حسن ماشاءاللہ آٹھ سال کا ہوگیا۔
تین سال پہلے حسن نے مجھ سے پوچھا: "بابا، یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں، کیا یہ واقعی سچ ہے یا پھر کوئی ڈائنوسار ہمیں اپنے خواب میں دیکھ رہا ہے؟"
بھتیجی دادو جان سے:
دادو، آپ دعا میں کیا مانگتی ہیں؟؟
دادو: بیٹا، دعا میں اللہ تعالیٰ سے وہ مانگتے ہیں جو چاہیے ہوتا ہے۔
بھتیجی: (بآواز بلند) اللہ تعالیٰ جی، مجھے ایک ڈورا کیک، ہور (اور) ایک گورو گورو کامکس، ہور ایک ویڈیو گیم، ہور ایک اسٹابری والا جیم چاہیے۔ آمین
چھٹی والے دن صبح جاگنے کے بعد بھتیجا صاحب کی مڈبھیڑ پھپھو سے ہوئی۔
بھتیجا موصوف: بابا ابھی ادھر ہی ہیں؟
پھپھو: پتہ نہیں گھر آئے بھی ہیں یا نہیں۔ (بابا کی نائٹ ڈیوٹی تھی)۔
بھتیجا موصوف: آئے ہوئے ہیں۔ مجھے رات کو گیٹ کی آواز آئی تھی۔
پھپھو: اف تمھارے کان کتنے پتلے ہیں۔
بھتیجا موصوف: بہت پتلے ہیں۔ ساتھ والوں کی مرغی کی آواز بھی سن لی ہے۔ حضرت سلمان علیہ السلام کو بھی ایسے ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اللہ تعالی نے مجھے بھی حضرت سلمان علیہ السلام جیسے کان دیے ہیں۔
بھتیجا موصوف اپنے سکول کا کام کر رہے تھے۔پھپھو پاس سے گزریں۔ کام دیکھ کر سوال کیا۔
پھپھو: یہ persuasive words یا phrases کیا ہوتی ہیں؟
بھتیجا: جیسے جو phrases اشتہاروں میں استعمال کی جاتی ہیں تا کہ لوگ آپ کی چیز خرید لیں۔
پھپھو: اچھا ڈکشنری کے اشتہار میں آپ persuasive words کیسے استعمال کریں گے؟
بھتیجا: میں تو آپ کی پرانی ڈکشنریاں بیچوں گا۔ 10% discount پر۔
(میری ڈکشنریوں کی شامت اس لیے کہ پھپھو جب اپنی کتابیں کھنگالتی ہیں کبھی اردو کبھی انگریزی کبھی سائنس وغیرہ کی ڈکشنری نکال کر دیتی ہیں کہ اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرو۔ اور بعد میں پوچھ پوچھ کر تنگ کرتی رہتی ہیں کہ کتنے نئے الفاظ سیکھے)۔
بھتیجا موصوف اپنے سکول کا کام کر رہے تھے۔پھپھو پاس سے گزریں۔ کام دیکھ کر سوال کیا۔
پھپھو: یہ persuasive words یا phrases کیا ہوتی ہیں؟
بھتیجا: جیسے جو phrases اشتہاروں میں استعمال کی جاتی ہیں تا کہ لوگ آپ کی چیز خرید لیں۔
پھپھو: اچھا ڈکشنری کے اشتہار میں آپ persuasive words کیسے استعمال کریں گے؟
بھتیجا: میں تو آپ کی پرانی ڈکشنریاں بیچوں گا۔ 10% discount پر۔
(میری ڈکشنریوں کی شامت اس لیے کہ پھپھو جب اپنی کتابیں کھنگالتی ہیں کبھی اردو کبھی انگریزی کبھی سائنس وغیرہ کی ڈکشنری نکال کر دیتی ہیں کہ اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرو۔ اور بعد میں پوچھ پوچھ کر تنگ کرتی رہتی ہیں کہ کتنے نئے الفاظ سیکھے)۔
اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا سوچا یہاں شیئر کردوں:
میں بہت چھوٹا تھا اتنا جس عمر میں بچے صرف اپنے مطلب کی بات سمجھتے ہیں۔
"برابر والی خالہ نے ایک بار کہا بیٹا مجھے سامنے والی دکان سے دہی لا دو (میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ سےکچھ اندازہ لگا کر) انہوں نے اضافہ کیا اور جو پیسے بچیں وہ تم لے لینا میں نے جلدی سے پیسے لیے اور خوشدلی سے انہیں جی اچھا خالہ کہہ کر چلدیا جب دکان پر پہنچا تو دہی ختم ہو چکی تھی میں نے حساب لگایاکے ایک پاؤ دہی کے بعد کتنے پیسے بچتے ہیں میں نے پیسے کھلے کروائے اور جو بچتے تھے وہ اپنی جیب میں ڈال کر واپس گیا اور پیسے واپس کر کے کہا دہی ختم ہو گئی ہے اور مجھے دینے کے پیسے تھے وہ میں نے لے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بچاری حیرت اور بے بسی سے مجھے دیکھ کر رہ گئیں ۔۔۔"
اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا سوچا یہاں شیئر کردوں:
میں بہت چھوٹا تھا اتنا جس عمر میں بچے صرف اپنے مطلب کی بات سمجھتے ہیں۔
"برابر والی خالہ نے ایک بار کہا بیٹا مجھے سامنے والی دکان سے دہی لا دو (میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ سےکچھ اندازہ لگا کر) انہوں نے اضافہ کیا اور جو پیسے بچیں وہ تم لے لینا میں نے جلدی سے پیسے لیے اور خوشدلی سے انہیں جی اچھا خالہ کہہ کر چلدیا جب دکان پر پہنچا تو دہی ختم ہو چکی تھی میں نے حساب لگایاکے ایک پاؤ دہی کے بعد کتنے پیسے بچتے ہیں میں نے پیسے کھلے کروائے اور جو بچتے تھے وہ اپنی جیب میں ڈال کر واپس گیا اور پیسے واپس کر کے کہا دہی ختم ہو گئی ہے اور مجھے دینے کے پیسے تھے وہ میں نے لے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بچاری حیرت اور بے بسی سے مجھے دیکھ کر رہ گئیں ۔۔۔"
اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا سوچا یہاں شیئر کردوں:
میں بہت چھوٹا تھا اتنا جس عمر میں بچے صرف اپنے مطلب کی بات سمجھتے ہیں۔
"برابر والی خالہ نے ایک بار کہا بیٹا مجھے سامنے والی دکان سے دہی لا دو (میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ سےکچھ اندازہ لگا کر) انہوں نے اضافہ کیا اور جو پیسے بچیں وہ تم لے لینا میں نے جلدی سے پیسے لیے اور خوشدلی سے انہیں جی اچھا خالہ کہہ کر چلدیا جب دکان پر پہنچا تو دہی ختم ہو چکی تھی میں نے حساب لگایاکے ایک پاؤ دہی کے بعد کتنے پیسے بچتے ہیں میں نے پیسے کھلے کروائے اور جو بچتے تھے وہ اپنی جیب میں ڈال کر واپس گیا اور پیسے واپس کر کے کہا دہی ختم ہو گئی ہے اور مجھے دینے کے پیسے تھے وہ میں نے لے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بچاری حیرت اور بے بسی سے مجھے دیکھ کر رہ گئیں ۔۔۔"
نکے چوہدری صاحب کی مونٹیسری اس سال اختتام کو تھی تو یہ فکر لگ گئی کہ اب کہاں داخل کروایا جائے۔ کلاس ون میں داخلے کے لیے بھی ہر بہترین سکول کا نہایت ٹف انٹرنس ایگزام ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اللہ کا نام لیکر واہ کے سب سے بہترین سکول (سرسید) کا داخلہ فارم لیا جہاں ہر سال ۱۵۰ سیٹوں کے لیے ہزار سے پندرہ سو تک بچے کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
دو ہفتے پہلے انٹرنس ایگزام تھا تو خود ساتھ گیا۔ نو بجے امتحان شروع ہوا، کوئی ۳۰، ۳۵ منٹ بعد ہی کسی طرف سے آواز آئی کہ ایک بچہ باہر آ گیا ہے اور بہت سی خواتین نے اسے گھیر رکھا ہے اور پوچھ رہی ہیں کہ ٹیسٹ میں کیا کیا آیا ہے؟ پانچ چھ منٹ تو میں بیٹھا رہا ، لیکن پھر رہا نا گیا تو خود بھی اٹھ کر اُس طرف چلا گیا۔ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ کوئی اور نہیں، اپنے نکے چوہدری صاحب ماؤں، بہنوں، نانیوں دادیوں کے جھرمٹ میں کھڑے شرماتے شرماتے ٹیسٹ میں آئے سوالات بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے اتنی جلدی باہر دیکھ کر میری تو سٹی گم ہو گئی کہ دو گھنٹے وقت والا ٹیسٹ آدھے گھنٹے میں کر کے آ گیا ہے، ضرور بہت مشکل ہو گا جو فٹا فٹ باہر نکل آیا ہے۔ میں نے تین چار آوازیں دیں اور بمشکل خواتینی غولوں سے باہر نکال کر ایک طرف لے گیا اور جلدی جلدی پوچھا کہ اتنی جلدی کیوں باہر آ گئے ہو ؟ بجائے جواب دینے کے؛ بولا، ’پاپا یہاں سے جلدی چلیں ان آنٹیوں نے سوال پوچھ پوچھ کر مجھے پاگل کر دیا ہے‘۔
