سیما علی
لائبریرین
روتے تو ایسے ہیں کہ ہم لوگ انکے چھم چھم بہتے نین دیکھ نرم پڑ جاتے ہیں۔لنڈورے ہی تو نہیں ہیں۔۔۔ ان کی پہاڑ سی زندگی تو ان کی دنیا کی مایہ ناز کوہ پیما پہلے ہی سر کر چکیں۔۔۔ یہ ایویں بس شوقیہ ادھر ادھر پھلجڑیاں چھوڑتے پھر رہے
روتے تو ایسے ہیں کہ ہم لوگ انکے چھم چھم بہتے نین دیکھ نرم پڑ جاتے ہیں۔لنڈورے ہی تو نہیں ہیں۔۔۔ ان کی پہاڑ سی زندگی تو ان کی دنیا کی مایہ ناز کوہ پیما پہلے ہی سر کر چکیں۔۔۔ یہ ایویں بس شوقیہ ادھر ادھر پھلجڑیاں چھوڑتے پھر رہے
اچھاااا ۔ ۔ ۔نام کے ساتھ بٹیا اُنکے بھی 620 ہے
200 اضافی ہیں خیال رہےاچھاااا ۔ ۔ ۔
بھابھی سختی کرتی ہیں نا اس لئیے ہمدردیاں بٹورنے کے بہانے ہیں سبروتے تو ایسے ہیں کہ ہم لوگ انکے چھم چھم بہتے نین دیکھ نرم پڑ جاتے ہیں۔
شرکاء سے مراد والدین ، معاشرہ اور معروضی حالات بھی ہیں ۔ جو نظر آ رہا ہوتا ہے ہے شاید وہ اکیلا مجرم نہیں ہوتا اور یہ آسان ہے کہ ایک کو مجرم ٹھہرا کر اور اسے سزا دے کر بظاہر انصاف کر دیا جائے اور یہ لگ بھگ نا ممکن کہ مجرم کوجرم میں اس کا جتنا حصہ بنتا ہےاس کی ہی سزا ملے ۔آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو شعور دیا ہے۔۔۔۔ انسان اور جانور میں سوچ اور سمجھ کا ہی فرق ہے۔۔۔ کسی جانور کو سدھا دیں تو وہ بن سوچے سمجھے آپ کی بات مانے جائے گا۔۔۔ مگر انسان کو اللہ پاک نے دماغ دیا ہے۔۔۔ ایک عمر کے بعد انسان اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے ہماری مصیبت ہی یہ ہے کہ ہم اتنے میچور ہی نہیں کہ اپنے ایکشنز کی ذمہداری لیں۔۔۔ تبھی یہ نکتہ نکلتا کہ جرم کرنے والے کو اس لی سزا اور شرکاء کو ان کی سزا ملے۔۔۔۔ شرکا کون؟ معاشرہ؟ معاشرہ بھی افراد سے بنتا نا۔۔۔۔ ہر فرد کم از کم اپنی ذمہ داری لے اپنے ساتھ خود تو انصاف کرے۔۔۔ یہ بھی انصاف ہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ساری عمر بے بی سمجھ کر اپنے ہر عمل کی ذمہ داری دوسروں پر مت ڈالتے رہیں۔۔۔۔
یہ شاید بات پٹڑری سے اتر گئی۔۔۔
لیکن ایک بات کلئیر کیجیے کیا انصاف کی اس بات کا تعلق اول ذکر (عمومی طریقہ) سے ہے یا دوم ذکر (بچوں سے)؟؟؟؟
کیونکہ بچوں سےمتعلق میں ذرا زیادہ پوزیسو ہوں۔۔۔ ایویں ایموشنل ہو کر تقریریں نہیں لکھنا چاہتی۔۔۔
باریکی ہی سے دیکھیں تو ایسا ممکن ہے ۔ ۔ پاکستان کے تناظر میں نہ دیکھیں ۔ ۔ یہاں بدقسمتی سے انصاف خرید لیا جاتا ہے ۔ ۔ صرف غریب کے لیے قانون وہ بھی ناقص ۔ ۔ دوسرے ممالک کے امن و سکون کا دارومدار انصاف پر ممکن ہے ۔ ۔ لوگ بلاخوف و خطر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور انصاف ملتا ہے ۔ ۔ ہر جرم کی سزا ملکی یا شرعی قانون کے تحت واضح ہوتی ہے تو ظاہر ہے ایسا بڑی حد تک ممکن ہے ۔ ۔ باقی شرکاء مطلب؟؟؟ شریک جرم بھی سزا کے مستحق ہوتے ہیں اور ان کو ملتی بھی ہے ۔ ۔
بچوں کو بچپن سے انصاف کا عادی بنانا بہتر ہوتا ہے ۔ ۔ جو بچہ بھی گڑ بڑ کرے اس کی عادت کو بدلنے کی کوشش ضرور کی جائے ۔ ۔ مثلاً اگر وہ بچہ ہے تو گاہے بگاہے اس کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی چیزیں سب میں تقسیم کروائیں جائیں ۔ ۔ ذاتی چیزیں شیئرنگ کی عادت ڈالیں ۔ ۔ ان کے ہاتھ سے خیرات کروائیں ۔ ۔وغیرہ ۔ ۔ بڑے بچوں سے ماں باپ اکیلے میں پیار سے بات کریں ۔ ۔ کرتے رہیں تو ایسا ممکن ہے ۔ ۔ یہ ہر گھر میں ہوتا ہے، عام بات ہے ۔ ۔ بس ذرا والدین بچوں کو دل بڑا کرنے کی عادت ڈالیں ۔ ۔ والدین آپس میں بھی انصاف سے کام لیں ۔ ۔ چھوٹوں کے بڑے کان ہوتے ہیں ۔ ۔ وہ دیکھ کر سیکھتے ہیں ۔ ۔ تو انصاف ہوتا دیکھیں گے تو کرنا خودبخود آجائے گا ۔ ۔ اور ہاں اللہ سے مدد مانگتے رہیں ۔ ۔ اللہ چاہے تو سب ممکن ہے ۔ ۔
میں نے بھی اسی طرح کے ساتھ کی بات کی تھی ۔ہیں جی آپ کو ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ ۔ صرف چالاک فلسفی ہی سمجھ پائے ۔ ۔ اور کیسے سر پر ہاتھ اور پاؤں رکھ کر بھاگے ۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ۔ ۔
چاچھ ابھی تو نہیں پی۔۔۔آپ چھاچھ پی ہی کیوں رہے ہیں۔۔۔ چائے پیجیے!!!
بندوق اور کس دن کام آئے گی؟؟؟بھئی جو راضی ہو وہی تو پیش کریں گے ۔ ۔ اب بندوق کی نوک پر پکڑ کر لائیں کیا ۔ ۔
ختم شدہ قصہ کے قضیہ کو دوبارہ ہوا کون دے رہا ہے؟؟؟چند دن پہلے ہم نے آپ ہی طرح ایک مظلوم صاحب abdul.rouf620 سر پر خاک ڈالے، گریباں چاک کیے اپنی مرحومہ لڑی کے سرہانے دھاڑے مارمار کر روتے دیکھا ۔ ۔ کلیجہ منہ کو آگیا ۔ ۔ وجہ یہ اپنے عمران بھیا ۔ ۔ جنہوں نے گرتی دیواروں کو دل بھر کے دھکے دیے اور دو باباؤں کو اتنا لڑایا کہ ہمیں بھی زندگی میں پہلی مرتبہ "ایک کی چونچ میں ایک کی دم" کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ آگیا ۔ ۔ اب خدا نہ کرے آپ کا اور لڑی کا بھی ایسا ہی حال ہو ۔ ۔
زبیر بھیا ایک وقت تک باقی سب پر ذمہ داری ڈالی جائے گی اس کے بعد نہیں۔۔۔۔ شعور وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر دین شرعیت اور قانون ہر اعتبار سے مجرم ہی جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔۔۔۔ جس انصاف کی آپ بات کر رہے ہیں (سسٹم میں موجود لوپ ہولز کی وجہ سے بگر پکچر میں ام بیلنس ہونا) وہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔۔۔۔ اس کا وعدہ ہے۔۔۔ وہ قیامت کے روز ہو گا۔۔۔ اس دنیا کے لئیے یہی طریقہ سکھایا گیا ہے کہ ہر شخص پر اس کے کئیے کا بار ہو گا۔۔۔۔ والدین، معاشرتی حالات، بچپن، زندگی اگر ان سب کا سو فیصد اثر ہوتا تو آپ کے سامنے ایسے انبیاء، اولیاء اللہ اور عمومی طور پر دنیا میں دیگر کامیاب یا بڑے لوگوں کی مثال نہ ہوتی جن کے بیک گراؤنڈ میں کوئی سپورٹ نہ تھی کہ یا حالات بہت ٹف تھے۔۔۔۔۔شرکاء سے مراد والدین ، معاشرہ اور معروضی حالات بھی ہیں ۔ جو نظر آ رہا ہوتا ہے ہے شاید وہ اکیلا مجرم نہیں ہوتا اور یہ آسان ہے کہ ایک کو مجرم ٹھہرا کر اور اسے سزا دے کر بظاہر انصاف کر دیا جائے اور یہ لگ بھگ نا ممکن کہ مجرم کوجرم میں اس کا جتنا حصہ بنتا ہےاس کی ہی سزا ملے ۔
انصاف والی گتھی مجھے بہت الجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اسے سلجھانا شاید ہم انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔
کچھ بھی ایک دم سے نہیں ہو جاتا اگر عوامل جاننے کی کوشش کی جائے تو (بظاہر) قصور وار کے معروضی حالات ، اس کا خاندانی پس منظر اس کے بچپن کے حالات و واقعات کو بھی دیکھنا چاہیے اس کے والدین پر بھی ذمہ داری ڈالنی چاہیے۔
اس کے دماغ کا سکین کر کے،دماغی طور پر کسی صحت مند آدمی (جو کسی بھی طرح کے جرائم میں ملوث نہ ہو )کے دماغ سے موازنہ بھی کرنا چاہے اگر (بظاہر ) قصوروار کے دماغ کی جسمانی ساخت میں ہی فر ق نکلے تو کیا اسے معذوری نہیں گردانا جا سکتا؟
تعلق دونوں باتوں سے ہے۔
دفتر میں جا کر نوٹ کروائیں۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں ہم آپ کے لئیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔ہم ایسا ہرگز نہیں کرنے والے۔۔۔
مگر ہمارے جائز مطالبات تو مانیں جائیں!!
بٹیا فیس تک تو جمع نہیں کی اب تک ؟دفتر میں جا کر نوٹ کروائیں۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں ہم آپ کے لئیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔
دفتر کی کراچی برانچ کا ایڈریس پلیز!!!دفتر میں جا کر نوٹ کروائیں۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں ہم آپ کے لئیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔
جو شادی کرے اسے چار دو!!!ہمیں یہی کہا کہ جو چوری کرے اسے سزا دو۔۔۔ جو قتل کرے اسے سزا دو وغیرہ۔۔۔
فکر نہیں کریں آنی۔۔۔۔ ایک بار ان کے مطالبات سامنے آئیں پھر دیکھتیں ان سے چائے پانی شادی دفتر میں پینا ہے یا تھانے میں یا کینٹین میں ابٹیا فیس تک تو جمع نہیں کی اب تک ؟
شادی تو خواتین کی بھی ہوتی گولیاں مارتی جائیں پھر؟جو شادی کرے اسے چار دو!!!