بنا کے بلبلہ ہم اس کو پھوڑ دیں

سیما علی

لائبریرین
لنڈورے ہی تو نہیں ہیں۔۔۔ ان کی پہاڑ سی زندگی تو ان کی دنیا کی مایہ ناز کوہ پیما پہلے ہی سر کر چکیں۔۔۔ یہ ایویں بس شوقیہ ادھر ادھر پھلجڑیاں چھوڑتے پھر رہے :ROFLMAO:
روتے تو ایسے ہیں کہ ہم لوگ انکے چھم چھم بہتے نین دیکھ نرم پڑ جاتے ہیں۔
 

زبیر حسین

محفلین
آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو شعور دیا ہے۔۔۔۔ انسان اور جانور میں سوچ اور سمجھ کا ہی فرق ہے۔۔۔ کسی جانور کو سدھا دیں تو وہ بن سوچے سمجھے آپ کی بات مانے جائے گا۔۔۔ مگر انسان کو اللہ پاک نے دماغ دیا ہے۔۔۔ ایک عمر کے بعد انسان اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے ہماری مصیبت ہی یہ ہے کہ ہم اتنے میچور ہی نہیں کہ اپنے ایکشنز کی ذمہداری لیں۔۔۔ تبھی یہ نکتہ نکلتا کہ جرم کرنے والے کو اس لی سزا اور شرکاء کو ان کی سزا ملے۔۔۔۔ شرکا کون؟ معاشرہ؟ معاشرہ بھی افراد سے بنتا نا۔۔۔۔ ہر فرد کم از کم اپنی ذمہ داری لے اپنے ساتھ خود تو انصاف کرے۔۔۔ یہ بھی انصاف ہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ساری عمر بے بی سمجھ کر اپنے ہر عمل کی ذمہ داری دوسروں پر مت ڈالتے رہیں۔۔۔۔
یہ شاید بات پٹڑری سے اتر گئی۔۔۔
شرکاء سے مراد والدین ، معاشرہ اور معروضی حالات بھی ہیں ۔ جو نظر آ رہا ہوتا ہے ہے شاید وہ اکیلا مجرم نہیں ہوتا اور یہ آسان ہے کہ ایک کو مجرم ٹھہرا کر اور اسے سزا دے کر بظاہر انصاف کر دیا جائے اور یہ لگ بھگ نا ممکن کہ مجرم کوجرم میں اس کا جتنا حصہ بنتا ہےاس کی ہی سزا ملے ۔
انصاف والی گتھی مجھے بہت الجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اسے سلجھانا شاید ہم انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔
کچھ بھی ایک دم سے نہیں ہو جاتا اگر عوامل جاننے کی کوشش کی جائے تو (بظاہر) قصور وار کے معروضی حالات ، اس کا خاندانی پس منظر اس کے بچپن کے حالات و واقعات کو بھی دیکھنا چاہیے اس کے والدین پر بھی ذمہ داری ڈالنی چاہیے۔
اس کے دماغ کا سکین کر کے،دماغی طور پر کسی صحت مند آدمی (جو کسی بھی طرح کے جرائم میں ملوث نہ ہو )کے دماغ سے موازنہ بھی کرنا چاہے اگر (بظاہر ) قصوروار کے دماغ کی جسمانی ساخت میں ہی فر ق نکلے تو کیا اسے معذوری نہیں گردانا جا سکتا؟

لیکن ایک بات کلئیر کیجیے کیا انصاف کی اس بات کا تعلق اول ذکر (عمومی طریقہ) سے ہے یا دوم ذکر (بچوں سے)؟؟؟؟
کیونکہ بچوں سےمتعلق میں ذرا زیادہ پوزیسو ہوں۔۔۔ ایویں ایموشنل ہو کر تقریریں نہیں لکھنا چاہتی۔۔۔

تعلق دونوں باتوں سے ہے۔
 

زبیر حسین

محفلین
باریکی ہی سے دیکھیں تو ایسا ممکن ہے ۔ ۔ پاکستان کے تناظر میں نہ دیکھیں ۔ ۔ یہاں بدقسمتی سے انصاف خرید لیا جاتا ہے ۔ ۔ صرف غریب کے لیے قانون وہ بھی ناقص ۔ ۔ دوسرے ممالک کے امن و سکون کا دارومدار انصاف پر ممکن ہے ۔ ۔ لوگ بلاخوف و خطر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور انصاف ملتا ہے ۔ ۔ ہر جرم کی سزا ملکی یا شرعی قانون کے تحت واضح ہوتی ہے تو ظاہر ہے ایسا بڑی حد تک ممکن ہے ۔ ۔ باقی شرکاء مطلب؟؟؟ شریک جرم بھی سزا کے مستحق ہوتے ہیں اور ان کو ملتی بھی ہے ۔ ۔
بچوں کو بچپن سے انصاف کا عادی بنانا بہتر ہوتا ہے ۔ ۔ جو بچہ بھی گڑ بڑ کرے اس کی عادت کو بدلنے کی کوشش ضرور کی جائے ۔ ۔ مثلاً اگر وہ بچہ ہے تو گاہے بگاہے اس کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی چیزیں سب میں تقسیم کروائیں جائیں ۔ ۔ ذاتی چیزیں شیئرنگ کی عادت ڈالیں ۔ ۔ ان کے ہاتھ سے خیرات کروائیں ۔ ۔وغیرہ ۔ ۔ بڑے بچوں سے ماں باپ اکیلے میں پیار سے بات کریں ۔ ۔ کرتے رہیں تو ایسا ممکن ہے ۔ ۔ یہ ہر گھر میں ہوتا ہے، عام بات ہے ۔ ۔ بس ذرا والدین بچوں کو دل بڑا کرنے کی عادت ڈالیں ۔ ۔ والدین آپس میں بھی انصاف سے کام لیں ۔ ۔ چھوٹوں کے بڑے کان ہوتے ہیں ۔ ۔ وہ دیکھ کر سیکھتے ہیں ۔ ۔ تو انصاف ہوتا دیکھیں گے تو کرنا خودبخود آجائے گا ۔ ۔ اور ہاں اللہ سے مدد مانگتے رہیں ۔ ۔ اللہ چاہے تو سب ممکن ہے ۔ ۔

بالکل ایسا ہر گھر میں ہوتا ہو گا اور یہ عام سی بات ہی ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ انصاف کرنے کے بارے میں ہم معذور ہیں ۔
کیوں کہ اوپر میں نے اپنے بچوں کی بات کر دی تو اسی پر وضاحت کر دیتا ہوں ۔چھوٹوں کو بڑے سے کوئی مسئلہ نہیں اسے بے شک سب کچھ چھوٹوں کی نسبت زیادہ ملتا رہے ۔بڑے کی اس فطرت کے پیچھے بھی کہانی ہےوہ کافی عرصہ اکیلے راج کرتا رہا اس سے اپنی کوئی چیز کسی سے شئیر نہیں کرنا پڑتی تھی یہی اس کے تجربات تھے جو اس کی یاداشت میں شامل ہیں اب کچھ عرصہ تو اس نے چیزوں کو اسی تناظر میں دیکھنا ہے۔ رفتہ رفتہ نئے تجربات سے چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔

اب مجرم والی بات کو دیکھیں۔ اگر مجرم کی سابقہ زندگی کے حالات و واقعات اور ان کے نتیجے میں برے تجربات ہی اس کی یاداشت میں پیوست ہیں تو کیا صرف وہی مجرم ہے اور سزاوار بھی ؟ یا ہم سارے قصورواروں کا تعین کرنے میں ناکام ہیں اورجس کا جرم میں بڑا اور واضح حصہ ہے اس کے لئے سزا تجویز کر کے کم سے کم ممکن انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔
 

زبیر حسین

محفلین
ہیں جی آپ کو ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ ۔ :surprise::surprise::surprise: صرف چالاک فلسفی ہی سمجھ پائے ۔ ۔ اور کیسے سر پر ہاتھ اور پاؤں رکھ کر بھاگے ۔ ۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ۔ ۔
میں نے بھی اسی طرح کے ساتھ کی بات کی تھی ۔:unsure:
 

سید عمران

محفلین
چند دن پہلے ہم نے آپ ہی طرح ایک مظلوم صاحب abdul.rouf620 سر پر خاک ڈالے، گریباں چاک کیے اپنی مرحومہ لڑی کے سرہانے دھاڑے مارمار کر روتے دیکھا ۔ ۔ :cry2::cry2::cry2::cry2: کلیجہ منہ کو آگیا ۔ ۔ وجہ یہ اپنے عمران بھیا ۔ ۔ جنہوں نے گرتی دیواروں کو دل بھر کے دھکے دیے اور دو باباؤں کو اتنا لڑایا کہ ہمیں بھی زندگی میں پہلی مرتبہ "ایک کی چونچ میں ایک کی دم" کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ آگیا ۔ ۔ :angry2::angry2::atwitsend::atwitsend:اب خدا نہ کرے آپ کا اور لڑی کا بھی ایسا ہی حال ہو ۔ ۔ :praying::praying::praying::praying:
ختم شدہ قصہ کے قضیہ کو دوبارہ ہوا کون دے رہا ہے؟؟؟
ہمارا نام یونہی بدنام ہے!!!
 

ماہی احمد

لائبریرین
شرکاء سے مراد والدین ، معاشرہ اور معروضی حالات بھی ہیں ۔ جو نظر آ رہا ہوتا ہے ہے شاید وہ اکیلا مجرم نہیں ہوتا اور یہ آسان ہے کہ ایک کو مجرم ٹھہرا کر اور اسے سزا دے کر بظاہر انصاف کر دیا جائے اور یہ لگ بھگ نا ممکن کہ مجرم کوجرم میں اس کا جتنا حصہ بنتا ہےاس کی ہی سزا ملے ۔
انصاف والی گتھی مجھے بہت الجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اسے سلجھانا شاید ہم انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔
کچھ بھی ایک دم سے نہیں ہو جاتا اگر عوامل جاننے کی کوشش کی جائے تو (بظاہر) قصور وار کے معروضی حالات ، اس کا خاندانی پس منظر اس کے بچپن کے حالات و واقعات کو بھی دیکھنا چاہیے اس کے والدین پر بھی ذمہ داری ڈالنی چاہیے۔
اس کے دماغ کا سکین کر کے،دماغی طور پر کسی صحت مند آدمی (جو کسی بھی طرح کے جرائم میں ملوث نہ ہو )کے دماغ سے موازنہ بھی کرنا چاہے اگر (بظاہر ) قصوروار کے دماغ کی جسمانی ساخت میں ہی فر ق نکلے تو کیا اسے معذوری نہیں گردانا جا سکتا؟



تعلق دونوں باتوں سے ہے۔
زبیر بھیا ایک وقت تک باقی سب پر ذمہ داری ڈالی جائے گی اس کے بعد نہیں۔۔۔۔ شعور وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر دین شرعیت اور قانون ہر اعتبار سے مجرم ہی جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔۔۔۔ جس انصاف کی آپ بات کر رہے ہیں (سسٹم میں موجود لوپ ہولز کی وجہ سے بگر پکچر میں ام بیلنس ہونا) وہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔۔۔۔ اس کا وعدہ ہے۔۔۔ وہ قیامت کے روز ہو گا۔۔۔ اس دنیا کے لئیے یہی طریقہ سکھایا گیا ہے کہ ہر شخص پر اس کے کئیے کا بار ہو گا۔۔۔۔ والدین، معاشرتی حالات، بچپن، زندگی اگر ان سب کا سو فیصد اثر ہوتا تو آپ کے سامنے ایسے انبیاء، اولیاء اللہ اور عمومی طور پر دنیا میں دیگر کامیاب یا بڑے لوگوں کی مثال نہ ہوتی جن کے بیک گراؤنڈ میں کوئی سپورٹ نہ تھی کہ یا حالات بہت ٹف تھے۔۔۔۔۔
ایک چھوٹی سی مثال لیجیے۔۔۔۔ تفریحا خودکشی نہیں کی جاتی۔۔۔۔ اپنی جان خود لینا اتنا بھی آسان نہیں۔۔۔۔ کیا یہ بات اللہ پاک نہ جانتے تھے؟؟؟ وہ جانتے ہیں سٹریس ڈیپریشن اور کتنے شدید ذہنی تناؤ کے بعد انسان اس حد تک پہنچتا۔۔۔ مائیں ہیں باپ ہیں جو اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیتے ہیں۔۔۔۔ اللہ نے یا اللہ کے نبی ص نے کہیں بھی کسی کو بھی بینیفٹ نہیں دیا۔۔۔۔ خودکشی حرام ہی ہے۔۔۔۔ قتل، قتل ہی ہے۔۔۔۔ دونوں جرم ہی ہیں۔۔۔۔ اس بات کا فیصلہ کہ مجرم کی ذہنی حالت کیا تھی۔۔۔ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔۔۔۔ ہمیں یہی کہا کہ جو چوری کرے اسے سزا دو۔۔۔ جو قتل کرے اسے سزا دو وغیرہ۔۔۔
 
Top