما علی
لائبریرین
باکل ٹھیک کہا ۔۔۔۔۔۔دھونی دینے کا رواج بھی اب ختم ہو گیا ہے۔
باکل ٹھیک کہا ۔۔۔۔۔۔دھونی دینے کا رواج بھی اب ختم ہو گیا ہے۔
گانا بارہا سنا ہے اور کبھی کبھار دیکھا بھی ہے لیکن فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا۔ہاہاہاہا ۔۔۔ کیا یاد دلا دیا
غالباً شاہد نے وہ رول کیا تھا ۔۔۔ بھانڈے قلعی کرنے والے کا کسی امیر گھرانے میں رشتہ ہوجاتا ہے، پھر وہ اس کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں کوئی کہانی گھڑ لیتے ہیں شاید
آخر میں موصوف بھری محفل میں سوٹ پہنے بھانڈے لیے پہنچ جاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں ’’پانڈے کلئی کرالو‘‘ ۔۔۔ اور اپنی اصلیت کا اعلان فرماتے ہیں
یہ مہدی حسن کی آواز میں ہے،گانا بارہا سنا ہے اور کبھی کبھار دیکھا بھی ہے لیکن فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا۔
متفق ہوں کہ رواج واقعی ختم ہو چکا ہے۔دھونی دینے کا رواج بھی اب ختم ہو گیا ہے۔
میں نے اس کا پنجابی ورژن دوگانا بھی سن رکھا ہے، جو بھارتی پنجاب کے گلوکاروں رنگیلا جٹ اور سریندر کور نے گایا ہے۔یہ مہدی حسن کی آواز میں ہے،
گوگل کیا تو پتہ چلا کہ ایک ہندوستانی ورژن بھی ہے
اس کی جگہ بھی میٹرو ملن اگر بتیوں نے لے لی تھی ۔ اب بھی خال خال برسی فاتحہ پر استعمال ہوتی ہی ہوں گی ۔دھونی دینے کا رواج بھی اب ختم ہو گیا ہے۔
" نیک مائی ! نیک بابو ! دے اللہ کی راہ میں ۔ "
یہ والے سریلے فقیر بھی معدوم ہوگئے ۔ ان کی جگہ اب
"اللہ تمہاری جوڑی سلامت رکھے"
والے فقیروں نے لے لی ہے ۔
اب یہ بیٹھنے کے کام آتا ہے۔کنوؤں کا رواج بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اور ویسے بھی شاید اب چالو کنویں کم ہی رہ گئے ہوں گے۔
پہلے تو گھروں میں بھی کنوؤں کا رواج رہا ہے۔
لکڑی کے دروازے میں ایک "آگل" بھی ہوا کرتی تھی جو کنڈی کا کام کرتی تھی ۔ اگر اس میں دستہ ہو تو باہر سے دروازہ کھل جاتا تھا ورنہ آگل کو اندر سے کھولنا پڑتا تھا ۔
انہیں پتہ ہوتا ہے کسے کیا دعا دینی ہے، ہماری یونیورسٹی میں بیٹھنے والے فقیر نوکری اور امتحانات میں کامیابی کی دعائیں دیتے ہیں۔" نیک مائی ! نیک بابو ! دے اللہ کی راہ میں ۔ "
یہ والے سریلے فقیر بھی معدوم ہوگئے ۔ ان کی جگہ اب
"اللہ تمہاری جوڑی سلامت رکھے"
والے فقیروں نے لے لی ہے ۔
مکان کے دروازے سے بالکل پہلے کا حصہ ڈیوڑھی کہلاتا ہے ۔ یہ اینٹوں یا پتھروں کا بنا ہوتا ہے اور اس کے اوپر چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ اس میں سیڑھیاں بھی ہوسکتی ہیں اور یہ ایک چبوترہ نما بھی ہوسکتا ہے اور دونوں بھی ۔ دہلیز پار کرکے جب گھر میں داخل ہوں تو صحن یا آنگن سے پہلے کا حصہ دالان یا ورانڈہ یا برآمدہ کہلاتا ہے ۔ اس پر بھی چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ جبکہ صحن یا آنگن اوپر سے کھلے ہوتے ہیں ۔ پرانے گھروں کی جو تصویریں آپ نے اوپر لگائی ہیں ان میں یہ حصے واضح طور پر نظر آرہے ہیں ۔
بھئی فہد آپ کیا سمجھتے ہیں ۔انہیں پتہ ہوتا ہے کسے کیا دعا دینی ہے، ہماری یونیورسٹی بیٹھنے والے فقیر نوکری اور امتحانات میں کامیابی کی دعائیں دیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے آس پاس منڈلانے والے فقیر بڑے کائیاں ہوتے ہیں، طلبا کی چال ڈھال دیکھ کر دعا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس کو امتحان اور کامیابی والی دعا میں دلچسپی ہے اور کس کو جوڑی کی سلامتی میںانہیں پتہ ہوتا ہے کسے کیا دعا دینی ہے، ہماری یونیورسٹی بیٹھنے والے فقیر نوکری اور امتحانات میں کامیابی کی دعائیں دیتے ہیں۔
انہیں پتہ ہوتا ہے کسے کیا دعا دینی ہے، ہماری یونیورسٹی بیٹھنے والے فقیر نوکری اور امتحانات میں کامیابی کی دعائیں دیتے ہیں۔
یہ دونوں مراسلات کچھ کچھ ذاتی تجربات لگ رہے ہیں۔یونیورسٹیوں کے آس پاس منڈلانے والے فقیر بڑے کائیاں ہوتے ہیں، طلبا کی چال ڈھال دیکھ کر دعا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس کو امتحان اور کامیابی والی دعا میں دلچسپی ہے اور کس کو جوڑی کی سلامتی میں
کاش ہم بھی ’’جوڑی سلامت گروپ‘‘ میں ہوتےیہ دونوں مراسلات کچھ کچھ ذاتی تجربات لگ رہے ہیں۔
کاش کیوں ؟کاش ہم بھی ’’جوڑی سلامت گروپ‘‘ میں ہوتے
بس ایک حسرت سمجھ لیجیے ۔۔۔ ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئےکاش کیوں ؟
دوبارہ سے داخلہ لیں، فقیر ہم بھجوا دیں گے۔بس ایک حسرت سمجھ لیجیے ۔۔۔ ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے