یہی تو سمجھ نہیں آتا مجھے۔۔ ہم لوگ پڑھے لکھے، سمجھدار پھر بھی ان چکروں میں کیوں پڑ جاتے ہیں
پتہ نہیں کیا بات ہے میرا دل بھی بہت پریشان ہوتا ہے لیکن ایسے کیسز میں جو لوگ شکار بنتے ہیں وہ ایسی ہی کسی مجبوری میں پس جاتے ہیں ، آپ نے کہا ایسے کئی کیسز ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں بھی ایسی جگہ ہمت ہار دیتی ہیں ۔
ہماری ایک جاننے والی لڑکی تھیں انہوں نے مجھ سے دینی مسائل پر مشورہ لیا تھا ۔ الحمدللہ ان کی جان بچ گئی تھی اور آخر کار انہوں نے طلاق لے لی، لیکن جو ٹارچر انہوں نے جھیلا تھا وہ سننے میں ہی بہت خوف ناک تھا ، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ پتا نہیں کیسے وہ ان حالات سے گزری ہوں گی ۔ انہوں نے کہا کہ میں شروع سے بزدل تھی، سٹیپ نہیں لے سکتی تھی، اس لیے سہتی رہی، البتہ مذہب کی سپورٹ سے مجھے ہمت ہوئی ۔ اور دوسری بات انہوں نے کہی کہ میں گھر کبھی توڑنا نہیں چاہتی تھی، ان کا ایک بچہ ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ جتنا ظلم آپ نے برداشت کیا ہے یہ کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا ۔آپ بزدل نہیں بہادر ہیں ۔لیکن میں اکثر سوچتی ہوں :
کیا ایک گھر کی تمنا عورت کو اتنا بہادر بنا دیتی ہے کہ وہ اس کو بچانے کے لیے ایک درندے کے ساتھ رہ لے ؟
یا شاید ہمارے معاشرے کی روایتی لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ ایک طلاق کے بعد شاید ہی گھر کی راحت دوبارہ نصیب ہو اس لیے وہ یہ سب سہتی ہیں ؟
ہمارے پیچیدہ معاشرتی نظام نے لڑکیوں کی نفسیات بھی پیچیدہ کر دی ہے ۔ کچھ تو ہے ، جس کی وجہ سے حالات نہیں بدل رہے ؟
ان کے والدین عدت کے بعد دوسری شادی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کتنا عرصہ دوسری شادی کے نام سے یوں بھاگتی تھیں جیسے کوئی گناہ ہو گا، کیوں کہ طلاق کے بعد دوسری شادی ہمارے لوگوں کو چٹخارے دار موضوع دے دیتا ہے ، ہم فرینڈز نے مل کر کافی سمجھایا ان کو۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگ باتیں بناتے ہیں ، ان کے بارے میں بھی اور ان کے بچے کے بارے میں ۔ شاید وہ انہی باتوں سے ڈرتی تھیں، کل کو بچے نجانے کیا سوچیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک جونئیر کی شادی ہوئی تھی ، وہ دیکھنے میں اتنی نازک اور کم گو ہے کہ یقین نہیں آتا کہ کوئی اس پر کبھی غصہ بھی کرے گا ، ہاتھ اٹھانا تو دور کی بات ہے ۔ لیکن شادی کے صرف دو ماہ بعد وہ ہاسپٹل میں شدید زخمی ہو کر ایڈمٹ ہوئی، مسلسل بے ہوش تھی اور خاصا خون بہہ گیا تھا ۔ ہسپتال والوں نے انجریز دیکھ کر اس کے پیرنٹس اور پولیس کو بلالیا۔ ہوش میں آنے پر اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے تشدد کیا ہے ۔ نندیں پاس تھیں ۔ اور اس کی والدہ نے بتایا کہ اس نے ان سے کہا تھا کہ مجھے واپس نہیں جانا ، لیکن والدہ نے کہا کہ سسرال کی مشکلات سہنی پڑتی ہیں ۔ اور اگلے ہفتے یہ سب ہو گیا۔ اس کے پڑوسیوں نے شور سن کر اس کے سسرالیوں کو ہسپتال تک جانے پر مجبور کیا ورنہ شاید وہ گھر میں ہی پڑے مر جاتی۔ والدہ کا کہنا تھا کہ یہ میری پہلی بیٹی ہے ، پہلی بیٹی کا گھر اجڑ جائے تو اگلی بیٹیوں کی شادی نہیں ہوتی، طلاق اللہ کو ناپسند ہے، ہمارے یہاں کبھی طلاق نہیں ہوئی وغیرہ ۔ یہ ہمارے معاشرے کے سیانوں کی باتیں ہیں۔ جھگڑا یہ تھا کہ شوہر کی جاب شادی کے بعد ختم ہو گئی تھی ، کاروبار کے لیے سسر سے پیسے مانگ رہا تھا ، جب کہ بیوی کا کہنا تھا کہ اب وہ مزید پیسے لا کر نہیں دے سکتی ۔ صرف دو ماہ میں وہ لڑکی سوکھ کر کانٹا بن گئی ہے ۔