فرانکفرٹ کا نام آتے ہی دنیائے سخن کی ایک ایسی بے نظیر شخصیت کا نام ذہن میں گونجنے لگتا ہے جس نےڈھائی سو سال قبل نہ صرف جرمن بلکہ عالمی ادب کے شاہکار تخلیق کیے۔ ایک ایسی ہستی کہ جرمنی کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں اس شخصیت کے نام پر کوئی سڑک یا گلی موجود نہ ہو۔ ایک ایسی ہستی کہ اگر دنیا کی شاعری کی تاریخ میں چند ایسے سخن وروں کا انتخاب کیا جائے جنہوں نے فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے، شعریت کی نزاکتوں کو برقرار رکھتے ہوئے، تخیل کی بلند و بالا پرواز کرتے ہوئے، اپنی شاعری کو پیغام دینے کا ذریعہ بنایا ہو، اور ان کی ایک انتہائی محدود فہرست بندی بھی کی جائے، تو اس شخصیت کو اس سے الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ وہی شخصیت ہے کہ جس کی ادبی عظمت کا اعتراف اقبال نے غالب کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے۔
آہ! تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
میری مراد جرمنی کے نادرۂ روزگار شاعر و ادیب گوئٹے سے ہے۔ فرانکفرٹ گوئٹے کا آبائی شہر ہے اور اس کی رہائش گاہ کو ایک گوئٹے میوزیم میں بدل دیا گیا ہے۔ اگلی منزل اس عظیم شاعر کی رہائش گاہ تھی۔ سڑک پر رہنمائی کے لیے سائن بورڈ آویزاں تھے۔