خیر، کچھ دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے تو پھر پوچھا کہ کیسا ہوا ہے ٹیسٹ اور اتنی جلدی کیسے باہر آ گئے ہیں؟ کہنے لگا، مجھے سب کچھ آتا تھا، بس ایک ’ف‘ سے کیا لفظ بنتا ہے وہ یاد نہیں آ رہا تھا۔ میں نے پوچھا پھر ؟ کہنے لگے کچھ دیر سوچتا رہا پھر ’ف‘ سے ’فارغ‘ لکھ دیا۔ میں نے کہا عبداللہ جتنی جلدی آپ باہر آئے ہیں یہ سکول والے بھی آپ کو فارغ ہی کر دیں گے۔ زور دار قہقہہ لگا کر بولا، پاپا جب رزلٹ آئے گا تب آپ کو پتا لگے گا کہ کون فارغ ہے۔
آج میرٹ لسٹ لگنی تھی
نکے چوہدری جی کا نام میرٹ لسٹ میں ماشااللہ سے ساتویں نمبر پر تھا۔ شکر الحمدللہ
۔ سکول گیا تو سکول کے بورڈ کی ایک تصویر بنا لی یہ سوچ کر کے محفل پر لگاؤں گا کہ محفل کے بانیوں میں سے ایک اسی سکول کے طالبعلم رہے ہیں۔ زیک
نکے چوہدری صاحب کی مونٹیسری اس سال اختتام کو تھی تو یہ فکر لگ گئی کہ اب کہاں داخل کروایا جائے۔ کلاس ون میں داخلے کے لیے بھی ہر بہترین سکول کا نہایت ٹف انٹرنس ایگزام ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اللہ کا نام لیکر واہ کے سب سے بہترین سکول (سرسید) کا داخلہ فارم لیا جہاں ہر سال ۱۵۰ سیٹوں کے لیے ہزار سے پندرہ سو تک بچے کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
دو ہفتے پہلے انٹرنس ایگزام تھا تو خود ساتھ گیا۔ نو بجے امتحان شروع ہوا، کوئی ۳۰، ۳۵ منٹ بعد ہی کسی طرف سے آواز آئی کہ ایک بچہ باہر آ گیا ہے اور بہت سی خواتین نے اسے گھیر رکھا ہے اور پوچھ رہی ہیں کہ ٹیسٹ میں کیا کیا آیا ہے؟ پانچ چھ منٹ تو میں بیٹھا رہا ، لیکن پھر رہا نا گیا تو خود بھی اٹھ کر اُس طرف چلا گیا۔ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ کوئی اور نہیں، اپنے نکے چوہدری صاحب ماؤں، بہنوں، نانیوں دادیوں کے جھرمٹ میں کھڑے شرماتے شرماتے ٹیسٹ میں آئے سوالات بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے اتنی جلدی باہر دیکھ کر میری تو سٹی گم ہو گئی کہ دو گھنٹے وقت والا ٹیسٹ آدھے گھنٹے میں کر کے آ گیا ہے، ضرور بہت مشکل ہو گا جو فٹا فٹ باہر نکل آیا ہے۔ میں نے تین چار آوازیں دیں اور بمشکل خواتینی غولوں سے باہر نکال کر ایک طرف لے گیا اور جلدی جلدی پوچھا کہ اتنی جلدی کیوں باہر آ گئے ہو ؟ بجائے جواب دینے کے؛ بولا، ’پاپا یہاں سے جلدی چلیں ان آنٹیوں نے سوال پوچھ پوچھ کر مجھے پاگل کر دیا ہے‘۔
خیر، کچھ دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے تو پھر پوچھا کہ کیسا ہوا ہے ٹیسٹ اور اتنی جلدی کیسے باہر آ گئے ہیں؟ کہنے لگا، مجھے سب کچھ آتا تھا، بس ایک ’ف‘ سے کیا لفظ بنتا ہے وہ یاد نہیں آ رہا تھا۔ میں نے پوچھا پھر ؟ کہنے لگے کچھ دیر سوچتا رہا پھر ’ف‘ سے ’فارغ‘ لکھ دیا۔ میں نے کہا عبداللہ جتنی جلدی آپ باہر آئے ہیں یہ سکول والے بھی آپ کو فارغ ہی کر دیں گے۔ زور دار قہقہہ لگا کر بولا، پاپا جب رزلٹ آئے گا تب آپ کو پتا لگے گا کہ کون فارغ ہے۔
آج میرٹ لسٹ لگنی تھی
نکے چوہدری جی کا نام میرٹ لسٹ میں ماشااللہ سے ساتویں نمبر پر تھا۔ شکر الحمدللہ
۔ سکول گیا تو سکول کے بورڈ کی ایک تصویر بنا لی یہ سوچ کر کے محفل پر لگاؤں گا کہ محفل کے بانیوں میں سے ایک اسی سکول کے طالبعلم رہے ہیں۔ زیک
میں ٹیسٹ والے دن کوئی تیس سال بعد ادهر گیا تها. یہ گیٹ گول بلڈنگ والی سائیڈ پر ہے. ایک گیٹ شاید آرڈیننس کلب / سکواش کورٹ والی سائیڈ پر بهی ہوتا تها لیکن اب وہ سڑک ڈی ایس جی نے پبلک کے لیے بند کر دی ہے.
شاید پرائمری تک کو ایجوکیشن ہو کہ لسٹس سیکشن وائز لگی تهیں اور ان میں بچیوں کے نام بهی تهے.