ایم اسلم اوڈ
محفلین
برما (میانمار) میں تین جون سے بے گناہ و مظلوم مقہور مسلمانوں کا بدترین قتل عام جاری ہے۔ لاکھوں مسلمان جو برما بنگلہ دیش کی سرحد پر ساحلی دلدلی علاقوں میں جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، کا اچانک قتل عام شروع کر دیا گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کر لیا تھا جسے بودھوں نے غصہ میں آ کر پہلے قتل کیا اور پھر اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا کہ انہوں نے اغواء کر کے اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کیا۔ یہ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا۔ 3 جون کو بودھوں نے ایک بس روک لی اور پھر اس میں سوار تبلیغی جماعت کے 10 ارکان کو اتار کر قتل کر دیا۔ ساتھ ہی کئی ایک کے سر اور چہرے مونڈھ کر مشہور کر دیا کہ مسلمانوں نے بودھ رہنما کو شاگردوں سمیت قتل کیا ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہر طرف سے بودھ مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئے۔ انہوں نے بے بس و بے کس مسلمانوں کا مار مار کر کچومر نکال دیا۔ 10 جون کو جب دنیا تک خبر پہنچی تو افواج کے ساتھ کرفیو نافذ کر کے معمولی میڈیا کو بھی علاقہ بدر کر دیا گیا۔ یوں اب فوج، پولیس اور بودھ مل کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ہزاروں بستیاں جلا دی گئی ہیں۔ لاکھوں مسلمان جو معمولی جھونپڑیوں میں رہتے تھے وہ بھی خاکستر کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں مسلمان جانیں بچانے کے لئے بنگلہ دیش کی طرف بھاگے تو انہیں بنگلہ دیشی بحریہ اور فوج نے واپس دھکیل دیا۔ واپس پہنچے تو وہ بھی قتل ہو گئے۔ مقامی حکومت نے پہلے ہی ان مسلمانوں سے شہریت چھین رکھی ہے۔ مسلمان تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، علاج معالجہ نہیں کروا سکتے، سفر نہیں کر سکتے، دوسرے گائوں تک نہیں جا سکتے، جو 15 سال سے بڑا ہو ،اسے فوج اٹھا کر خرکار کیمپ میں لے جا کر جبراً مزدوری کرواتی ہے۔ برما انہیں بنگالی جبکہ بنگلہ دیش انہیں برمی قرار دیتا ہے۔ یوں وہ دونوں طرف سے مار کھا رہے ہیں۔ ساری دنیا ان مظلوموں کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کوئی ان کا غمگسار نہیں۔ 57 مسلم ممالک میں سے کبھی کسی نے ان کے لئے زبان سے کوئی لفظ نہیں نکالا، کبھی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے ان کی کوئی بات نہیں کی۔ اب اقوام متحدہ نے امداد کے لئے اپیل کی ہے تو اس میں کہا گیا ہے، مسلمانوں اور بودھوں کی باہم لڑائی میں بے گھر ہونے والوں کو امداد کی ضرورت ہے جن کی تعداد 90 ہزار ہے، اس سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہاں جیسے برابر کی لڑائی جاری ہے، یہ دوہرا ظلم ہے جو ان مسلمانوں پر روا رکھا گیا ہے۔
اس صورتحال پر یاد آیا کہ پاکستان میں ایک عیسائی خاتون آسیہ نے توہین رسالت کی، اسے عدالت سے سزائے موت ہوئی تو سارا یورپ امریکہ میدان میں آ گیا۔ پوپ جان پال تک متحرک ہوا، بیان دیا پھر پاکستان میں اس پر بہت بڑی تحریک چلی، گورنر پنجاب سمیت کتنے لوگ قتل ہوئے اور قضیہ تھما نہیں۔
پاکستانی ہندوئوں کے قبول اسلام کی جھوٹی بات پر بھارت کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا۔ آخر کیوں…؟ دنیا میں مسلمان ہی وہ واحد مخلوق ہیں کہ جن کے مارے جانے پر ہر طرف قبرستان جیسی خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے… مسلمانوں کی کیفیت تو ان برائلر مرغیوں جیسی ہو چکی ہے کہ جو ڈربے میں سے باری باری نکلتی، ذبح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں لیکن بولتی کوئی بھی نہیں۔ نہ کبھی قصاب کے ہاتھ پر چونچ مارتی ہیں۔ اگر سارے مسلمان یونہی خاموش رہیں گے تو لازماً ان مرغیوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔ آج یہی حال شام میں بھی مسلمانوں کا ہے کہ جن پر بشارالاسد سوا سال سے بے پناہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ 20 ہزار سے زائد مسلمان شہری بشارالاسد کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ بشارالاسد کو روس کی کھلے عام اور امریکہ و یورپ کی مکمل غیر اعلانیہ مدد حاصل ہے۔ اس کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ وہ نصیری مذہب کا ماننے والا ہے جبکہ اس کے مقابل شہید ہونے والے عام مسلمان ہیں۔ اسلام دشمنوں کی ہی کوشش ہے کہ نصیریوں کا خاتمہ اور مسلمانوں کی حکومت قائم نہ ہو سکے۔ نصیری جیلوں میں قید مسلمانوں سے بشارالاسد کی تصویر کو سجدہ کرواتے اور نعوذباللہ بشارالاسد کے نام کا کلمہ پڑھواتے ہیں۔ بہرحال یہاں صورتحال اس لئے کچھ بہتر ہے کہ فوج میں بغاوت اور پھوٹ پڑ چکی ہے۔ دنیا بھر میں مسلم نوجوان بھی تنگ آ کر بشارالاسد کی افواج کے خلاف لڑنے کے لئے تیزی سے شام پہنچ رہے ہیں۔ خصوصاً پڑوسی ممالک اور لیبیا کے انقلابی دستے اس میں پیش پیش ہیں۔ امید ہے کہ یہاں 20 ہزار سے زائد مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور امریکہ کو ایک اور محاذ پر شکست ہوگی لیکن اس قدر اندھے قتل عام پر جس طرح دنیا بھر اور مسلم دنیا نے چپ سادھ رکھی ہے وہ یا پھر اپنی باری پر مرنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ انتہائی پریشان کن ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ چپ کا روزہ توڑنا چاہئے اور آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
اس صورتحال پر یاد آیا کہ پاکستان میں ایک عیسائی خاتون آسیہ نے توہین رسالت کی، اسے عدالت سے سزائے موت ہوئی تو سارا یورپ امریکہ میدان میں آ گیا۔ پوپ جان پال تک متحرک ہوا، بیان دیا پھر پاکستان میں اس پر بہت بڑی تحریک چلی، گورنر پنجاب سمیت کتنے لوگ قتل ہوئے اور قضیہ تھما نہیں۔
پاکستانی ہندوئوں کے قبول اسلام کی جھوٹی بات پر بھارت کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا۔ آخر کیوں…؟ دنیا میں مسلمان ہی وہ واحد مخلوق ہیں کہ جن کے مارے جانے پر ہر طرف قبرستان جیسی خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے… مسلمانوں کی کیفیت تو ان برائلر مرغیوں جیسی ہو چکی ہے کہ جو ڈربے میں سے باری باری نکلتی، ذبح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں لیکن بولتی کوئی بھی نہیں۔ نہ کبھی قصاب کے ہاتھ پر چونچ مارتی ہیں۔ اگر سارے مسلمان یونہی خاموش رہیں گے تو لازماً ان مرغیوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔ آج یہی حال شام میں بھی مسلمانوں کا ہے کہ جن پر بشارالاسد سوا سال سے بے پناہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ 20 ہزار سے زائد مسلمان شہری بشارالاسد کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ بشارالاسد کو روس کی کھلے عام اور امریکہ و یورپ کی مکمل غیر اعلانیہ مدد حاصل ہے۔ اس کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ وہ نصیری مذہب کا ماننے والا ہے جبکہ اس کے مقابل شہید ہونے والے عام مسلمان ہیں۔ اسلام دشمنوں کی ہی کوشش ہے کہ نصیریوں کا خاتمہ اور مسلمانوں کی حکومت قائم نہ ہو سکے۔ نصیری جیلوں میں قید مسلمانوں سے بشارالاسد کی تصویر کو سجدہ کرواتے اور نعوذباللہ بشارالاسد کے نام کا کلمہ پڑھواتے ہیں۔ بہرحال یہاں صورتحال اس لئے کچھ بہتر ہے کہ فوج میں بغاوت اور پھوٹ پڑ چکی ہے۔ دنیا بھر میں مسلم نوجوان بھی تنگ آ کر بشارالاسد کی افواج کے خلاف لڑنے کے لئے تیزی سے شام پہنچ رہے ہیں۔ خصوصاً پڑوسی ممالک اور لیبیا کے انقلابی دستے اس میں پیش پیش ہیں۔ امید ہے کہ یہاں 20 ہزار سے زائد مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور امریکہ کو ایک اور محاذ پر شکست ہوگی لیکن اس قدر اندھے قتل عام پر جس طرح دنیا بھر اور مسلم دنیا نے چپ سادھ رکھی ہے وہ یا پھر اپنی باری پر مرنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ انتہائی پریشان کن ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ چپ کا روزہ توڑنا چاہئے اور آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput